قائد اعظم پر قاتلانہ حملہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ آگے بڑھنے سے قبل، قائد اعظم رحمہ اللہ کے مخالفین پر نظر ڈالیں تا کہ واضح ہو سکے کہ وہ کس حد تک گر چکے تھے ۔ حالیہ دنوں مولانا فضل الرحمن کے بیٹے نے پارلمنٹ میں کہا۔”ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، کتنے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ مولوی اسلام کا نام لے کر غلط بیانی کرتےہیں۔
ذرا دیکھیے ، مولوی ابوالکلام آزاد کی کتاب India wins Freedem جن کا ترجمہ آزادی ہند کے نام سے رئیس احمد جعفری نے کیا ہے۔ صفحہ 145 پہ لکھتے ہیں:
کانگریس کے ساتھ ساتھ مسلم تحریکیں جس میں جمعیتہ علماء ، خاکسار تحریک، مجلس احرار اور دیگر تحریکیں مسلم لیگ کے خلاف محاذ بنا چکی تھیں۔ انہوں نے مسلم لیگ کے راستے میں کانٹے بچھائے، پتھر پھینکے، چاقو اور خنجر سے وار کیے جلسوں کو درہم برہم کرنے کی کوششیں کرتے رہتے۔کانگرس نے اور کانگرس کے ان حلیفوں نے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا. مجلس احرار کے واعظان آتش مقال اور علماء شیوا بیان دورے پر نکل پڑے ، بمبئی کا وہ جلسہ جس میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری اور شورش کا شمیری کی خطاب نے رنگ باندھ دیا تھا، لیکن بری طرح پٹے ، دیوبند کے طلبہ کی ایک جماعت مولوی حسین احمد مدنی کی سربراہی میں شہر شہر اور قریہ قریہ کا گشت کر رہی تھی جہاں موقع ملتا ، مولانا آزاد بھی پرواز پیدا کر کے یعنی طیارہ پر اڑ کر پہنچ جاتے ، مجلس احرار و خاکسار میدان انتخاب میں زور زبان اور قوت استدلال سے زیادہ دست و بازو کی طاقت کے بل پر اترے، ہنگامہ آرائی کی ، شورش اور بدامنی کے مظاہرے کیے، ان کا کوئی عظیم الشان جلسہ ایسا نہیں ہوا جس میں مسلم لیگ کو اور قائد اعظم کو ایک ایک منہ میں سوسو گالیاں نہ دی گئی ہوں۔ قائد اعظم کی ذات پر گفتنی اور نا گفتنی الزامات نہ لگائے ہوں ۔ مسلم لیگ کی قیادت کے خلاف کفر و فسق کے ہے فتوے نہ دیے گئے ہوں مولوی مظہرعلی اظہر نے زندگی میں شاید پہلی مرتبہ ایک شعر کہا جو کافی مشہور ہوا۔
اک کافرہ کے واسطے اسلام کو چھوڑا
یہ قائد اعظم ہے کہ کافراعظم !
کافرہ سے مراد قائداعظم کی مرحوم بیوی تھی جو کہ ایک پارسی کروڑ پتی کی لڑکی تھی لیکن شریف دیوجی کانجی کے سامنے ایک شیعہ مجتہد کے ہا تھ پر باقاعدہ مشرف باسلام ہوچکی تھیں۔ بمبئی کے مسلم قبرستان میں آسودہ خاک ہے۔ روز روشن کی عیاں ہے قائد اعظم کی بیوی نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ مگر حسین احمد مدنی ، اظہر ،مفتی محمود کو اسرار تھا کہ وہ کافرہ ہے۔ ان باتوں کا تذکرہ اس لیے کیا گیا کہ سمجھ آ جائے قائد اعظم پر حملہ ان مولویوں کی شرر انگیزی کا ہی نتیجہ تھی۔
اب اکبر اے پیر بھائی کا بقیہ حصہ ملاحظہ فرمائیں۔
وہ لکیثر روڈ پر چلتا ہوا مونٹ پلیزنٹ روڈ پر اس گھر کے دروازے تک پہنچ جاتا ہے۔ اُس وقت دن کا سوا ایک بجا ہے جب وہ گھر کے مین گیٹ پر پہنچتا ہے۔
وہ غیر معمولی وقت کا کیوں انتخاب کرتا ہے؟ اس کی بھی ایک وجہ ہے۔ اس وقت بیشتر ملازم دوپہر کے کھانے کے لئے چلے جاتے ہیں اور دوسرے باورچی خانے میں جناح صاحب کے لئے لنچ تیار کرتے ہیں۔ قتل کی منصوبہ بندی کرنے والے کے لئے یہ انتہائی موزوں وقت ہے۔ شاید اس وقت دروازے پر کوئی نہ ہو اور اس طرح اُسے سٹڈی یا لائبریری میں گھس کر وہاں مصروف جناح صاحب کو اچانک جا لینے کا موقع مل جائے۔ اس بناء پر یہ بڑا ہی موزوں وقت ہے۔ جونہی وہ بیرونی گیٹ میں داخل ہوتا ہے اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگتا ہے۔ وہ خوبصورت گارڈن اور پُر شکوہ گھر کو دیکھتا ہے۔ وہاں زندگی کے آثار کچھ زیادہ نہیں۔ جونہی وہ تھوڑا سا آگے بڑھتا ہے تو اس کی نظر گزرگاہ پر دروازے کی طرف کھڑے چوکیدار شاہ محمد پر پڑتی ہے تو وہ فوراً پیچھے ہٹتا ہے اور گیٹ کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ اسے اس کی توقع نہ تھی۔ اب وہ کیا کرے؟ وہ وہاں کھڑا سوچتا ہے۔ کام اگر اب نہ ہوا تو کبھی نہ ہو گا۔
وہ ہمت کر کے گارڈن والے راستے سے گزر کر گھر کی طرف جاتا ہے۔ جب وہ گھر کے سامنے درختوں کے حلقے کا چکر لگاتا ہے تو برآمدے کے اندرونی جانب ڈیوٹی پر موجود شاہ محمد اسے پوری طرح نظر آتا ہے۔ رفیق چوکیدار کے قریب پہنچتا ہے اور اسے سلام کرتا ہے۔ چوکیدار کے دریافت کرنے پر وہ بتاتا ہے کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کے لئے آیا ہے۔ اگر رفیق صابر اس گھر میں ایک ماہ پہلے آیا ہوتا تو اسے کوئی مشکل پیش نہ آتی۔ گھر کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے تھے اور جناح صاحب تک پہنچنا آسان تھا لیکن 26 جولائی 1943ء کو ایسا نہ تھا۔ لاتعداد خطوط چٹھیاں اور تاریں جو انہیں موصول ہو رہی تھیں، ان میں کچھ کا انداز تو ٹھیک تھا لیکن بعض میں انہیں مبہم انداز میں دھمکی دی جاتی تھی اور بعض میں تو انہیں جان سے مار دینے کے عزم کا کھلم کھلا اظہار ہوتا تھا۔ اس وجہ سے جناح صاحب کو احتیاط کرنا پڑی۔ تاہم یہ احتیاطی تدابیر بہت معمولی تھیں۔ دوستوں اور ساتھیوں کے بار بار کہنے کے باوجود جناح صاحب کے گھر کے بیرونی دروازوں پر کوئی چوکیدار یا محافظ نہیں تھا اور ہر کوئی بغیر کسی رکاوٹ کے گھر تک آسکتا تھا۔ فرق صرف اتنا پڑا تھا کہ اب ملاقاتی سیدھے ان کی لائبریری تک نہیں جا سکتے تھے۔ بلکہ پہلے انہیں ان کے سیکرٹری کے پاس لے جایا جاتا تھا۔
ان احکام کی تعمیل میں شاہ محمد رفیق صابر مزنگوی کو گراؤنڈ فلور پر گھر کے ایسٹ رنگ میں واقع سیکرٹری کے دفتر میں لے گیا۔ وہاں پھر اس نے لیگ کے کچھ ضروری امور پر تبادلہ خیال کرنے کے سلسلے میں جناحصاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ سیکرٹری نے اس کا نام پوچھا تو رفیق نے جواب دیا کہ وہ کوئی بڑا آدمی نہیں، پھر نام میں کیا رکھا ہے۔ سیکرٹری نے اسے کہا کہ آج جناح صاحب بہت مصروف ہیں اس لئے آپ نے جو کچھ کہنا ہے وہ کاغذ پر لکھ دیں۔ جناح صاحب اس پر غور کریں گے اور اگر انہوں نے ضروری سمجھا تو وہ اسے ملاقات کے لئے وقت کا بتادیں گے۔ رفیق نے کاغذ اور قلم سنبھالا اور اردو میں لکھنا شروع کر دیا ۔ اُس وقت وہ سیکرٹری کی میز پر اس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے لکھا۔
”محترم جناح صاحب “
السلام علیکم ! میں بصد مشکلات بمبئی پہنچا ہوں۔ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے، مہربانی فرما کرشرف ملاقات بخشیں۔“
رفیق صابر مزنگوی
اتفاق دیکھئے ۔ جو نہی اس نے لکھنا ختم کیا جناح صاحب کسی فائل کی تلاش میں خود ہی سیکرٹری کے آفس میں چلے آئے۔ رفیق کو یہی تو چاہئے تھا۔ اس کا هدف چند فٹ دور اُس کی دسترس میں تھا۔ بعد میں جناح صاحب نے عدالت میں بتایا کہ وہ کاغذات یا فائل کی تلاش میں خود دفتر میں گئے۔ رفیق کو دیکھ کر قدرتی طور پر انہوں نے دریافت کیا یہ صاحب کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ سیکرٹری کے بتانے پر کہ یہ آپ سے ملاقات کے خواہشمند ہیں، جناح صاحب نے رفیق سے کہا کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے لکھ دے اور وہ اس پر بخوبی غور کر کے کل یا پرسوں ملاقات کے لئے کوئی وقت دے دیں گے۔ رفیق نے ضد کی تو جناح صاحب نے معذرت چاہی کہ وہ بہت مصروف ہیں اور فوری طور پر ملاقات کے لئے وقت نہیں دے سکتے۔
جناح صاحب نے بعد میں عدالت میں اپنی شہادت کے دوران بتایا - ”میری پوری توجہ خط و کتابت کی طرف تھی اور جونہی میں کمرے سے جانے لگا تو ملزم پلک جھپکنے میں میری طرف جھپٹا اور میرے بائیں جبڑے پر مکا مارا اور جونہی اس نے اپنی کمرے چاقو نکالا تو میں تھوڑا سا پیچھے کو ہٹ گیا.“
صاف ظاہر ہے کہ رفیق کھلے ہوئے بڑے چاقو کے ساتھ جناح صاحب پر قتل کی نیت سے حملہ آور ہوا تھا۔ جناح صاحب کا بایاں ہاتھ آگے بڑھ گیا جس سے انہوں نے رفیق کی دائیں کلائی پکڑ لی۔ نتیجتا اس کے وار کا زور ٹوٹ گیا۔ پھر بھی جواں سال رفیق کی زیادہ قوت اور ہاتھ کی نیچے کی جانب تیز رفتاری کے باعث چاقو کی دھار جناح صاحب کی ٹھوڑی سے جا گئی جہاں انہیں زخم آیا۔ ظاہر ہے چاقو کا نشانہ گلے کو پایا گیا تھا۔ یہ تو جناح صاحب کی مضبوط گرفت تھی جس کے نتیجے میں حملہ آور کا ہاتھ مڑ گیا اور گلے کی بجائے ٹھوڑی پر زخم آیا۔ ڈاکٹر مسینا نے عدالتی بیان میں کہا اگر چاقو نصف انچ نیچے جا لگتا تو اس سے تشویشناک نتائج پیدا ہو سکتے تھے۔ اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش میں رفیق کو جد وجہد کرنا پڑی۔ اس دوران جناح صاحب کے ہاتھ پر زخم آیا ۔ چاقو ان کے کوٹ کے بائیں کندھے پر بھی لگا جس سے لمبے رخ میں کوٹ کٹ گیا۔ سیکرٹری جو اس دوران چند گز دور تھا، جناح صاحب کو بچانے کے لئے آتا ہے اور ساتھ ہی دروازے پر کھڑے چوکیدار کو پکارتا ہے۔ سیکرٹری رفیق کو پیچھے ہٹاتا ہے اور دونوں کے درمیان میں آنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس اثناء میں شاہ محمد دوڑا آتا ہے اور حملہ آور کو پیچھے سے قابو میں کر لیتا ہے۔ رفیق کو جناح صاحب سے دور کر دیا جاتا ہے اور اُسے جناح صاحب کے کوٹ کا لیپل چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ باہر احاطے میں کار کے قریب کھڑا شوفر عبدالغنی آوازیں سن کر اور جھگڑے کا احساس کر کے دوڑا آتاہے اور بڑی ذہانت اور چابک دستی سے پلک جھپکنے میں رفیق کے ہاتھ سے چاقو چھین لیتا ہے۔ جناح صاحب بچ جاتے ہیں۔ یقینا یہ ایک معجزہ ہے۔ منصوبہ بلا شبہ مکمل تھا۔ جبڑے پر مکے کی ضرب لگانے کا مقصد جناح صاحب کو نیچے گرانا تھا۔ اس کے بعد چاقو گھونپنا بہت آسان ہوتا۔ اسے تو جناح صاحب کی جرات اور برداشت ہی کہنا چاہئے کہ وہ اپنے سے تقریبا" چالیس برس چھوٹے شخص کے مکے سے بس پیچھے ہٹے گرے نہیں اور جناح صاحب نے جس حاضر دماغی اور تحمل سے حملہ آور کی کلائی سخت گرفت میں لے لی یہ ان کے کردار اور شخصیت کا جادو اور روحانی قوت تھی۔فوری خطرے سے نکل جانے کے بعد جناح صاحب نے خود کو سنبھالا اور سیکرٹری کے دفتر کے عقبی دروازے سے لائبریری کی طرف چلے گئے۔ شوفر دوسری جانب کے برآمدے سے آیا اور رفیق ہے چھینا ہوا چاقو ان کے حوالے کر دیا۔ قدرتی طور پر اس واقعہ نے گھر میں خاصی ہلچل پیدا کر دی اور تمام ملازم دوڑتے ہوئے سیکرٹری کے دفتر میں پہنچ گئے۔
رفیق نے اپنے آپ کو چوکیدار کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی۔ چوکیدار واحد شخص تھا جس نے اسے پکڑ رکھا تھا۔ اس ہاتھا پائی کے دوران رفیق صابر فرش پر پھیلا اور اپنے آپ کو چھڑانے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ بجلی کی سی تیزی سے فرش پر سے اُٹھا اور پیشتر اس کے کہ چوکیدار اسے اپنی گرفت میں لیتا وہ برآمدے میں سے پھولوں کے تختوں کو پھلانگتا ہوا گارڈن میں چلا گیا اور گیٹ کی طرف بھاگنے لگا۔ چوکیدار اس کے تعاقب میں تھا اور شوفر بھی جو چاقو جناح صاحب کے حوالے کر کے واپس آگیا تھا اس کے تعاقب میں شامل ہو گیا۔ اس تعاقب کے دوران چوکیدار کی برق رفتاری اور جسمانی قوت کام آئی اور وہ رفیق کی قمیض پیچھے سے پکڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ قمیض پھٹ گئی لیکن وہ رکا نہیں۔ چوکیدار نے چھلانگ لگا کر اور کمر سے پکڑ کر اسے زمین پر گرا دیا اور توازن قائم نہ رکھنے کی وجہ سے خود بھی گر گیا۔ ایسا کارنامہ فٹ بال کا کوئی انٹرنیشنل کھلاڑی ہی کر سکتا ہے۔ شوفر جو چند گز پیچھے تھا اس نے چوکیدار کی مدد کو پہنچ کر کام مکمل کیا۔ آخر کار رفیق کو پکڑ لیا گیا۔ چوکیدار نے اسے ازار بند سے پکڑے رکھا اور اُسے سیکرٹری کے دفتر میں واپس لایا گیا۔ وہاں دوسرے ملازموں نے اسے گھیر لیا اور اپنی کڑی نگرانی میں رکھا۔
اب سیکرٹری سید احمد سید یعقوب گام دیوی پولیس سٹیشن اور ڈاکٹر مسینا کے ساتھ رابطہ قائم کرتا ہے۔ اسی اثناء میں جناح صاحب کی ہمشیرہ انہیں بالائی منزل پر لے جاتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں اور ٹھوڑی کے زخموں کی عارضی مرہم پٹی کی جاتی ہے۔ جب دو بجے کے بعد ڈاکٹر مسینا وہاں پہنچتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں کہ جناح صاحب بالائی منزل میں اپنے بستر پر بیٹھے ایک پولیس افسر کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں۔ وہ ذرا سا بھی پریشان نظر نہیں آتے۔ ان کا کالر قمیض اور کوٹ خون آلود ہیں۔ کندھے سے کوٹ کئی جگہ سے کٹا ہوا۔ ڈاکٹر مسینا عارضی پٹیاں اُتار دیتے ہیں۔ زخموں کو دھوتے ہیں اور دوا لگا دیتے ہیں۔ اس دوران ڈاکٹر کے چہرے پر سنجیدگی چھا جاتی ہے اور وہ مضطرب دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی بات ہے۔ وہ اس خاندان کے پرانے دوست ہیں۔ جناح صاحب کے ساتھ ان کے تعلقات کو تیس سال سے زائد ہو چکے ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ جناح صاحب تو بال بال بچے ہیں۔ جیسا کہ انہوں (ڈاکٹر مسینا) نے اپنے عدالتی بیان میں کہا کہ اگر چاقو نصف انچ نیچے لگتا تو اس کے نتائج بہت تشویشناک ہو سکتے تھے۔ جب زخموں پر پٹی کر دی گئی تو جناح صاحب گام دیوی پولیس سٹیشن کے انسپکٹر مسٹر کل برن (KILBURN) کے ساتھ گفتگو جاری رکھتے ہیں اور اپنا پہلا بیان دیتے ہیں۔ پھر وہ نیچے اُتر آتے ہیں اور لائبریری میں چلے جاتے ہیں۔ اس اثناء میں رفیق اپنی قسمت پر روتا رہا۔ نوکروں سے زور زور سے بولتا رہا، چیختا رہا خدا سے مدد کی التجا کرتا اور قرآن حکیم کی آیات پڑھتا رہا۔ وہ بہت مضطرب دکھائی دیتا تھا۔ چوکیدار شوفر اور سیکرٹری سے مخاطب ہوتے ہوئے اس نے وفاداری پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ آپ اپنا فرض اور اپنے مالک کی خدمت خوب بجا لائے ہیں لیکن میں اپنے مشن میں ناکام رہا ہوں۔ اُس چاقو نے اپنا کام نہیں دکھایا۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ پھر پھٹ پڑتا ہے ۔ ”میں کرائے کا قاتل نہیں۔ میں نے یہ کام اپنے لیڈر علامہ مشرقی کے حکم پر کیا ہے کیونکہ مسٹر جناح ہندوستان کی آزادی کی راہ میں حائل ہیں اور برطانوی سامراج کے آلہ کار ہیں۔“. ہاں یہی وہ الفاظ ہیں ۔جو آج بھی بہت سے یار لوگ سن کر بھول جانے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ہی پاکستان کے محافظ ہیں۔بانیوں میں شامل ہیں۔ رفیق منہ ہی منہ میں کچھ کہتا رہا اور دعا کرتا رہا۔ تا آنکہ سب انسپکٹر (عبد القادر شیخ) اسے گھر سے لے گئے۔
اُس وقت تک حملے کی یہ خبر پوری بمبئی میں پھیل چکی تھی اور آدھے گھنٹے کے اندر اندر جناح صاحب کے عزیز دوست اور مسلم لیگ کے عہدیدار بنگلے کے گرد جمع ہو گئے ۔ محلے اور شہر میں جوش بہت ہی زیادہ تھا اور شام تک یہ خبر ہر زبان پر تھی اور یہ واقعہ شہر کے ہر گلی، ہر کوچے میں موضوع بحث بنا ہوا تھا۔ جناح صاحب کو معلوم تھا کہ پرجوش مسلمان عوام پر اس واقعہ کا کیا اثر ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے بمبئی پراونشل مسلم لیگ کے عہدیداروں کے ساتھ مختصر مشورے اور بحث کے بعد ایک بیان جاری کیا جس میں مسلمانوں سے پرسکون اور پر امن رہنے کی اپیل کی۔ مسلمانوں کے جذبات اس قدر شدید تھے کہ اس قسم کی اپیل بہت ضروری تھی۔ حتی کہ ملازموں کو حکم تھا کہ حملہ آور کو کسی قسم کی گزند نہ پہنچائی جائے۔جناح صاحب دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان سے رخصت ہوتے ہیں اور اس پریشان کن واقعہ کے بعد آرام کرنے کی غرض سے اوپر چلے جاتے ہیں اور آج کے واقعہ پر غور کرتے ہیں۔ انہیں اپنی تیسں سال سے زائد کی بھر پور سیاسی زندگی میں پہلی بار چاقو کے پھل سے واسطہ پڑا۔ ہندوستانی سیاست کسی رخ پہ جا رہی ہے؟ وہ ڈرتے نہیں۔ ان کے ہاں جرات اور عزم کی فراوانی ہے۔ اس کا مظاہرہ انہوں نے کئی مواقع پر کیا ہے لیکن یہ واقعہ کچھ مختلف تھا۔ کیا اں کے پیچھے کوئی گہری سازش ہے؟ کیا علامہ مشرقی کا اعلان اور وہ ہزاروں خطوط جو جناح صاحب نے وصول کئے رفیق صابر کے اس اقدام کی پشت پر تھے ؟یہ سوچتے ہوئے جناح صاحب سو گئے۔
بعد میں بمبئی ہائیکورٹ میں عدالت میں ملزم رفیق صابر مزنگوی پر مقدمہ چلا۔ اور پانچ سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ جج چیف جسٹس مسٹر بلیگڈن BLAGEDEN اور جناح صاحب کے وکیل مسٹر سومجی somgi تھے۔ اب علامہ مشرقی کا کردار کیا تھا۔ اس کی مکمل تفصیل ان شاءاللہ تعالیٰ آئندہ پیش کی جائے گی۔
ختم شد
تبصرہ لکھیے