بے تاب ہے ذوق آگہی کا
کھلتا نہیں بھید زندگی کا
یہ شعر اپنی شعری موسیقیت اور گہرے اختصار کے ساتھ اقبال کے فکر کے بنیادی موضوعات، یعنی جستجو اور وجود کی گہرائیوں کو بیان کرتا ہے۔ یہ علم کی بے تاب خواہش (ذوقِ آگہی) کو زندگی کے ناقابلِ فہم راز (بھیدِ زندگی) کے بالمقابل رکھتا ہے۔ بے تاب کا استعمال انسانی حالت کو جاندار انداز میں پیش کرتا ہے: یعنی ایک نہ ختم ہونے والی پیاس۔ ساخت کے لحاظ سے، یہ شعر اردو غزل کی کلاسیکی شکل کی پیروی کرتا ہے، اور فلسفیانہ و صوفیانہ رنگ رکھتا ہے۔ دونوں مصرعوں کے درمیان تضاد اس متضاد کیفیت کو اجاگر کرتا ہے، جو اقبال کے انداز کی خاصیت ہے، اور قاری کو انسانی عقل کی حدود پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
اقبال کی شاعری اسلامی تعلیمات اور فلسفے کے ساتھ گہرائی تک جڑی ہوئی ہے۔ یہ شعر زندگی کو ایک پراسرار راز کے طور پر پیش کرتا ہے، جو انسانیت پر صرف جزوی طور پر آشکار ہوتا ہے۔ قرآن کی آیت "وما أوتيتم من العلم إلا قليلاً" (اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے) اس خیال سے ہم آہنگ ہے۔ ذوقِ آگہی قرآن کی اس ترغیب کی عکاسی کرتا ہے کہ انسان غور و فکر کرے اور علم حاصل کرے۔ انسان کی زندگی میں علم و شعور کی طلب اور حقیقت کی ناقابل رسائی فطرت کو اجاگرکیا گیا ہے۔ مذہبی تناظر میں، یہ موضوع قرآن، احادیث، صوفیاء کے اقوال، اور اسلامی روایات میں اہم مقام رکھتا ہے۔ علم کی جستجو اور زندگی کے راز کا شعور اسلام میں ایک روحانی سفر کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو انسان کو اللہ کی معرفت تک لے جاتا ہے۔ قرآن مجید بارہا انسان کو غور و فکر کرنے اور علم حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ سورۃ الزمر میں اللہ فرماتا ہے: "قل هل يستوي الذين يعلمون والذين لا يعلمون" (کہہ دو: کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟)
لیکن ساتھ ہی، بھیدِ زندگی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آخری حقیقت اللہ کے پاس ہے، جو غیب کے تصور سے جڑی ہوئی ہے۔ یا یوں کہیں کہ غیب کا علم اللہ کے پاس ہے، وہ جسے چاہے اس کی بساط اور برداشت کے پیمانے تک عطا کر دیتا ہے، جس میں اس فاعل کا کوئی کمال نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰؑ اور حضرت خضرؑ کا قصہ، جیسا کہ سورۃ کہف میں بیان کیا گیا ہے، زندگی کے بھید کے بارے میں ایک اہم سبق دیتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ نے خضرؑ کے ساتھ سفر کیا تاکہ وہ علم کے ان اسرار کو سمجھ سکیں جو عام انسانی عقل سے بالاتر ہیں۔ خضرؑ نے کہا: "إنك لن تستطيع معي صبرا" (تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔) یہ کہانی واضح کرتی ہے کہ زندگی کے کچھ راز اللہ کے منتخب بندوں پر بھی محدود حد تک ظاہر ہوتے ہیں، اور یہ انسان کے لیے صبر اور ایمان کا امتحان ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: "طلب العلم فريضة على كل مسلم" (علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے) � تاہم، آپؐ نے یہ بھی فرمایا: "ولا يعلم الغيب إلا الله" (غیب کا علم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔) یہ دونوں احادیث انسان کی دوہری حیثیت کو واضح کرتی ہیں: ایک طرف علم کی جستجو کی تاکید، اور دوسری طرف اس بات کا ادراک کہ زندگی کے بعض راز اللہ کی مصلحت کے تحت انسان سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ جس کا اظہار اقبال نے اپنے اس شعر میں بہت ہی بہترین انداز میں کیا ہے۔ اسی نظم کا پہلا شعر ہی اسی بات کی طرف واضح اشارہ اور غیر مخاطب شکوہ ہے:
قدرت کا عجیب یہ ستم ہے!
انسان کو راز جو بنایا
راز اس کی نگاہ سے چھپایا
صوفیاء کرام کے نزدیک زندگی کے بھید کو سمجھنا صرف عقلی علوم سے ممکن نہیں، بلکہ دل کی پاکیزگی اور اللہ کے قرب سے ممکن ہے۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے: "من عرف نفسه فقد عرف ربه" (جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔)
؎ خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سرِ زندگانی ہے
؎ تیرے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے
ایک اور جگہ پر یہی بات، کہ انسان کی زندگی کا راز اس کے خودی میں چھپا ہے اور اس کے لیے اسے اپنے آپ کو دیکھنا پڑے گا، اقبال یوں دہراتے ہیں کہ:
تو رازِ کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
یہ قول انسان کو اپنے اندر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے، کیونکہ زندگی کا راز اللہ کی معرفت میں پوشیدہ ہے۔ حضرت رابعہ بصریؒ کے ایک واقعے میں بیان کیا گیا ہے کہ جب ان سے زندگی کی حقیقت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: "زندگی اللہ کی محبت میں فنا ہونے کا نام ہے۔" یہ صوفیانہ نظریہ واضح کرتا ہے کہ زندگی کا راز اللہ کے ساتھ ایک روحانی تعلق میں پوشیدہ ہے، اور یہ علم کسی مادی ذریعے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح، حضرت آدمؑ کی تخلیق اور فرشتوں کے سامنے سجدہ کرنے کا واقعہ بھی زندگی کے راز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ فرشتوں نے سوال کیا کہ انسان کو کیوں پیدا کیا جا رہا ہے، جب کہ وہ فساد اور خونریزی کرے گا۔ اللہ نے فرمایا: "إني أعلم ما لا تعلمون" (میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔) یہ جواب زندگی کے بھید کی اس فطرت کو ظاہر کرتا ہے، جسے صرف اللہ ہی مکمل طور پر جانتا ہے۔
اقبال کے شعر میں "ذوقِ آگہی" انسان کی اس خواہش کو ظاہر کرتا ہے جو اسے ہمیشہ نئی حقیقتوں کی تلاش میں مصروف رکھتی ہے۔ لیکن "بھید زندگی" اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اللہ کی حکمت کو مکمل طور پر سمجھنا انسانی عقل کے بس سے باہر ہے۔ اللہ نے انسان کو علم دیا ہے، لیکن سورۃ الاسراء میں فرماتے ہیں: "وما أوتيتم من العلم إلا قليلا" (تمہیں علم میں سے بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے۔)
اقبال کے اس شعر کا مذہبی تناظر ہمیں علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ زندگی کے بعض راز اللہ کے علم کا حصہ ہیں، اور انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرے، صبر کرے، اور ایمان کو مضبوط کرے۔ یہ شعر مذہبی طور پر انسان کے روحانی سفر کی نمائندگی کرتا ہے، جو اللہ کی معرفت کے بغیر نامکمل ہے۔ اس کے ساتھ ہی بعض اشعار میں اقبال انسانی وجود کی حقیقت اور اس کی زندگی کے بارے میں کچھ متضاد خیالات پیش کرتے ہیں، یا شاید ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان کو ابہام کے طور پر پیش کر کے انھیں پردہِ اخفا میں رکھنے کے خواہاں تھے، جیسے کہ ان اشعار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
طلسمِ بود و عدم، جس کا نام ہے آدم
خدا کا راز ہے، قادر نہیں ہے جس پہ سخن
اگر نہ ہو تجھے الجھن تو کھول کر کہہ دوں
وجود حضرتِ انساں نہ روح ہے نہ بدن
؎ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
فلسفیانہ پہلو
فلسفیانہ طور پر، انسانی جستجو اور زندگی کی گہرائیوں میں پوشیدہ معانی کو سمجھنے کی کوشش کو بیان کیا گیا ہے۔ فلسفیانہ تناظر میں یہ شعر انسانی شعور، علمیات (epistemology)، وجودیت، حقیقت کی پیچیدگی، اور حتمی حقیقت کی تلاش کو اجاگر کرتا ہے۔ فلسفہ ان سوالات پر غور کرتا ہے جو مادی، غیر مادی، اور ماورائی وجود کی جڑیں کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانی زندگی کی حقیقت انسانی کوششوں کے باوجود ایک معمہ بنی رہتی ہے۔ یہ خیال سارتر اور کیرکگارڈ کے ان خیالات سے ہم آہنگ ہے جو وجود کی پراسراریت اور بے معنویت پر زور دیتے ہیں۔ وجودیت (Existentialism) کے فلسفیوں جیسے ژاں پال سارتر اور البرٹ کامو نے انسانی زندگی کی بے مقصدی اور اس سے جڑے اضطراب پر روشنی ڈالی ہے۔ سارتر کے مطابق انسان اپنی زندگی کو معنی دینے کے لیے آزاد ہے، لیکن وہ کائناتی سطح پر ایک بے مقصد وجود کا حصہ ہے۔ اس شعر کا "ذوق آگہی" انسانی شعور کی وہ کوشش ہے جو معنی کی تشکیل کرنا چاہتا ہے، لیکن "بھید زندگی" وہ گہرائی ہے جہاں ہر نئی تلاش مزید سوالات کو جنم دیتی ہے۔کامو کی "بغاوت (Rebellion)" کا فلسفہ اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ انسان زندگی کے بھید کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہونے کے باوجود اس کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔ وہ حقیقت کو نہ سمجھنے کی ناامیدی کے باوجود تلاش جاری رکھتا ہے۔ یہ جدوجہد اقبال کے اس شعر میں بیان کی گئی بے تابی کی عکاس ہے۔
افلاطون نے حقیقت کو دو سطحوں میں تقسیم کیا: ظاہری دنیا اور ماورائی دنیا۔ افلاطون کے نظریۂ مثلث (Theory of Forms) کے مطابق، یہ دنیا محض ایک عکاسی ہے اور حقیقی دنیا ماورائی حقیقتوں کی دنیا ہے۔ اقبال کے شعر میں "بھید زندگی" وہ ماورائی حقیقت ہے جسے انسان اپنی ظاہری زندگی کے دائرے میں سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ جرمنی کے فلسفی کانٹ نے انسانی عقل کی حدود پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انسان "نومینن" (Noumenon) یعنی حتمی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے، یہ ایک ماورائی مثالیت تصور ہے، اور صرف "فینومینا" (Phenomena) یعنی ظاہری دنیا کے مظاہر تک محدود رہتا ہے، اور یہ تجربیت تصور ہے۔ کانٹ کے مطابق، "ذوقِ آگہی" کا مطلب انسان کی اس کوشش سے ہے کہ وہ حتمی حقیقت تک پہنچے، لیکن اس کے راستے میں انسانی عقل کی حدود رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ نیٹشے کا "فوق البشر" (Übermensch) کا تصور اقبال کی شاعری سے گہری مطابقت رکھتا ہے۔ نیٹشے کے نزدیک انسان کو اپنے اندرونی خوف اور محدودیت سے اوپر اٹھنا چاہیے اور اپنی زندگی کو خود معنی دینا چاہیے۔ اقبال کے شعر میں "ذوق ِآگہی" وہی شعوری ارتقاء ہے جس کی نیٹشے حمایت کرتا ہے۔ تاہم، اقبال کے نزدیک "بھیدِ زندگی" ایک ماورائی حقیقت سے جڑا ہوا ہے، جب کہ نیٹشے کے نزدیک یہ انسانی قوت ارادی کا معاملہ ہے۔ ہیڈگر کے فلسفے میں "ہونے" (Being) کی جستجو بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے نزدیک انسان کا سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ "میں کیوں ہوں؟" اقبال کا یہ شعر ہیڈگر کی اس جستجو کی یاد دلاتا ہے۔ "ذوقِ آگہی" وہی وجودی اضطراب ہے جو انسان کو اپنے "ہونے" کے مقصد تک پہنچنے کے لیے مجبور کرتا ہے، جب کہ "بھیدِ زندگی" اس بات کا اظہار ہے کہ انسان اپنی محدودیت کے باعث اس سوال کا مکمل جواب نہیں حاصل کر سکتا۔
اقبال کا یہ شعر فلسفیانہ سطح پر انسان کی مسلسل جدوجہد، شعور کی بے چینی، اور حقیقت کی ناقابل رسائی فطرت کو نمایاں کرتا ہے۔ فلسفہ اس شعر کو انسانی عقل، وجودیت، ماورائیت، اور اخلاقیات کے تناظر میں مختلف زاویوں سے دیکھتا ہے، اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ زندگی کے بھید کو سمجھنے کی جستجو ہی انسانی شعور کی بنیاد ہے۔ اور اس جستجو میں اپنے علم کی کم مائیگی کا اقرار اصل مقصد۔ یہاں پر اقبال ہمیں عقل اور علم کی خامی نہیں دکھانا چاہتے، بلکہ اس کی محدودیت سے آگاہ کرا رہے ہیں۔ کوانٹم میکینکس میں زندگی کی حقیقت ایسی مظاہر جیسے ویو-پارٹیکل ڈوئیلٹی اور آبزرور ایفیکٹ میں ظاہر ہوتی ہے، جو ہماری سمجھ کی حدود کو ظاہر کرتے ہیں۔ اقبال کا بھیدِ زندگی ہائزنبرگ کے اصولِ غیر یقینی سے میل کھاتا ہے، جو فطرت کی غیر متوقعیت کو نمایاں کرتا ہے۔ کوانٹم میکینکس کا "ہائزنبرگ کا اصولِ غیر یقینی" (Heisenberg’s Uncertainty Principle) بتاتا ہے کہ کسی ذرہ کی مقام اور رفتار کو ایک ساتھ مکمل درستگی کے ساتھ نہیں ناپا جا سکتا۔ یہ غیر یقینی اصول اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کائنات کی بنیادی سطح پر بھی حقیقت کی نوعیت واضح نہیں ہوتی۔ اقبال کے "بھید زندگی" کو ہم کوانٹم سطح پر موجود اس غیر یقینی کی علامت سمجھ سکتے ہیں، جہاں ہر دریافت ایک نئے سوال کو جنم دیتی ہے۔ یہ غیر یقینی اصول نہ صرف ذرات کی حرکت کو بلکہ انسانی شعور کی اس جستجو کو بھی بیان کرتا ہے جو زندگی کے معنی تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ذوق آگہی کی یہ بے تابی اس امر کی عکاس ہے کہ انسان ایک محدود مخلوق ہے، جو لا محدود حقیقت کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہے۔ کوانٹم میکینکس میں وقت کا تصور غیر خطی (Non-linear) اور امکانات پر مبنی ہے۔ ہر لمحہ متعدد امکانات سے بھرا ہوا ہے، اور ایک واقعہ کا ہونا دوسرے واقعہ کے ہونے پر منحصر ہے۔ اقبال کے "بھید زندگی" کو ہم وقت اور امکانات کی اس کوانٹم نوعیت سے جوڑ سکتے ہیں، جہاں زندگی کے راز مسلسل تبدیل ہوتے ہیں اور انسان کی سمجھ سے باہر رہتے ہیں۔
ذوق آگہی کی بے تابی ان امکانات کی کھوج کی علامت ہے، لیکن زندگی کی حقیقت ہمیشہ غیر خطی اور پراسرار رہتی ہے۔ اقبال کے ذوقِ آگہی کی بے تابی اس جستجو کی نمائندگی کرتی ہے، جو انسان کو اپنے وجود اور کائنات کے درمیان تعلق کے راز کو جاننے کی طرف مائل کرتی ہے۔ لیکن حقیقت کی مکمل تفہیم کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اپنی موجودہ شعوری محدودیت سے آگے بڑھے۔ سپرپوزیشن کے اصول کی طرح، زندگی کے راز بھی ایک ہی وقت میں کئی جہات پر موجود ہیں، جنہیں سمجھنے کے لیے ایک نئی قسم کے شعور کی ضرورت ہے۔اس شعور کے لیے انھوں نے ایک اور شعر میں لکھا کہ زندگی وقت کی قید سے آزاد ہونے کا نام ہے، یعنی ابن الوقت کی بجائے ابو الوقت بننے کا نام زندگی ہے:
تو از شمار نفس زندہ ئی نمیدانی
کہ زندگی بہ شکستِ طلسمِ ایام است
جبکہ، بھیدِ زندگی کو ہم اس الجھاؤ کی علامت کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جہاں انسان اور کائنات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن اس تعلق کی نوعیت کو مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔ یہ شعر انسانی حالت کا ایک بلیغ عکاس ہے—سمجھنے کی بے قرار خواہش کے ساتھ وجود کی ناقابل فہم نوعیت۔ یہ مذہبی، فلسفیانہ، نفسیاتی اور سائنسی پہلوؤں کو یکجا کرتا ہے، اور انفرادی و اجتماعی جدوجہد پر بصیرت پیش کرتا ہے۔ علامہ اقبال ہمیں ہماری موجودگی کے اس تضاد کو گلے لگانے کی دعوت دیتے ہیں: بے تحاشا جستجو کرنا، لیکن زندگی کے آخری رازوں کے سامنے عاجزی اختیار کرنا۔
تبصرہ لکھیے