آپ کی زبان ہی وہ واحد پیمانہ ہے جو آپ کی اصل قیمت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ آپ کے کردار، آپ کی سوچ، اور آپ کی حیثیت کا آئینہ دار ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ آپ حقیقت میں کتنے قیمتی ہیں یا محض بے وقعت، بے کار اور رخیص۔ یہ وہ واحد ٹریڈ مارک ہے جسے دیکھ کر سننے والا فیصلہ کرتا ہے کہ آپ کے اندر کیا خوبیاں اور خامیاں موجود ہیں، آپ کی بات چیت، آپ کے الفاظ اور آپ کی زبان کی شائستگی ہی وہ معیار ہیں جو آپ کو یا تو عزت کے بلند مقام پر پہنچا سکتے ہیں یا پھر گراوٹ کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل سکتے ہیں۔
یہی زبان صرف دنیا میں آپ کی پہچان کا ذریعہ نہیں بلکہ آپ کے آخرت کے انجام کا فیصلہ بھی اسی سے وابستہ ہے۔ یہی وہ عضو ہے جس کی بدولت آپ جنت کے حقدار بن سکتے ہیں یا پھر جہنم کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنی زبان کو کیسے قابو میں رکھتے ہیں، کیسے اسے ایسا بناتے ہیں کہ یہ آپ کے لیے جنت کی بشارت کا سبب بنے اور آپ کو جہنم کے دہکتے شعلوں سے محفوظ رکھے۔ یہی زبان ہے جو معاشرے میں آپ کو ایک معزز، قیمتی اور باوقار شخصیت بنا سکتی ہے، اور یہی زبان ہے جو آپ کو بے توقیری اور ذلت کے اندھیروں میں گرا سکتی ہے۔
ہم روزمرہ زندگی میں اپنی دکان، دفتر اور دیگر کاموں کو اطمینان سے مکمل کر کے رات کو بستر پر لیٹ جاتے ہیں، مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ سنتِ صدیقی کیا تھی؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی زبان کو ہاتھ میں پکڑ کر افسوس کیا کرتے تھے کہ کہیں یہ انہیں ہلاکت میں نہ ڈال دے۔ ہم اس فرمانِ رسول ﷺ کو بھی بھول چکے ہیں جس میں آپ ﷺ نے زبان کی ضمانت پر جنت کی بشارت دی تھی۔ آج ہم ان باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں، مگر وہ دن زیادہ دور نہیں جب ہماری زبان ہمارے منہ میں ہوگی، مگر اس کا اختیار ہمارے پاس نہیں ہوگا۔ جنت اور جہنم ہمارے سامنے ہوں گے، مگر جہنم کا فیصلہ ہو چکا ہوگا۔
ہم دنیا میں غیر یقینی اور جھوٹے لوگوں پر جانے کیسے بھروسہ کر لیتے ہیں، ان کی بے بنیاد باتوں پر یقین کر لیتے ہیں، جبکہ ایک صادق و امین نبی ﷺ کی یقینی اور سچی بات پر ہم یقین کرنے میں تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔ ہم بے بنیاد وسوسوں اور شک و شبہات میں گھرے رہتے ہیں، مگر کیا ہمیں اس وقت یقین آئے گا جب حقیقت ہمارے سامنے ہوگی اور وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوگا؟ کیا تب ہمیں احساس ہوگا کہ ہمیں اپنی زبان کی حفاظت کرنی چاہیے تھی؟ اس وقت کی پریشانی اور ندامت کا عالم وہی ہوگا جسے قرآن نے "یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرٰبًا" (کاش میں مٹی ہوتا) کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔
کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم ابھی سے اپنی زبان کی حفاظت کریں؟ ابھی سے اپنی گفتگو کو ایسا بنائیں کہ یہ ہمارے حق میں جائے، نہ کہ ہمارے خلاف؟ کیوں نہ ہم اپنی زبان کو اپنے لیے خیر اور برکت کا ذریعہ بنائیں تاکہ ہم بعد میں دائمی ندامت اور حسرت سے بچ سکیں؟ یہی وقت ہے خود کو سنوارنے کا، اپنی زبان کو بہتر کرنے کا، اور اس کے ذریعے اپنی دنیا و آخرت کو کامیاب بنانے کا۔
تبصرہ لکھیے