ویلنٹائن ڈے کے بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہے لیکن اگر ہم آج کے تناظر میں اس کو دیکھیں اور اس کا جائزہ لیں تو اس کو یوم محبت کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ محبت ایک ایسا جذبہ جس کو بیان کرنے کی کوشش ہر باشعور انسان نے کی کسی نے خاموش رہ کر کسی نے شاعری کا سہارہ لیا تو کسی نے نثر کا کسی نے آواز سے اظہار کیا تو کسی نے رقص کا اور کسی نے آنسوؤں کا سہارا لے کر اس کے پہلو پر روشنی ڈالی لیکن آج تک کوئی اس کی اصل حقیقی تعریف تک نہ پہنچ سکا۔
محبت ایک ایسے احساس اور کیفیت کا نام ہے جو ازل سے انسان میں پائی جاتی ہے۔ انسان الفاظ میں اس کو بیاں کریں تو محبت ایک ایسا احساس ہے جو انسان کو انسانیت کی معراج پر قائم رکھتی ہے۔ بغیر محبت کے آپ ان دیکھے پر یقین نہیں کر سکتے انسانی عقل ثبوت اور آنکھیوں دیکھی پر یقین رکھتی ہے مگر محبت ان دیکھے پر یقین کا نام ہے محبت میں آپ کے پاس انکار کا آپشن نہیں ہوتا۔ محبت کو انسانی شعور نے دو درجوں میں تقسیم کیا ہے، مجازی اور حقیقی .
ہم اگر حقیقی کی پر غور کریں تو اس کا تعلق اللہ، اس کے رسول ﷺ سے ہے. آپ ایک خدا ایک لاکھ جوبیس ہزار پیغمبر چار آسمانی کتابوں جزا سزا اور یوم آخرت پر یقین رکھتے ہیں ، یہ ہمارا سچا عقیدہ ہے ، اس کے بغیر آپ دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتے، یعنی سب سے پہلے آپ کو تسلیم کرنا ہو گا ، اس کے بعد آپ کو خدا کی محبت نصیب ہو گی. اس میں ذرا سی گنجائش بھی قابل قبول نہیں، یعنی خدا کی محبت میں شک قبول نہیں ہو گا. خدا کی محبت پانے کے ہزار طریقے ہیں اور ہر انداز خود میں بے مثال ہے. خدا کا قرب، اس کی یاد میں سکون، اس کے سامنے بچوں کی مانند رونا، اس کی یاد میں کھو جانا، اس کو ہر پل یاد کرنا ، اس کی بےمثال ذات کو بیان کرنا، یہ سب خدا کی محبت میں آتا ہے، اور بدلے میں خدا جب اپنے بندے سے لاڈ کرتا ہے، اپنے رحمت سے نواز کر، اسے معاف کر کے، اس کے عیب کی پردہ پوشی کر کے، اس کو یہ بتا کر میں تجھ سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہوں، یعنی خدا نے ایک ماں کے روپ میں اتنی محبت بھر دی کہ اس کی پیمائش ممکن ہی نہیں، یوں کہہ لیں کہ ماں محبت کی سفیر ہے زمین پر اور پھر اپنی محبت کو اس ناقابل پیمائش محبت سے تشبیہ دے ڈالی. خدا کی محبت سب سے اعلی محبت ہے، اس کا مقام سب سے اوپر ہے. خدا کو رحیم و کریم جاننے کا نام محبت ہے۔
دوسرا درجہ مجازی کا ہے. یعنی انسان کی انسان سے محبت، اس کو حقیقی کی سیڑھی کہا جا سکتا ہے، جو کہ بالکل درست ہے. اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ خدا کا گھر تو دل ہے، وہ شہہ رگ سے قریب تر ہے، اس بات پر یقین ہی محبت ہے۔ خدا تک پہنچنے کا راستہ اس کی مخلوق سے ہو کر جاتا ہے۔ یعنی کسی ایک انسان کی ذات سے ایسی وابستگی جس کی بقا اپنی بقا سے زیادہ عزیز ہو، جس کی خوشی میں اپنی خوشی شامل ہو، جس کے قرب میں سب کچھ اچھا لگے، جس کے لہجے سے مثبت سوچ پیدا ہو ، جو آپ کے لیے ناامیدی کے اندھیرے میں شمع کی طرح اجالا کر دے، جو دل کو موم بنا دے، جس کا کردار آپ کو باکردار بنا دے .محبوب کی مثال وہ پانی ہے جو مٹی کو موم کر دے اور وہ پھر ایک خوبصورت روپ یعنی ایک رحم دل انسان بن جائے۔ کسی نے کہا ہے کہ محبت ایک ولایت ہے جو خوش نصیبوں پر اترتی ہے.
محبت اگرچہ ہر انسان میں پائی جاتی ہے، کیونکہ اس کے بغیر انسان کا انسان ہونا ناممکن ہے، کیونکہ اگر آپ ایک پل کے لیے انسان سے محبت نکال دیں تو وہ ایک جاندار وحشی کا روپ دھار لے گا۔ محبت کئی طرح کے انداز اپناتی ہے، اس لیےمحبت کی پہچان سب سے مشکل عمل ہے، کسی کو محبت صوفی بنا دیتی ہے تو کسی کو شاعر، کسی کو دنیا سے بیگانہ بنا دیتی ہے تو کسی کو دانا، یہ کسی کو خاموش کرا دیتی ہے تو کوئی اس کے چرچے لیے پھرتا ہے. یہ سب محبت کے رنگ ہیں۔ محبت میں محبوب کی جستجو ہی سب کچھ ہے. محبت میں اگر مگر لیکن کی گنجائش نہیں ہوتی، محبت کسی جسم یا کسی خواہش کی پابند نہیں ہے، محبت لامحدود جذبات کا مجموعہ ہے جو ایک وقت میں کئی رنگوں اور ہالتوں میں دکھائی دے سکتا ہے۔
آج کا ہمارا نظریہ محبت ایک انتہائی تنگ نظری کا شکار ہے. کائنات کے سب سے عمدہ دلچسپ اور خوبصورت جذبے کو ہم نے ایک عورت اور مرد کے جسمانی تعلق میں بند کر کے اس کی سب سے بڑی توہین کی ہے. ہماری سوچ محبت کو لے کر بہت پوسیدہ اور تنگ ذہینت کی عکاسی ہے۔ میں ذاتی طور پر محبت کو اگر بیان کرنے کی کوشش کروں تو ایک جملہ شاید کافی ہو گا کہ محبت آپ کے ظرف کا امتحان ہے . محبت تعریف نہیں مانگتی بلکہ کرواتی ہے. محبت آپ کی سوچ کے بند دروازوں کو کھولنے کی چابی ہے۔ دور حاضر کے ویلنٹائن ڈے کا محبت سے کوئی تعلق نہیں. یہ امیروں اور تنگ ذہن لوگوں کا جسمانی کھیل ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
تبصرہ لکھیے