دادا نے کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا :
’’ پھر کشتی رکی اور اس میں موجود آدمی ذات اور دیگر جاندار، حشرات، پرندے ، درندے سبھی سہمے سہمے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔۔۔ کسی کو ہمت نہ ہو رہی تھی کہ اس تھمے ہوئے وقت کو کیا سمجھے ۔۔۔ نعمت یا ایک اور ابتلا۔۔۔ نوح نے اس حالت کو بھانپتے ہوئے ایک پرندے سے مدد لی اور اسے ارد گرد کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا ۔۔۔
پرندہ پہلے تو کشتی کے سوراخ سے جھانکا اور جب اسے کھلا آسمان اور مطمئن ہوائیں محسوس ہوئیں تو اس نے ہمت کو پروں میں سمویا اور اڑتا ہوا کشتی کی گھٹن او خوف کو پیچھے چھوڑ گیا۔
جب وہ ہریل جنگل اور چمچماتے میدانوں کی سیر سے خوب لطف اندوز ہوگیا تو اسے بے حد خوشی ملی، چونکہ وہ پیغمبر کا بھیجا ہوا تھا تو اسے بھی پیغمبرانہ سوجھی کہ جلد از جلد اس خوشی اور امن کو سب کے لیے نوید جانفزا کے طور پر مشتہر کردے ۔۔۔ چنانچہ وہ کشتی میں واپس آیا اور یوں زندگی بچے کھچھے جانداروں کے لیے پھر سے میسر آگئی ۔۔۔
’’دادا آپ نے تو بہت پہلے کہا تھا کہ پانی زندگی ہے ، کیا پھر یہ پانی عذاب بھی ہوجاتا ہے ؟؟؟‘‘
بچے نے دادا کے چپ ہوتے ہی سوال داغ دیا .
اس سے پہلے کہ بُوڑھا کوئی جواب دیتا ، مسجد میں اعلان ہوا ’’ اہلِ علاقہ کے لیے شہر کی انتظامیہ کی جانب سے اطلاع دی جاتی ہے کہ واسا ملازمین کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے سبب ، تمام ملازمین ہڑتال پر ہیں ، لہٰذا اپنے اپنے گھروں کے سیوریج والے پائپ بند کر دیں ۔۔۔اور صرف شدہ گندا پانی کسی ڈرم میں بھر کر قریبی ندی نالوں میں خود بہانے کا انتظام کریں۔ اعلان ختم ہوا۔۔۔‘‘
دادا اعلان سنتے ہوئے پانی کی تمام تنصیبات کو بند کرنے بھاگا۔۔۔
’’دادا جان کیا ہمارے گھروں کے ارد گرد پانی جمع ہونے والا ہے؟‘‘
پوتے نے خوف اور دلچسپی کو جمع کرتے ہوئے پوچھا
’’کچھ کہا نہیں جاسکتا بیٹا ! ، اگر ایسے ہی حالات رہے تو بہت جلد ایسا ہو بھی سکتا ہے ‘‘
دادا نے اپنے اندیشے کا اظہار کیا
’’دادا جان ! جب کئی روز بعد ہماری کشتی کہیں رُکے گی تو میں آپ کو کھڑکی سے جھانک کر خشکی پر نکلنے کی خبر دوں گا۔۔۔‘‘
دادا نے خوف ، اضطراب اور محبت کے ساتھ پوتے کا ماتھا چُوم لیا ۔۔۔
تبصرہ لکھیے