ہوم << سعودی عرب لیبر مارکیٹ اور پاکستانی لیبر- انجینئر عرفان اللہ خٹک

سعودی عرب لیبر مارکیٹ اور پاکستانی لیبر- انجینئر عرفان اللہ خٹک

سال 2023 کے تیسرے مہینے میں (یعنی 9 مئی سے پہلے) سعودی عرب آگیا تھا ۔ دوسرے مہینے میں ایک کنٹرکٹر کمپنی میں ملازمت مل گئی لیکن سائٹ پر جانے کے بعد اندازہ ہو گیا کہ یہ جگہ میرے لیے نہیں ہے، لہذا جاب سرچ کو دوبارہ سے شروع کیا. کچھ دن کے لیے رک گیا تھا اور اللہ کے فضل سے تین چار پیشکش اسی دورانیہ میں موصول ہوئیں، لیکن دوستوں کے مشورہ سے مزید اچھی جگہ کے لیے انتظار پر اکتفا کرنا پڑا ۔

آخرکار تقریباً پانچ مہینے بعد اللہ تعالٰی نے وہ موقع فراہم کیا جس کے لیے میں کوشش کر رہا تھا . ایک اچھی ملٹی نیشنل کنسلٹنٹ کمپنی کی طرف سے سعودی الیکٹرک کمپنی کے پروجیکٹ میں کام شروع کیا۔ ادھر آنے کے بعد معلوم ہوا کہ مین کنٹرکٹر میں خیر سے کوئی پاکستانی نہیں تھا ۔ انڈین ، بنگالی ، فلپائنی، مصری اور دیگر قومیتوں کے لوگ موجود تھے سوائے پاکستانیوں کے. معلومات لینے کے بعد پتہ چلا کہ پاکستانی لیبر ہر بات میں مسئلہ کرتی ہے، احتجاج کرتی ہے، کام روکا جاتا ہے، اس لیے انھیں نہیں رکھا جاتا۔ خیر میں نے مثبت سوچتے ہوئے اپنے آپ سے یہی کہا کہ یہ صرف اس کمپنی میں ایسا ہو گا۔

کچھ عرصہ بعد ایک اور کنٹرکٹر آیا، اس کے انجینئر اور سپروائزر پاکستانی ہونے کے باوجود لیبر میں کوئی پاکستانی نہیں تھا. ان سے پوچھنے پر وہی جواب ملا ۔ ابھی ایک فائر سسٹم کے لیے ایک کنٹرکٹر کو ہائر کیا، ان میں بھی پہلے کوئی پاکستانی نہیں تھا. ابھی دو ہفتے پہلے پانچ پاکستانی آئے، ڈائریکٹ پاکستان سے ہائر کرکے لائے تھے۔ ہمارا چونکہ فائر سسٹم والا کام ایمرجنسی کا تھا اس لیے اوورٹائم میں بھی کام کرنا تھا ۔ لہذا دو تین دن کے بعد صرف ہمارے پاکستانی لیبرز نے احتجاج کیا کہ ہم ایکسٹرا کام نہیں کریں گے، باقی کسی نیشنلٹی والے نے نہیں کہا، بلکہ باقی سارے کچھ دن تو رات بارہ بجے تک کام کرتے رہے۔ جمعہ کو بھی کام پر آئے ، اور ہمارے شہزادے آج پھر انکار کر گئے. انڈین انجینئر (جو ان کا انچارج ہے)سے پوچھا کہ آپ نے ان پر سختی کیوں نہیں کی ۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے ان کو اپنے ساتھ رکھنا ہی نہیں ہے، اور ان کو کسی اور جگہ بھیجنے کے لیے مینجمنٹ سے بات کر لی ہے ۔

یہاں چونکہ مختلف قومیتوں کے لوگ موجود ہیں. یعنی مقابلہ انٹرنیشنل لیول پر ہے اور یہاں پر اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے انٹرنیشنلی کمپیٹ کرنا ہے۔ اس لیے پاکستان میں کام کرنے کے مقابلہ میں یہاں زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ مگر ہمارے لوگ اس سے بھاگتے ہیں.

یہ کہانی سنانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہی رویہ رہا(ظاہر ہے exceptions ہو ں گی لیکن عمومی رویے کی بات کر رہا ہوں) تو بہت جلد سعودی عرب میں کوئی بھی پاکستانی لیبر کو لینے کے لیے تیار نہیں گا . اگلا آپشن پھر کشتیوں میں ڈوبنے والا رہ جائے گا، لہذا جو بھی کسی اپنے کو بھیجتا ہے اس کو چاہیے کہ ساتھ سمجھا بھی دے کہ بھیا مفت میں تنخواہیں نہیں ملتیں، محنت کرنا پڑتی ہے ۔ پتہ نہیں اس قوم کو ہو کیا گیا ہے، ہر کوئی دولت مند بلکہ بہت دولت مند بننا چاہتا ہے، لیکن محنت کے بغیر ، جو کہ ممکن نہیں ہے ۔