ہوم << مہنگائی کے دور میں پیسہ کیسے کمائیں؟روح اللہ سید

مہنگائی کے دور میں پیسہ کیسے کمائیں؟روح اللہ سید

آج کے سخت معاشی جدوجہد کے دور میں آپ کو اپنی ضروریات زندگی کی فراہمی کیلئے حکومت پر ہی انحصار نہیں کرنا، اپنی معیشت خود ایجاد کرنے کی قابلیت پیدا کرنی ہے۔ اس کا فارمولہ یہ ہے کہ پہلے آپ اپنے اندر چھپے قدرتی ٹیلنٹ کی کھوج لگائیں، پھر معیشت کو سمجھیں اور آخر میں اپنے قدرتی ٹیلنٹ کو معاشرے میں مروجہ معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ہم آہنگ کر لیں اور خود میں مہارت پیدا کرتے کرتے اپنے نام کی برانڈ بنا کر معاشی سرگرمیوں کے سرخیل بن جائیں.

اگر آپ کسی کو بدتر سے بدترین صورتحال اور مسلسل و مستقل زوال کی منطق آسانی سے سمجھانا چاہتے ہیں تو پاکستانی معیشت اس کی زندہ مثال ہے۔ ترقی کے بلند بانگ حکومتی دعووں کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ مہنگائی کی شدت نے عام آدمی کو سخت ذہنی اذیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ کم آمدنی کے سبب جیسے تیسے کر کے شہری اپنے اہلخانہ کو خوراک، لباس اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات مہیا کر بھی لیں تو مہینے کے آخر میں آنے والے بجلی، گیس اور پانی کے بل گھریلو بجٹ درہم برہم کر ڈالتے ہیں، اس کی تاریک ترین مثال ماضی قریب میں بیٹیوں کے جہیز فروخت کر کے بجلی کے بل ادا کرنے کی خبروں کی صورت میں سامنے آئی۔ اسی طرح نوجوان جو ملکی آبادی کا تقریبا 70 فیصد ہیں، اعلی ڈگریوں کے باوجود دن بھر نوکریوں کی تلاش میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں مگر من کی مراد ملتی ہی نہیں، نتیجہ فرسٹریشن اور ڈپریشن کی صورت میں نکلتا ہے۔ معاشرے میں دن دیہاڑے موبائل فون اور خواتین کے پرس چھیننے کے واقعات ایسے ہی بڑھتے دکھائی نہیں دے رہے، دوسری جانب طلاقوں اور گھر ٹوٹنے کی بلند شرح کے پیچھے بھی ایک بڑی وجہ یہی بیروزگاری اور غربت دکھائی دیتی ہے۔

ملک کو قائم ہوئے 78 برس گزر گئے، حکمران تو پاکستان کا معاشی مسئلہ حل نہیں کر سکے۔ ان کی گذشتہ کارکردگی دیکھتے ہوئے آئندہ بھی یہی توقع ہے کہ حکومتی روش برقرار رہے گی۔ تو کیوں ںہ حکومت سے امید لگانے کی بجائے معیشت کے Bottom-Up Model کو اپنا لیا جائے جس میں ابتدائی سطح پر انفرادی شخص کی معیشت بہتر بنائی جاتی ہے اور پھر اگلے مراحل میں گروپ بنا کر کچھ افراد کی اجتماعی معیشت میں بہتری لائی جاتی ہے اور پھر ہر گروپ معاشرے کے دیگر پسماندہ طبقات کی رہنمائی کرتے ہوئے معیشت کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھاتا ہے اور پھر یوں مرحلہ وار پوری قوم کی معیشت کو بہتر بنایا جانا ممکن ہو جاتا ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہر انسان قدرتی طور پر منفرد تخلیق کیا گیا ہے، جیسے ہر شخص کا مزاج 100 فیصد کسی دوسرے سے نہیں ملتا، اسی طرح ہر شخص کا ذہنی رجحان دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ قدرت نے انسان کو جب زمین پر اتارا تو اس کے گزارے کی جملہ ضروریات جیسے دیکھنے کیلئے آنکھیں، سننے کیلئے کان، چلنے کیلئے پاوں دیئے وہیں زندگی کے وسائل مہیا کرنے کیلئے معاش کا سامان بھی فراہم کر دیا جو ہر شخص کو ایک خاص ٹیلنٹ کی صورت عطا کیا گیا ہے۔ جو شخص بھی اس مخصوص ٹیلنٹ کو پہچان کر درست انداز میں کام میں لے آئے اس کا معاشی مسئلہ حل ہو جائے گا۔ غور کریں تو ہم اور ہمارے گرد ہر شخص کوِئی نہ کوئی کام کرنے کا شوق ضرور رکھتا ہے جس کا خاص طور پر بچپن میں اظہار کسی نہ کسی صورت سامنے آ جاتا ہے۔ بعض بچوں کو مشینی کھلونے لے کر دیں تو وہ اس کو پرزہ پرزہ کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ کچھ بچے ڈرائنگ کرنے کے بہت شوقین ہوتے ہیں اور بعض سوچ بچار میں کافی وقت صرف کرتے ہیں۔ تو یہی ان کا قدرتی ٹیلنٹ ہے، یہ معاملہ تفصیلی نفسیاتی مطالعے سے مشروط تو ہے تاہم پہلی قسم کے بچوں کو technical شعبوں جیسے انجنیئرنگ کی تعلیم دلوائی جائے تو کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ دوسری قسم کے بچوں کو آرٹ، فیشن یا گرافک ڈیزائننگ جبکہ تیسری قسم کے بچوں کو اعلی تخلیقی صلاحیتوں جیسے رائٹر، ڈرامہ نویس یا جرنلزم کے شعبے کی تعلیم دلوائی جائے تو کامیاب معاشی زندگی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔ بعض بچوں کو cooking کا بہت شوق ہوتا ہے، اگر ان کو مناسب ماحول دیا جائے تو ان کے پکائے کھانوں میں اتنی لذت ہوتی ہے کہ کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے ہیں۔

اس قدرتی ٹیلنٹ کی دوسری نشانی یہ ہوتی ہے کہ بچہ وہ کام کرتے ہوئے اس میں انتہائی خوشی محسوس کرتا ہے۔ کئی گھنٹے بھی گزر جائیں مگر وہ بالکل بور نہیں ہو گا بلکہ اس کام میں کھو سے جائیں گے۔ اس کی عملی مثال وہ لوگ ہیں جو آج دنیا پر راج کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے قدرتی ٹیلنٹ پر کام کیا۔ اس کی ایک عملی مثال آج کھربوں ڈالرز کمانے والی کمپنی ایمازون Amazon کے مالک جیف بیزوس ہیں، جنہوں نے اپنی دلچسپی اور شوق ہی کو دیکھتے ہوئے ابتدائی طور آن لائن کتابیں فروخت کرنا شروع کی تھیں اور اسی کو آگے لے کر چلے اور آج پوری دنیا کی معیشت پر چھایا ہوا نام ہیں۔ کھرب پتی وارن بفٹ نے صرف 11 سال کی عمر میں سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی تھی، نوجوانی میں بھی اسی کام کو کرتے رہے، اسی میں مسلسل مہارت حاصل کی اور آج ایک بڑی کمپنی "برکشائر ہاتھیوے" کے سی ای او ہیں۔ سٹیو جابز جو دنیا کی معروف کمپیوٹر ساز کمپنی ایپل کے شریک بانی تھے، نے اپنے گھر کے گیراج میں کمپیوٹر تیار کر کے فروخت کرنا شروع کئے تھے۔ اپنی میڈیا ایمپائر کھڑی کرنیوالی ٹاک شو میزبان اوپرا اونفرے نے بھی اپنے قدرتی ٹیلنٹ کو سامنے رکھتے ہوئے نیوز رپورٹر اور اینکر کے طور پر کام شروع کیا اور پھر میڈیا انڈسٹری پر چھا گئیں۔ اگر بچپن میں ان شخصیات کے والدین نے بھی ان کو روکا ہوتا تو وہ بھی آج کسی چھوٹی سی کمپنی میں بددلی سے کام کرتے ہوئے محض زندگی کے دن پورے کر رہے اور عام پاکستانی کی طرح غربت کی چکی میں پس رہے ہوتے۔

معاشی خود مختاری کےلئے دوسرا اہم نکتہ معیشت کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کو آسان بنانے کیلئے ہم ایک سادہ سی ایک پرندے کی مثال لیتے ہیں کہ اس کی معیشت کیا ہو گی۔ زندہ رہنے کیلئے پرندے کو سب سے ضروری چیز جو درکار ہے وہ دانہ )خوراک( ہے۔ اس کے بعد پانی اور پھر دشمن جانوروں )بلی، لومڑی وغیرہ( سے حفاظت یعنی رہائش درکار ہے۔ تو اس کی معیشت خوراک، پانی اور رہائش پر مشتمل ہے۔ اسی چیز کو اب انسانی معیشت پر لاگو کر لیں۔ انسان کی بنیادی معیشت روٹی، کپڑا اور مکان پر مشتمل ہے۔ یہ ضروریات پوری کر لی جائیں تو ہی انسان صحت، تعلیم، سفر کا سوچ سکے گا، ان دوسرے درجے کی ضروریات کو پانے میں بھی کامیاب ہو گا تو پھر خاندان، دوستی اور جنسی تسکین کا مرحلہ آتا ہے۔ نامور نفسیاتی محقق ہیرلڈ میزلو کی پیش کردہ تھیوری کے مطابق کامیابی، فخر و افتخار چوتھے اور اخلاقیات و تخلیقی صلاحیت آخری مرحلے پر آتی ہے۔ یہ ساری وہ انسانی ضروریات ہیں جن کے گرد کسی بھی معاشرے کی معاشی سرگرمیاں گھومتی ہیں۔ آپ کوئی پیشہ اٹھا کر دیکھ لیں، اس کا کسی نہ کسی طور تعلق میزلو تھیوری میں بیان کردہ انسانی ضروریات سے مطابقت رکھتا ہو گا۔

اور اب سب سے اہم نکتہ کہ آپ نے اپنا شوق دیکھتے ہوئے اپنی معاشی سرگرمی کی کھوج لگا لینی ہے وہ اس طرح کہ آپ کا قدرتی ٹیلنٹ میزلو تھیوری میں بیان کردہ کس انسانی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ اگر آپ زیادہ سوچتے ہیں تو تخلیقی صلاحیت یعنی پانچویں درجے کی انسانی ضرورت سے تعلق ہو گا جیسے کہ آپ ایک رائٹر بن جائیں یا ڈرامہ نویس یا شاعری و غزل کہنے کے فن کو اپنائیں۔ اگر آپ کو ڈرایئنگ اچھی لگتی ہے تو آپ آرکی ٹیکٹ ، ٹیکسٹائل ڈیزائنر، انٹیریئر ڈیزائنر، فیشن ایجوکیٹر یا گرافک ڈیزائنر بن سکتے ہیں۔ آپ جیولری ڈیزائن یا اگر خاتون ہیں تو بیوٹیشن کے شعبے میں بھی جا سکتی ہیں۔ مزید دیکھیں تو گرافک ڈیزائنر اپنی خدمات پانچوں درجے کی انسانی ضرورت کے بزنس کو فراہم کر سکتا ہے۔ جیسے جو کھانا بیچتا ہے، اس کو اپنی تشہیر کے پمفلٹ، بروشرز تیار کروانے کیلئے گرافک ڈیزائنر کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے درجے کی انسانی ضرورت تعلیم کے شعبے کی تشہیر کیلئے بھی گرافک ڈیزائنر کی ضرورت ہے، فرینڈ شپ اینڈ فیملی معاملات جیسے شادی کارڈ، سالگرہ کارڈ وغیرہ تیار کرنے کیلئے بھی گرافک ڈیزائنر حتی کہ تخلیقی صلاحیت جیسے ڈرامہ، فلم سازی کے شعبے میں بھی گرافک ڈیزائنر کی بے انتہا ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بچہ پڑھائی میں اچھا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ہم جماعت بچوں کو بہت اچھے طریقے سے پڑھائی میں رہنمائی فراہم کرتا ہے تو اسے سماجی بہبہود کی سرگرمیوں کے شعبوں جیسے استاد، وکیل یا سوشل ورکر بنایا جا سکتا ہے۔

آخری مرحلے میں جب آپ کو اپنا یا اپنے بچے کا قدرتی ٹیلنٹ اور پھر پیشہ پتہ چل جائے تو اب اگلا قدم انتہائی ضروری ہے کہ اس کی عملی تعلیم اور ٹریننگ حاصل کرنی ہے۔ یہ ٹریننگ آپ کے قدرتی ٹیلنٹ کو مارکیٹ کے رجحانات کے مطابق ڈھالنے میں مدد دے گی۔ چونکہ یہ آپ کا یا بچے کا ذاتی شوق ہو گا تو وہ اس کو خوب اچھے طریقے سے نہ صرف سیکھے گا بلکہ اس کی مہارت بھی خوب اچھے طریقے سے حاصل کرے گا اور وارن بفٹ کی طرح گزرتے وقت کے ساتھ مسلسل محنت کرتے ہوئے ایک دن اس کا ماہر بن جائے گا۔

یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ روایتی والدین بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بناتے ہوئے ان کا مستقبل پیسے اور معاشرے میں عزت و وقار کے پلڑے میں تولتے ہں تو یاد رکھیے کہ جو کسی بھی شعبے کا ماہر ہو اس میں نام پیدا کر ہی لیتا ہے، اور عملی مشورہ یہ ہے کہ آپ مارکیٹ میں اپنے کام کا ماہر بن کر انٹری لیں۔ مہارت کے سبب ہی لوگ آپ کے کام کو پسند کریں گے۔ اور ایک دفعہ لوگ آپ کا کام پسند کرنے لگ جائیں تو سمجھیں آپ نے جتنی محنت اب تک کی ہے اس کا پھل ملنے ہی والا ہے۔ پہلے چھوٹے لیول کا کام پکڑیں، جب ان کی ڈیمانڈ کے مطابق آپ کام دینے کی قابلیت پیدا کر لیں تو پھر بڑے پروجیکٹس پکڑیں، بڑی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کریں اور ان کو اعلی معیار کا کام کر کے دیں اور پھر آہستہ آہستہ قومی اور پھر بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کریں۔ یاد رکھیں کہ معیار اور ایمانداری آپ کی وجہ شہرت ہونی چاہیے، اس راہ میں مشکلات آئیں بھی تو سہہ لیں، یہ بعد میں آپ کو ڈبل منافع کی صورت میں فائدہ دیں گی۔ یوں آہستہ آہست اپنے نام کی برانڈنگ بھی کرتے جائیں۔ اس دوران اپنے کام میں جدت لائیں اور عالمی سطح پر مروجہ جدید اسلوب بھی اپنائیں، اپنی ٹیم کو وسعت دیتے چلے جائیں یوں آہستہ آہستہ آپ ایک برینڈ بننے کے ساتھ ساتھ خود معاشی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے کے دیگر پسماندہ طبقات کو روزگار دے کر اپنے لئے حقیقی دلی سکون کا سامان بھی پیدا کر لیں گے۔

(روح اللہ سید بین الاقوامی تعلقات میں ایم فل ہیں، معاشی اور سماجی موضوعات پر قلم آزمائی کرتے ہیں)