ہوم << مسک کے انیس سالہ” معاون “کی اہم عہدوں پر تعیناتی - اعظم علی

مسک کے انیس سالہ” معاون “کی اہم عہدوں پر تعیناتی - اعظم علی

ایلون مسک کے 19 سالہ نوجوان قریبی معاون جو آن لائن ”بگ ۔۔۔۔“ کے نام سے مشہور ہیں کی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (وزارت خارجہ) اور ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ (DHS) کے سینئر مشیر کی حیثیت سے تعیناتی کے نتیجے میں سفارتی حلقوں میں ان کے ارب پتی باس (ایلون مسک) کی امریکہ کے حساس سفارتی معاملات میں پہنچ کی وجہ سے تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں ڈیپارٹمنٹ آف گورنمٹ ایفیشینسی DOGE اور Office of Personnel Management یعنی افرادی قوت کے معاملات کا جائزہ لینے کی بھی ذمہ داریاں دی گئی ہیں ۔

کورسٹائن کو اُن کے آن لائن تیز مزاج شخصیت کے تاثر کے ساتھ اہم مرکزی حکومتی ذمہ داریوں کے لیے تجربے کی کمی کی وجہ سے واشنگٹن کے حلقوں میں گہری نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔ ان نئی ذمہ داریوں کے ساتھ ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی و دیگر ایجنسیوں میں ایسی ہی ذمہ داریوں کی وجہ سے حکومتی معاملات میں ٹیکنالوجی سے بڑھ کر ان کی پہنچ و نظر انتہائی گہرائی تک ہے۔ کورسٹائن نے نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی سے تعلیم ادھوری چھوڑ کر ایلون مسک کے دماغ میں چپ لگانے کے اسٹارٹ اپ میں انٹرن شپ کی تھی ۔وہ ان چھ ناتجربہ کاروں میں سے ہے جنہیں مسک نے وفاقی حکومت میں داخل کیا ہے، جن کی لاکھوں امریکیوں کے مالی و طبّی ڈیٹا تک دسترس ہے۔ اس کے والد چارلس کورسٹائن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کاروباری شخص ہیں جنہوں نے نقصان کا شکار اسنیک کمپنی Lesser Evil خرید کر اسے منافع بخش بنایا لیکن بعد میں ان پر اس کی مصنوعات کے بارے میں غلط و مبالغہ آمیز اشتہاری مہم کا الزام عائد کیا گیا۔

بلوم برگ کے مطابق کورسٹائن ایک سائبر سیکیورٹی کمپنی کی انٹرن شپ سے کمپنی کے راز مسابقتی کمپنی کو فراہم کر نے کے الزام میں بر خواست کیا گیا تھا۔ ایک اہلکار نے کورسٹائن کی کم عمری اور بلوم برگ کی اس رپورٹ کی روشنی میں تشویش کا اظہار کرتے ہو کہا ”یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ “ اب اسے وزارت خارجہ کے بیورو برائے ڈپلومیٹک ٹیکنالوجی میں بطور سینئر مشیر کے تعینات کیا گیا ہے کہ جو ہر قسم کے حساس و دیگر ڈیٹا کا اہم مرکز ہے۔ وائرڈ Wired نیوز کے مطابق کورسٹائن ٹیلیگرام و دیگر آن لائن پلیٹ فارم کا مستقل صارف ہی جہاں مبینہ طور پر وہ ایک سائبر حملوں میں مدد دینے والی تھرڈ پارٹی سروس کو مارکیٹ کرتا ہے۔ بعض اہلکاروں نے کورسٹائن کی بیورو برائے ڈپلومیٹک ٹیکنالوجی میں ذمہ داریوں پر تشویش کا اظہار کیا کہ جوکہ امریکی وزارت خارجہ کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے طور پر کام کرتا ہے وہاں پر دونلڈ ٹرمپ کی حلف بردار سے قبل ہی تمام ریکارڈ مرکزی طور اکٹھا رکھا جارہا ہے، جو کہ (حساس و دیگر) معلومات کا خزانہ ہے۔ ایک اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ ان کا کردار ڈپلومیٹک ٹیکنالوجی کی حدتک محدود نہیں رہے گا۔اس قسم کی غیر معمولی تعیناتیاں ظاہر کررہی ہے کہ کس طرح ایلون مسک کے DOGE نے اپنے لوگوں کو بیک وقت کئی اداروں میں تعینات کیا ہے، یہ نوجوان و ناتجربہ کار افراد اور زیادہ تر عمومی چھان پھٹک کے بغیر حساس حکومتی معاملات کی نگرانی کررہے ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔

اس صورتحال نے امریکی سفارتی حلقوں میں مُسک کے فیڈرل حکومت میں اثر و رسوخ کے حدود کے بارے میں پریشان کردیا ہے ۔ جس نے ماہرین کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے اس کے نتیجے میں عدالتی کاروائیاں بھی شروع ہونے لگی ہیں ۔ یہ حکومتی ادارہ یو ایس ڈیجیٹل سروس کا نام تبدیل کر نے کے بعد DOGE یعنی ڈیپارٹمنٹ آف گورنمٹ ایفیشینسی رکھ کر ایلون مسک کے حوالے کیا گیا جس کا ہدف حکومتی اخراجات میں ایک کھرب ڈالر کی کٹوتی کرنا ہے، اس کے لئے مسک نے زیادہ تر سافٹوئیر انجینئروں کو ترجیحا بھرتی کیا ہے۔

مسک اور اس کے ساتھیوں کی حرکتیں اس وقت سامنے آگئیں جب محکمہ خزانہ میں پچیس سالہ مارکو ایلز میں تعینات کیا گیا لیکن گذشتہ ہفتے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے ایلز کی ایک نسل پرستانہ پوسٹ کی نشاندہی کی جس وجہ سے اسے استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ایلون مسک نے ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کے حمایت سے عہد کیا کہ ایلز کو ہر صورت میں دوبارہ متعین کریں گے ۔ جب وہ محکمہ خزانہ میں بطور DOGE کے نمائندے گئے تو وہاں ایلز کااسسٹینٹ ٹریژری سیکریٹری ٹام کرواؤزسے جھگڑا ہوا کہ وہ نہیں چاہتا تھا DOGE کی رسائی ٹریژری کے حساس پیمنٹ سسٹم تک ہو۔ ٹام کراؤز بھی سلیکون ویلی میں کام کرچُکا ہے۔

دوسری جگہوں پر DOGE کے اہلکاروں کو Office of Personnel Management اور جنرل سروسز ایڈمنسٹریشن میں بھی متعین کردیا کہ یہ دونوں ادارے ایلون مسک کے بنیادی ہدف ، وفاقی حکومتی کارکنان میں کمی، حکومت کی ملکیت عمارت و جائیداد کا جائزہ ، اور پرانی ازکارفتہ ٹیکنالوجی کی جگہ جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے اہم ہیں۔ وفاقی (ملازمین کی) ڈائریکٹری میں اکثر اوقات DOGE کے کارکنان کے ساتھ ایک نہیں بلکہ مختلف سرکاری اداروں کے نام نظر آتے ، جس وجہ سے ان کے کام و ذمہ داریوں کی حقیقی نوعیت کا سمجھنا مشکل ہے۔ایک ڈائریکٹری میں کورسٹائن کا نام یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمینٹ USAID (دنیا کا سب سے بڑا غذائی امدادی ادارہ) جسے مُسک نے ختم کرنے کے عزائم کا اظہار کیا تھا۔ سب ٹرمپ انتظامیہ نے اس کے دس ہزار ملازمین کو کم کر تقریباً 600 تک لانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ USAID میں کورسٹائن کی ذمہ داری چیف انفارمیشن افسر کے مینیجمینٹ بیورو میں دکھائی گئی ۔ کئی سفارتکار USAID کو کھوکھلا کرنے کے عمل کو خوف و گھبراہٹ کے عالم میں دیکھ رہے ہیں اور امید کررہے ہیں کہ چونکہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یعنی وزارت خارجہ امریکہ کا پہلا ایگریکیٹو ادارہ تھا جو 1789 میں قائم ہوا اس لئے شاید اس کے ساتھ ایسا نہ کیا جائے ، پر DOGE کے کارندوں کو” ”فوگی باٹم“ نامی عمارت جہاں وزارت خارجہ کے دفاتر ہیں کی راہداریوں میں گھومتے دیکھ کر انہیں خوف محسوس ہوتا ہے۔

کورسٹائن کے پاس DHS ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی اور FEMA (آفات و ایمرجنسی کا وفاقی ادارہ جو DHS کا حصہ ہے) دونوں کے سینئر مشیر کے عہدے ہیں۔ ایک DHS کے اہلکار کا کہنا ہے DOGE کے DHS میں دخل اندازی کے اثرات قومی سلامتی پر ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ DHS کی ذمہ داری دیگر چیزوں کے علاوہ (غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف) سرحدی تحفظ، آفات سے نمٹنا اور انسداد دہشت گردی بھی ہے۔ “یہ لوگ بنیادی طور پر معاملات کو بغیر سمجھے توڑ پھوڑ کر رہے ہیں”، انہوں نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہا کہ وہ حساس معاملات پر گفتگو کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ اب تک کورسٹائن کی وزارت خارجہ میں ذمہ داری غیر واضح ہے لیکن اہلکاروں نے کہا کہ اس کی ٹیکنالوجی بیورو میں تعیناتی کا مطلب یہ ہے کہ وہ غیر مجاز طور پر حسّاس خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں دیگر ممالک کے ساتھ معاملات اور بیرون ملک ہونے والی سرگرمیوں کی اطلاعات نکلنے کا خطرہ ہے۔

اب ایلون مسک کی اثر ورسوخ پر بھی سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ مسک پر پہلے بھی دنیا بھر میں امریکی ایجنٹوں کی حساس ترین معلومات لیک کرنے کا الزام لگ چُکا ہے ۔ یہ واضح نہیں ہے کہ مُسک یا اس کے ٹیم کے ممبران کا سیکیورٹی بیک گراؤنڈ چیک ہوا تھا یا نہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ مسک کی ٹیم نے DOGE کے کارکنان کو آن لائن چاٹ گروپوں سے بھرتی کیا ہے۔ وہایٹ ہاؤس کا اصرار ہے کہ DOGE کے کارکنان وفاقی ملازمین ہیں اور ان کے پاس مطلوبہ سیکورٹی کلئیرنس ہے اور وہ وفاقی قوانین کے مطابق کام کررہے ہیں ۔

کورسٹائن کے علاوہ 23 سالہ SpaceX (ایلون ٹرمپ کی کمپنی) کے سابق انٹرن لیوک فیریٹر کا نام بھی وزارت خارجہ کی ڈائریکٹری میں محکمے کے بیورو آف ڈپلومیٹک ٹیکنالوجی میں درج ہے ۔ اب تک کورسٹائن اور فیریٹر سمیت DOGE کے لئے کام کرنے پچیس سال سے کم عمر 6 انجینئروں کی شناخت کی جاسکی ہے۔ DOGE کی ترجمان کیٹی ملّر اور وزارت خارجہ دونوں نے اس سلسلے میں سوالوں کے جواب نہیں دیے۔ ایک اور صاحب جو DOGE کے ایک انجینئر سے ذاتی طور پر واقف ہیں نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا ۔ کہ ان انجینئروں کی ٹیکنالوجی پر عبور وقابلیت میں کوئی شک نہیں پر DOGE کے لوگوں کو مختصر عرصے میں اتنے زیادہ اختیارات دینا تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”ان کے پس منظر میں ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کی علامت نظر نہیں آتی ، بلکہ وہ مشکل سوالات کے جواب تلاش کرنے آئے ہیں، ان کے لئے مشکل سوال ، ایک معمہ یا پہیلی ہوتی ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ بچپن سے مشکل سوالات و معموں کے ساتھ کھیلتے رہے تھے ۔۔ فرق اتنا ہے کہٗ اس مرتبہ اس کے ساتھ صدر و ارب پتیوں کے ساتھ شانے سے شانہ ملانے کا موقع ملنا ایک اضافی فائدہ ہے، لیکن یہ دنیا کو انتہائی تنگ زاویے سے دیکھنا ہے جو موجودہ صورتحال (جس کے پورے معاشرے و دنیا پر وسیع اثرات ہوں) کو صرف انجینرنگ کے زاویے دیکھنا انتہائی غلط ہے۔“ ۔

درحقیقت کنسلٹنگ کے شعبے میں انتہائی ذہین نوجوانوں کو جن کے میں اپنی ٹیکنکل و ذہنی صلاحیتوں اور منطقی و غیر روایتی انداز فکر کی بدولت ایسے پیچیدہ معاملات جو کسی ادارے کے لئے لاینحل بن چُکے ہیں کے لئے لایا جاتا ہے تاکہ وہ ان مسائل کو باہر سے دیکھ کر آؤٹ آف باکس (غیر روایتی یا اچھوتا) حل تجویز کرسکیں ۔ یہ بھی درست ہے کہ کنسلٹنگ کے میدان میں اترنے کے خواہشمند نوجوانوں کی تیاری کا اہم حصہ ہی “کیس اسٹڈی” جس میں وہ مختلف اداروں کے مخصوص مسائل پر مبنی رپورٹ کا مطالعہ کرکے ان کے منطقی حل تلاش کرنے کی کوشش کرنے کی مشق کرتے ہیں۔اس لحاظ سے مشکل معمے و پہیلیوں کا حل تلاش کرنا ان کا شوق و مشق رہی ہے ۔اس شعبے میں کامیاب کنسلٹئنس عمر وتجربے کے ساتھ یقیناً اچھے اور اہم اداروں میں کلیدی ذمہ داریوں پر پہنچتے ہیں۔ لیکن موجودہ صورتحال میں یہ نوجوان یہاں چاہے کتنے بھی ذہین ہوں بظاہر یہ اپنے کیرئیر کی ابتدائی سیٹرھیوں پر ہیں اور بظاہر انہیں کوئی بھی عہدہ دیا جائے درحقیقت یہ بطور جونیئر کنسلٹینٹ کے کام کررہے ہیں جو اپنی رپورٹ اوپر کسی اور کو دیکر اس کی حسب ہدایت کام کررہے ہوں۔

دنیا کے کسی بھی ملک میں حساس مواد کی رسائی کو سختی کے ساتھ کنٹرول کیا جاتا ہے اس لئے جنہیں ان مواد تک رسائی ہوتی بھی ہے تو بھی انہیں بلا اجازت کسی کو دکھانے یا بتانے کی ممانعت ہوتی ہے یہاں بظاہر یہ جونئیر کنسلٹینٹ حساس کو جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں وہ اپنے تجربے و ایکسپوژ کے لحاظ سے اس کی قابلیت نہیں رکھتے ۔۔ اس لئے یقیناً یہ مواد اور ان کی رپورٹیں شیئر کرنا اس کی مجبوری ہے ۔ قومی و بین القوامئ اہمیت کے اداروں میں ذمہ دار عہدوں پر متعین کرنا غیر ذمہ داری اور شدید نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

(مضمون کی تیار میں واشنگٹن پوسٹ / دی انڈیپینڈنٹ ودیگرذرائع سے مدد لی گئی ہے)

Comments

اعظم علی

اعظم علی سنگاپور میں مقیم ہیں۔ آئی ٹی بزنس سے وابستگی ہے۔ پاکستانی سیاست ، بین الاقوامی تعلقات اور ٹیکنالوجی کے امور پر گہری نظر ہے. غیرجانبداری سے صورتحال کا تجزیہ کرتے ہیں. ترجمہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔

Click here to post a comment