ہوم << حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ کا قرآن - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ کا قرآن - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

Image processed by CodeCarvings Piczard ### FREE Community Edition ### on 2017-08-08 18:34:34Z | http://piczard.com | http://codecarvings.com·½ÿ¶PÝK

فروری ۱۸۱۱ء جمعہ کا دن تھا۔ سارا قسطنطنیہ بڑی بے چینی سے اس تحفے کا انتظار کر رہا تھا۔ جو مصر کے گورنر محمد علی پاشا نے سلطان محمود ثانی کو بھیجاتھا۔ قافلہ یہ تحفہ لے کر قسطنطنیہ میں داخل ہوا ۔ شہر کے لوگ گلیوں کے دونوں طرف کھڑے ، سینے پر ہاتھ رکھے دورد شریف پڑھتے ہوئے اشک بار آنکھوں سے اس تحفے کو اپنے سامنے سے گذرتا دیکھ رہے تھے ۔ قافلہ ٹوپ کاپی محل پہنچا ۔ سلطان محمود ثانی اپنے تمام وزراء اور مصاحبین ، ماں اور حرم کی دیگر خواتین کے ساتھ ننگے پاؤں محل کے باہر انتظار میں کھڑا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر ریشم میں لپٹے اس تحفے کو کانپتے ہاتھوں سے تھاما۔ آنکھوں سے لگایا ، کئی بار چوما اور پھر اسے سر پر رکھ کر محل کی جانب چل پڑا اور اسے لے جا کر محل کے اس خاص کمرے میں رکھ دیا جو سلطان سلیم اوّل نے ان متبرکات کے لیے بنوایا تھا، جو وہ ۱۵۱۷ء میں فتح مصر کے بعد اپنے ساتھ لے کر آیا تھا ۔ یہ واقعہ Osmanlı padişahı Mehmood II میں بہت تفصیل سے درج ہے ۔

یہ خاص تحفہ حضرت عثمان رضی تعالی عنہ کا قرآن تھا، جسے المصحف الشریف حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ کہا جاتا ہے ۔ اس کے بارے میں یہ روایت تھی کہ یہ وہ قرآن ہے جسے پڑھتے وقت بلوائیوں نے آپ کو شہید کیا تھا، اور آپ کے خون کے قطرے ان صفحات میں جذب ہوگئے تھے جو اس وقت آپ کے سامنے کھلے ہوئے تھے۔

محمد علی پاشا نے یہ قرآن کہاں سے حاصل کیا، اس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے ۔ یہاں تک کہ توپ کاپی محل کا ریکارڈ والا رجسڑ جہاں اس کی آمد کا اندراج ہوا تھا ، وہ بھی اس حوالے سے کچھ بتانے سے قاصر ہے۔ قرآن کا یہ نسخہ بھیڑ کی کھال پر لکھا گیا تھا ۔ اس کے چار سو آٹھ صفحے ہیں، اور صرف دو صفحے (۲۳ آیات ) گمشدہ ہیں ۔اس لحاظ سے یہ ۹۹فیصد مکمل اور اپنی اصل حالت میں محفوظ تھا۔ اس کا عرض ۴۶ اور طول ۴۱ سنٹی میڑ ہے اور ہر صفحے کی موٹائی ۱۱ سنٹی میٹر ہے۔ یہ قرآن کوفی زبان میں لکھا گیا تھا اور یہ وہی رسم الخط ہے جس میں یروشلم کے قبة الصخرہ اور دمشق کی اموی مسجد پر آیات لکھی گئی ہیں۔

طبری میں روایت ہے کہ ۶۳۳ ء کو جنگ یمامہ میں ستر سے زیادہ حفاظ صحابہ شہید ہوئے تو خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر رضی تعالیٰ عنہ بہت متفکر ہوئے. وہ خاص طور پر حضرت سالم موؔلی ابی حذیفہ رضی تعالیٰ عنہ کی شہادت سے بہت پریشان تھے جن کے بارے میں رسول اکرم نے فرمایا تھا کہ
قرآن چار لوگوں سے سیکھو:سالم موؔلی ابی حذیفہ، عبداللّہ بن مسعود، ابیؔ بن کعب اور معاذ بن جبل رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین. حضرت سالم حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ کے آزاد کردہ ایرانی غلام تھے، اور اسی نسبت سے سالم موؔلی ابو حذیفہ کہلاتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی اس پریشانی کا ذکر حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ سے کیا پھر سب کے مشورے پر حضرت زید بن ثابت رضی تعالیٰ عنہ کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ قرآن کے تمام بکھرے ہوئے صفحات کو ایک جگہ اکٹھا کر کے کتاب کی شکل دیں۔

حضرت زید بن حارث رضی تعالیٰ عنہ کاتب وحی تھے اور قرآن کا بیشتر حصہ انہوں نے ہی محفوظ کیا تھا۔ صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”میں نے قرآن کے تمام بکھرے حصوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا جو کھجور کے پتوں ، سفید پتھروں اور چمڑے کے ٹکروں پر اور حفاظ کرام کے دلوں میں محفوظ تھے ۔اور یہاں تک مجھے سورہ توبہ کی آخری آیت حضرت ابی حذیفہ بن ثابت انصاری رضی تعالیٰ عنہ سے ملی۔ جو مجھے پہلے کہیں اور سے نہ ملی تھی۔“، اور پھر ساری ضروری تحقیق اور تصدیق کے بعد قرآن کو پہلی بار ایک مکمل کتاب کی صورت میں مرتب کیا گیا ۔ یہ کام غالباً ۶۳۴ ء میں حضرت ابوبکر رضی تعالیٰ عنہ کی وفات سے چند مہینے پہلے مکمل ہوا۔ یہ قرآن حضرت ابوبکر رضی تعالیٰ عنہ کے پاس رہا ، آپ کی رحلت کے بعد یہ دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور ان کی شہادت کے بعد یہ حضرت حفصہ رضی تعالیٰ عنہاکو ملا۔ اس قرآن کو مصحف ابوبکر کہتے ہیں ۔

۶۴۴ء میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تیسرے خلیفہ بنے تو حضرت انس بن مالک رضی تعالیٰ عنہ صحیح بخاری میں روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت حذیفہ بن یمان حضرت عثمان پاس آئے ۔ وہ آرمینیہ میں اسلامی فوجوں کے سالار تھے اور انہوں نے خلیفہ سے اپنی پریشانی بیان کی کہ میرے لشکر میں عرب ، کوفی، عراقی، ایرانی، آذربائیجانی غرض بہت سی قوموں کے سپاہی ہیں، اور سب کے سب مختلف لہجوں اور انداز میں قرآن پڑھتے ہیں. انہوں نے حضرت عثمان پر زور دیا کہ چونکہ اسلام اب ساری دنیا میں پھیل چکا ہے، اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ کچھ ایسا انتظام کیا جائے کہ ساری اُمّہ ایک لہجے اور انداز میں قرآن پڑھے اور لکھے ورنہ بہت سی الجھنیں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ۔ حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ کو ان کا یہ مشورہ بہت پسند آیا اور انہوں نے چار صحابہ کرام پر مشتمل ایک مشاورتی کمیٹی بنائی ۔ جس میں زید بن حارث ، عبداللّہ بن زبیر ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمن بن حارث رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین شامل تھے ۔ آپ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ مصحف ابوبکر منگوایا اور ان صحابہ کرام کو ہدایت کی کہ اس کے مطابق قرآن کی نقول تیار کی جائیں۔ یہ کام ۶۵۰/۶۵۱ ء میں مکمل ہوا . پھر آپ نے ان نسخوں کو دمشق ، کوفہ ، بصرہ اور ماورالنہر بجھوادیا ۔ اور تمام گورنروں کو ہدایت کی کہ آئندہ سے صرف یہی قرآن لکھے اور پڑھے جائیں گے اور باقی تمام نسخوں کو جلانے کی ہدایت کی۔ یہ نسخہ ۱۱۴ سورتوں پر مبنی تھا۔ اہل تشیع اس سے اختلاف کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف وہی قرآن صحیح ہے جو حضرت علی رضی تعالیٰ عنہ کے پاس محفوظ تھا۔ حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ نے ان میں سے ایک نسخہ اپنے پاس بھی رکھ لیا تھا۔ اور مصحف ابوبکر حضرت حفصہ رضی تعالیٰ عنہا کو واپس کردیا۔

شان انتھونی Sean Anthony اور کتھرائین برونسن Katherine Bronson نے ابن شہاب الزہری کے حوالے سے لکھا ہے کہ مصحف ابوبکر ہی صحیح ترین قرآن تھا اور صحف حضرت عثمان اس کے متن کی ہو بہو نقل تھا۔ الزھری نے مزید لکھا ہے کہ حضرت حفصہ رضی تعالیٰ عنہا ۶۶۵ء میں فوت ہوئیں ۔ ان کی رحلت کے بعد مصحف ابوبکر ان کے بھائی عاصم بن عمر رضی تعالیٰ عنہ کو وراثت میں ملا جسے عبدالمالک بن مروان نے ان سے لے کر ضائع کروا دیا۔ الزہری اسلام کے اولین تاریخ نگاروں میں سے ہے جو ۷۴۲ء میں فوت ہوا۔

کئی دہائیوں تک ٹوپ کاپی والے قرآن کو تین اعزاز حاصل رہے کہ
۱ ۔ یہ دنیا کا سب سے پرانا قرآن ہے
۲-یہ دنیا کا مکمل ترین قرآن ہے جو اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے۔
۳- اس کا تعلق قرآن کے ان نسخوں سے ہے جو حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ نے ۶۵۱ء میں لکھوائے تھے لیکن ایک نسخہ اپنے آپ پاس بھی رکھ لیا تھا۔ اور پھر جب انہیں شہید کیا گیا تو وہ یہی قرآن ہے جسے پڑھتے وقت وہ شہید ہوئے تھے۔

کچھ ایسا ہی دعویٰ سمرقند ، مصر اور سینٹ پیٹرزبرگ کے قرآنی نسخوں کے بارے میں بھی کیا جاتا رہا ، لیکن قبولیت کا جو شرف ٹوپ کاپی کے صحف عثمانی کو تھا ، وہ کسی اور نسخہ قرآن کو حاصل نہ ہو سکا ۔ تقریباً سو سال تک لوگ ٹوپ کاپی والے نسخہ قرآن کو مصحف حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ سمجھ کر اس کی زیارت کے لیے آتے رہے۔ لیکن ۲۰۰۷ ء میں ریڈیو کاربن ڈیٹنگ Radiocarbon dating اور پلئیو گرافی Palaeography ک ے ذریعے ہونے والی تحقیق نے ثابت کیا کہ نہ تو ٹوپ کاپی محل کا نسخہ اور نہ ہی سمرقند ، مصر اور روس والے نسخوں کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کوئی تعلق ہے ۔

ڈاکٹر طیار التیکلچ Dr. Tayyar ALTIKULAÇ اور محمد صالح المنجد بھی اس بات سے متفق ہیں کہ یہ قرآن حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ کے دور سے تعلق نہیں رکھتا۔ ڈاکٹر طیار التیکلچ ترکی کے مشہور ماہر آثار قدیمہ، محقق اور دانشور ہیں، وہ ترکی پارلیمنٹ کے ممبر بھی رہے ۔انہوں نے گیارہ سال تک صحف عثمانی پر تحقیق کی اور ۲۰۰۸ء میں انہوں نے اپنی اس تحقیق پر ایک کتاب لکھی۔ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے کی جانے والی تحقیق کے مطابق اس قرآن کا تعلق ۷۰۰ء سے ۸۰۰ء کے زمانے تک سے ہو سکتا ہے، جبکہ حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ ۱۷ جون ۶۵۶ء کے دن شہید ہوئے۔ پلئیو گرافی کا کہنا ہے کہ خلفاء راشدین کے دور میں مدینہ اور حجاز میں صرف حجازی رسم الخط رائج تھا ۔ کوفی رسم الخط اموی دور میں مقبول ہوا ۔

ڈاکٹر البا فیدلی Alba Fedeli ایک برطانوی ریسرچ سکالر ہیں۔ وہ ۲۰۱۳ ء میں یونیورسٹی آف برمنگھم میں اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے یونیورسٹی کے تہہ خانے میں پائے جانے والے قدیم اسلامی کاغذات اور دستاویزات پر ریسرچ کر رہی تھیں، تو انہیں ان پرانے کاغذات میں قرآن کے دو قدیم چمڑے کے اوراق ملے جن کے دونوں طرف حجازی رسم الخط میں سورة کہف ، سورة مریم اور سورة طٰہ کی آیات لکھی ہوئی تھیں۔ کاڈبری ریسرچ لائبریری Cadbury Research Library ے یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے شعبہ میں قرآن کے ان دو اوراق پر جب تحقیق کی تو یہ انکشاف ہوا کہ ان اوراق کے لئے استعمال ہونے والے چمڑے کا تعلق ۵۶۸ء سے ۶۴۵ء کے زمانے تک سے ہو سکتاہے ۔

پلئیو گرافی Palaeography نے بھی تصدیق کی کہ اس نسخے میں استعمال ہونے والے رسم الخط کا تعلق اسلام کے قدیم ترین رسم الخط سے ہے جو رسول اکرم صلعم کے دور میں رائج تھا۔ اس پر یونیورسٹی آف برمنگھم کے شعبہ کرسچنیٹی اینڈ اسلام Christianity and Islam کے انچارج پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے اعلان کرتے ہوئے کہا: The tests carried out on the parchment of the Birmingham folios yield the strong probability that the animal from which it was taken was alive during the lifetime of the Prophet Muhammad or shortly afterwards. This means that the parts of the Qur’an that are written on this parchment can, with a degree of confidence, be dated to less than two decades after Muhammad’s death. These portions must have been in a form that is very close to the form of the Qur’an read today, supporting the view that the text has undergone no alteration and that it can be dated to a point very close to the time it was believed to be revealed
اس کے بعد پوری دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ، اور بی بی سی نے اس پر کئی پروگرام کیے اپنے ایک پروگرام میں بی بی سی نے کہا: BBC said that "nothing should be ruled out" and that the date could be early as the first written Qurans under Abu Bakr. Birmingham Quran might be identified with the text known to have been assembled by the first Caliph Abu Bakr, between 632 and 634CE
یاد رہے رسول اکرم ﷺنے ۶۳۲ء میں دنیا فانی سے پردہ فرمایا اور حضرت ابوبکر رضی تعالیٰ عنہ کی رحلت ۶۳۴ء میں ہوئی ۔ اس کے بعد سے آج تک ان اوراق پر کئی زاویوں سے تحقیق ہو تی رہی ہے اور ہو رہی ہے۔ علماء کی ایک بہت بڑی تعداد اس بات پر متفق ہو چکی ہے کہ برمنگھم کی یونیورسٹی کے تہہ خانے سے ملنے والے چمڑے کے یہ دو اوراق درحقیقت مصحف ابوبکر کا حصہ رہے ہیں ۔ پچھلے سال محمد بن راشد المختوم فاؤنڈیشن کے صدر جمال بن حويرب نے بھی تصدیق کی کہ برمنگھم یونیورسٹی سے ملنے والے قرآن کے یہ اوراق مصحف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حصہ ہیں۔ قرآن کے یہ دو اوراق یونیورسٹی آف برمنگھم کے تہہ خانے تک کیسے پہنچے ، کہاں سے آئے اور کب سے وہاں موجود تھے ؟ ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں اور نہ ہی یونیورسٹی کے ریکارڈ میں اس بارے کچھ درج ہے۔ ان اوراق کا تعلق حضرت ابو بکر رضی تعالیٰ عنہ سے ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن ساری دنیا کے محقیقین اس بات پر یکسو ہیں کہ یہ اب تک ملنے والا سب سے قدیم ترین قرآن کا نسخہ ہے۔

Bibliothèque nationale de France فرانس کی نیشنل لائبریری ہے . ۲۰۱۵ء میں اس کے مہتمم اعلیٰ فرانکو ڈیروچ François Déroche نے اعلان کیا کہ ان کے پاس بھی ایک قرآن کے نسخے کے ستر اوراق ہیں جو چمڑے پر حجازی رسم الخط میں لکھا گیا ہے ۔جن کاتعلق ۶۷۰ ء سے ۷۴۵ ء تک کے زمانے سے ہے ۔ انہوں نے یہ اوراق ایک فرانسیسی جرنلسٹ اور مستشرق جین لوئیس کے لواحقین سے خریدے تھے۔ جین یہ نسخہ مصر کے شہر فسطاط کی عمرو بن العاص مسجد سے نیپولین کے دور میں لے کر آیا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ جین لوئیس کے وارثوں نے اس قرآن کے چھبیس اوراق سینٹ پیٹرزبرگ کی نیشنل لائبریری ، ایک ورقہ وٹیکن کی لائبریری اور ایک ورقہ خلیلی کولیکشن لندن کو بھی بیچا تھا۔

ٹوپ کاپی محل میں محفوظ قرآن سے گو کہ اس کے قدیم ترین ہونے کا اعزاز چھن گیا ہے ، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ مصحف آج تک ملنے والا سب سے پرانا اور تقریباً مکمل قرآنی نسخہ ہے آج تک کبھی کوئی قدیم قرآن اتنی مکمل شکل میں دستیاب نہیں ہو سکا۔ اس کا تعلق حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ سے ہے یا نہیں اس بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کی جا سکتی ، اور اس کافیصلہ بھی آنے والا وقت ہی کرے گا۔ لیکن ٹوپ کاپی میوزیم جانے والا ہر مسلمان سیاح آج بھی اس یقین کے ساتھ اس قرآن کو دیکھنے جاتاہے کہ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا وہی قرآن ہے جسے پڑھتے ہوئے آپ شہید ہوئے اور اس پر پائے جانے والے خون کے قطروں کو دیکھ کر آج بھی ہر شخص کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔

(یہ مضمون مصنف کی کتاب ”زبان یار من ترکی “ کا حصہ ہے۔)