ہوم << 471 روز کی جنگ سے پہلے اور بعد کا منظر -محمد عبدالرحمن السدیس

471 روز کی جنگ سے پہلے اور بعد کا منظر -محمد عبدالرحمن السدیس

2007سے اہالیان غزہ محاصرے میں تھے، ایک طرف سمندر اور سمندر میں بھی صیہونی افواج، باقی اطراف میں باڑ اور صیہونی فوجی درندے۔ 365 مربع کلومیٹر کے مکینوں میں سے 64 فیصد خوراک، صاف پانی اور دوائیوں کی کمی کا شکار تھے۔ غرض یہ بستی دنیا کی سب سے بڑی جیل تھی جس کے مکین 23لاکھ انسان تھے۔ 5250 فلسطینیوں کو قابض اسرائیل نے یرغمالی بنایا ہوا تھا اور ان میں سے کچھ نے چالیس برس اسرائیلی جیلوں میں گزارے تھے۔ مزید یہ کہ مسجد اقصٰی پر بار بار صہیونی دراندازی کرتے تھے اور 2024 تک مسلمانوں کے تیسرے مقدس مقام پر قبضے کے منصوبوں کا اعلان کر رہے تھے۔ ویسٹ بینک میں صیہونی ہر سال کئی کلومیٹر سکوئیر پر قبضہ کر رہے تھے جیسے کہ، 2022 میں 24 کلومیٹر سکوئیر جبکہ 2023 میں مزید 50 کلومیٹر سکوئیر پر قابض ہو چکے تھے اور فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر رہے تھے. صرف 2023 میں ہی ویسٹ بینک میں صیہونی قابضوں کے 12855 نئے گھر تعمیر کیے گئے۔اسی طرح 2007 سے 2021 تک 4 بڑی فوجی کارروائیاں بھی غزہ کے نہتے عوام پر ہو چکی تھیں۔ یہ وہی موقع تھا جب اقوام عالم میں اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کی باز گشت گونج رہی تھی اور معاہدہ ابراہیمی کا بار بار تذکرہ کیا جا رہا تھا، صہیونی نیتن یاہو اقوام متحدہ کے اجلاس میں گریٹر اسرائیل کے منصوبے کا اعلان کر چکاتھا، اور یہی موقع تھا جب عرب دنیا کے ممالک کو دن رات میں امیر ہونے کے خواب دکھائے جا رہے تھے اور ان خوابوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے سے مشروط کیا گیا تھا۔

اس جبر مسلسل کے دوران حماس نے ڈپلومیٹک محاذپر اس مسلہ کا حل کرنے کی کوششیں کیں، اس کے بعدہفتہ وار احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا تاہم قابضین نے نہتے فلسطینی مظاہرین پر گولیاں برسائیں۔ عین اسی موقع پر اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے دلیروں نے اپنے حق مزاحمت کو استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر کو حیران کر دیا۔ خود قابضین حیران تھے کہ 17 سال سے غزہ نامی جیل میں قید یہ لوگ سکیورٹی حصار کیونکر توڑنے میں کامیاب ہوئے اور کیسے ان کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی۔

قابض اسرائیل نے جنگ کا آغاز اس دعوی سے کیا کہ وہ غزہ پر قبضہ کرے گا، اپنے قیدیوں کو چھڑوائے گا ، اور اسلامی تحریک مزاحمت حماس کا خاتمہ کرے گا۔ تمام عوام کو سزا دیتے ہوئے صیہونی دہشتگردوں نے غزہ پر ایک لاکھ ٹن بارود برسایا۔ ۸۸ فیصد غزہ تباہ ہوچکا ہے۔ غزہ میں 376000گھروں پر حملہ کیا گیا، 494 سکولوں پر حملے ہوئے، 34 ہسپتالوں کو جنگی جنونیوں نے نشانہ بنایا۔ 61182 فلسطینی قتل کیے گئے اور ان میں سے 14222 کی لاشیں تاحال نہیں مل سکی ہیں۔ 110,453 زخمی ہوئے ،38495 بچے یتیم ہوئے، 70 فیصد خواتین اور بچوں کو دوران جنگ نشانہ بنایا گیا،بات یہیں رکی نہیں بلکہ بھوک اور قحط کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، روزانہ 40 ٹرکوں کو امدادی سامان کے ساتھ 23 لاکھ لوگوں کے لیے خوراک لے کر داخلے کی اجازت ملتی رہی حالانکہ ضرورت روزانہ 1000 ٹرکوں کی تھی۔ اور اتنی تباہ حالی کے بعد اب اقوام متحدہ کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ غزہ کو پہلے جیسا بنانے کے لیے 18 سال درکار ہیں۔ گویا تمام تر جنونیت اور حیوانیت کا مترادف صہیونیت ٹھہری۔

دوسری جانب اس جنگ کے دوران جنہوں نے فلسطینی مجاہدین کی حمایت کی ان کی تعداد بھی بہت بڑی ہے۔خاص طور پر حزب اللہ لبنان ، یمن کے انصاراللہ، عراق کی اسلامی تحریک مزاحمت ، اور اسلامی جمہوریہ ایران جو ہر موقع پر ثابت قدمی کے ساتھ حماس کے شانہ بشانہ لڑتے رہے۔ تاریخ اس موقع پر جنوبی افریقہ، قطر، ناروے، اسپین، آئرلینڈ، پاکستان اور دنیا کے تمام باضمیر انسانوں ممالک کی امداد کو بھی یاد رکھے گی جنہوں نے دیگر محاذوں پر فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

قابض افواج اور ان کے حامیوں کی طرف سے کی گئی وحشیانہ نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت دشمن اقدامات، جو 471 دنوں تک جاری رہے، ہمیشہ فلسطینی عوام اور دنیا کی یادوں میں محفوظ رہیں گے۔ یہ جدید دور کی سب سے بھیانک نسل کشی ہے، جس میں تکالیف، اذیتیں اور مصائب کے تمام رنگ شامل تھے۔ نسل کشی کی جنگ کے وہ واقعے ہمیشہ انسانیت کے ماتھے پر ایک دھبہ بن کر رہیں گے، اور دنیا کے خاموش اور کمزور کردار کی علامت ہوں گے۔ فلسطینی کبھی نہیں بھولیں گے کہ کس نے اس نسل کشی میں حصہ لیا، چاہے وہ سیاست اور میڈیا کی سطح پر اس کے لیے پردہ ڈالنے والے ہوں، یا وہ جنہوں نے ایک لاکھ ٹن بموں اور بارودی مواد کو غزہ کے معصوم عوام پر گرا یا۔

حماس کےقائد یحیی سنوار نے آخری سانس تک اپنی جدجہد جاری رکھ کے دنیا کو مسجد اقصی اور انبیا کی سرزمین کی آزادی کی اہمیت کے متعلق باور کروایا ، سابق وزیر اعظم فلسطین اسماعیل ہنیہ نے اپنے خاندان سمیت قربانی دے کر واضح کیا کہ چاہے قیادت ہو یا عام شہری یہ سبھی کی جدوجہد ہے۔ لہذا شمالی غزہ ہو یا جنوبی غزہ مزاحمت مسلسل جاری رہی، اسی وجہ سے آج تک قابضین کو جنگی، معاشی، ڈپلومیٹک نیز غزہ کی ایک ایک گلی سے فاش شکست کا سامنہ کرنا پڑا۔ دنیا حیران ہوئی کہ باوجود بے سروسامانی کے کیسے یہ جدوجہد اس بڑے پیمانے پر ۱۵ ماہ تک جاری رہی۔

مذاکرات کی میز پر حماس مزاحمت، جدوجہد، قربانی اور شہادت کا استعارہ بن کر اپنا موقف پورے استدلال کے ساتھ پیش کرتی رہی۔ اور یوں ایک باوقار انداز کے ساتھ مذاکرات کا یہ سفرطے پایا۔ دبے نہیں، جھکے نہیں، تھکے نہیں اور نہ ہی بھاگے۔ طویل مذاکرات کے بعد اب جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ایک طرف اس معاہدہ کے بعد بوکھلایا ہوا اسرائیل ہے جس کو یہ زعم تھا کہ ساری ڈپلومیسی اسے آتی ہے اور ساری ٹیکنالوجی اسی کی ملکیت ہے کیونکہ پشت پر امریکہ اور کئی یورپی ممالک کی لامحدود مدد موجود ہے اور دوسری جانب بے سر و سامانی اور بے گھر فلسطینی تاہم استقامت کا پہاڑ۔ لہذا اب محمد ضیف ۔۔۔ محمد ضیف ہم آپ کے ساتھی ہیں کے نعرے بارود کی گھن گرج پر غالب آچکے ہیں۔ قابضوں کے دعووں کے برعکس ان کی فوجوں کو غزہ سے دستبردار ہونا پڑا، حماس پہلے سے زیادہ طاقتور حیثیت میں موجود ہےاور اسرائیلی قیدیوں کو قابض صیہونی اپنی طاقت کے بل بوتے پر نہ چھڑواسکے بلکہ جب حماس نے انہیں رہا کیا تو رسول اللہ ﷺ کے حکم کے عین مطابق قیدیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا گیا اور اس حکمت کا بھی خیال رکھا گیا کہ اس فتح کے موقع پر بھی دشمن یہ اندازہ نہ لگا سکے کہ یہ قیدی کہاں سے آئے ہیں، جبکہ دوسری جانب دنیا نے ان مظلوم فلسطینی قیدیوں کو بھی دیکھا جو مسلسل تشدد اور حیوانیت کا شکار رہنے کے بعد جب رہا ہوئے تو کس کسمپرسی کی کیفیت کا شکار تھے۔

اسی لیے یہ جنگ بندی فلسطینی عوام اور انکی تحریک مزاحمت حماس کی فتح ہے کہ جہاں اپنے تمام تر مقاصد کو حاصل کر لیا گیا ہے، اوربالآخر قابض اسرائیل مجبور ہوا کہ فلسطینی مرد و خواتین اور وہ تمام قیدی جنہیں درجنوں عمر قید کی سزا دی گئی تھی ان سب کو رہا کرے گا اسی طرح الفتح، اسلامک جہاد سمیت تمام مزاحمتی تنظیموں کے قائدین جیسے کہ فلسطینی رہنما مروان البرغوثی، خالدہ جرار کو بھی قید سے آزاد کروا لیا گیا ہے۔ لہذا آج فلسطین کی آزادی کے معاملے کو عالمگیریت حاصل ہو چکی ہے ،قابض صیہونیوں کی نسل کش ذہنیت دنیا کے سامنے واضح ہو چکی ہے۔ اور وہ دن دور نہیں ہے کہ انبیا کی سرزمین آزاد ہوگی.