معروف ٹک ٹاکر نے 22 سال کی عمر میں خودکشی کرکے زندگی کا چراغ گل کردیا،
20 سالہ ٹک ٹاکر کو سینے پر گولی مار دی گئی،
معروف ٹک ٹاکر ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئی،
ٹک ٹاک کے جنون نےایک اور انسانی جان لے لی، کیا آپ کے نظروں کے سامنے سے خبروں کی یہ سرخیاںگزرتی ہے۔؟کبھی اس کے وجوہات کے بارے میں سوچا۔؟
دنیا تیزی سے ڈیجیٹل ہو رہی ہے، اور سوشل میڈیا اب محض تفریح کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ نوجوانوں کے لیے شہرت اور دولت کمانے کا ایک بڑا پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ ٹک ٹاک، سنیپ چیٹ، اور اسی طرح کی دیگر ایپس نے ایک ایسا کلچر متعارف کرایا ہے جہاں ویوز، لائکس، اور فالوورز حاصل کرنا زندگی کا مقصد بن چکا ہے۔ لیکن اس چکاچوند دنیا کے پیچھے ایک تاریک حقیقت ہے، جس کا خمیازہ ہم آئے دن خودکشیوں، قتل، اور ذہنی صحت کی بربادی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ یہ ایپس لائیو اسٹریمنگ اور مونیٹائزیشن کے ذریعے نوجوانوں کو اس بات پر اکسا رہی ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر ناظرین کی توجہ حاصل کریں۔ اکثر نوجوان اپنی حدود پار کرتے ہیں، اخلاقی اصولوں کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں، اور بعض اوقات ایسے خطرناک چیلنجز میں ملوث ہو جاتے ہیں جو ان کی زندگی لے سکتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں اگر ہم دیکھے تو بہت کثیر تعداد انٹرنیٹ پر مشہور ہونے کے چکر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
یہ حقیقت ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں وہی مواد وائرل ہوتا ہے جو سنسنی خیز، غیر معمولی یا حد سے زیادہ بولڈ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ نوجوان فحش حرکات، بے حیائی، یا خطرناک اسٹنٹس کے ذریعے اپنے فالوورز بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس عمل میں نہ صرف وہ اپنی عزت کھو دیتے ہیں بلکہ اپنی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ نوجوانوں کی خودکشی اور قتل کے بڑھتے ہوئے کیسز نے خاندانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کچھ لوگ بلیک میلنگ اور آن لائن ہراسمنٹ کا شکار ہو کر انتہائی قدم اٹھاتے ہیں، جبکہ کچھ غیرت کے نام پر قتل کر دیے جاتے ہیں۔ والدین بے بسی سے دیکھ رہے ہیں کہ ان کے بچے ایک ایسی دنیا میں کھو رہے ہیں جہاں حقیقت اور فریب میں فرق مٹ چکا ہے۔
یہ ایک نتہائی سنگین معاشرتی مسئلہ ہے، جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اسلام میں حیا کو ایمان کا جزو قرار دیا گیا ہے، اور بے حیائی کومعاشرتی بگاڑ کی جڑ بتایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اور بے حیائی کے قریب بھی نہ جاؤ، خواہ وہ کھلی ہو یا چھپی۔" (سورۃ الأنعام: 151) حدیث پاک میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "حیا ایمان کا حصہ ہے۔" (صحیح مسلم) . یہ تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ اسلامی معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کی کوئی جگہ نہیں۔ جو افراد اور پلیٹ فارمز اسے فروغ دیتے ہیں، وہ معاشرتی زوال اور اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے آج کے نوجوان لائکس، فالوورز، اور آن لائن گفٹس کے عوض اپنی عزت کا سودا کر رہے ہیں۔ مغربی میڈیا بے حیائی کو فیشن کے طور پر پیش کرتا ہے، اور ہمارے نوجوان بغیر سوچے سمجھے اسے اپنانے لگتے ہیں۔ اور اکثر والدین بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نگرانی نہیں کرتے، جس کا نتیجہ بے راہ روی کی صورت میں نکلتا ہے یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل شرم و حیا کوغیر ضروری سمجھنے لگی ہے، جس معاشرتی اقدار کمزور ہو رہی ہیں۔ مشہور ہونے کا دباؤ ڈپریشن، اینزائٹی، اور خودکشی جیسے سنگین مسائل کو جنم دے رہا ہے اس صورتحال میں بالخصوص والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور انہیں سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے آگاہ کریں۔اسکولوں اور کالجوں میں ڈیجیٹل لٹریسی اور اخلاقیات پر مبنی تربیت دی جانی چاہیے۔نوجوانوں کو دین اور اخلاقیات کی طرف راغب کرنا ہوگا تاکہ وہ شہرت اور دولت کے جھوٹے سراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنی حقیقی اقدار پر قائم رہیں۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی بے حیائی اور اخلاقی زوال کو روکنے کے لیے صرف اصلاحی اور مذہبی اقدامات کافی نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی کی مددسے بھی اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ درج ذیل تکنیکی اقدامات فحاشی کو کم کرنے اور سوشل میڈیا کو زیادہ محفوظ بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیںبڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹک ٹاک، انسٹاگرام، اور اسنیپ چیٹ* پہلے ہی مصنوعی ذہانت (AI) استعمال کرتے ہیں، لیکن اسے *مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ AI ماڈلز کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ فحش اور غیر اخلاقی مواد کو خودکار طور پر ڈیٹیکٹ کریں اور ہٹا دیں۔ لائیو اسٹریمز میں بے حیائی پھیلانے والے صارفین کو فوری طور پر بین (Ban) کر سکیں۔ فحش زبان، اشارے، اور لباس کے تجزیے کی صلاحیت رکھیں۔حکومت اوروالدین کو چاہیے کہ وہ ایسے سافٹ ویئرز اور فلٹرز متعارف کرائیں جو مخصوص الفاظ اور مواد کو بلاک کر سکیں۔ ایسے اکاؤنٹس کو محدود کریں جو مسلسل غیر اخلاقی مواد شیئر کر رہے ہوں فحش ویب سائٹس اور غیر اخلاقی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو ڈیفالٹ طور پر بلاک کریں والدین کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر بچوں کی نگرانی کے لیے جدید تکنیکی ٹولز استعمال کریں، جیسے Google Family Link، Custodia ، Net Nanny ، Bark یہ ایپس والدین کو یہ سہولت دیتی ہیں کہ وہ دیکھ سکیں کہ ان کے بچے کون سا مواد دیکھ رہے ہیں، کن لوگوں سے بات کر رہے ہیں، اور کن ایپس کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔
اسی طرح لائیو اسٹریمز میں بے حیائی کو روکنے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں لائیو اسٹریم شروع کرنے سے پہلے صارف کی شناخت اور عمر کی تصدیق کی جائے۔ لائیو اسٹریم کے دوران AI موڈریشن کا نظام ہو، جو کسی بھی غیر اخلاقی حرکت پر اسٹریم کو فوری طور پر بند کر دے بے حیائی کے مرتکب افراد کو ہمیشہ کے لیے بین (Ban) کر دیا جائے۔سوشل میڈیا ایپس میں ایسا سسٹم بنایا جائے کہ صارفین غیر اخلاقی مواد کو آسانی سے رپورٹ کر سکیں، اور ریپورٹ ہونے کے بعد پلیٹ فارم فوری کارروائی کرے بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں فحش مواد بیچ کر یالائیو اسٹریم میں "ورچوئل گفٹس" لے کر پیسے کماتے ہیں۔ حکومت اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو چاہیے کہ ایسے ورچوئل گفٹ سسٹم کو ختم کریں، جو فحاشی کو فروغ دے رہا ہے بے حیائی کےذریعے کمائے گئے پیسوں کو بینک میں منتقل کرنے پر سختی کریں۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو مجبور کریں کہ وہ اسلامی ممالک میں غیر اخلاقی مواد کو محدود کریں، بے حیائی کو فروغ دینے والے اکاؤنٹس کو بین کریں اسلامی اور روایتی اقدار کے مطابق مواد کی تشہیر کریں۔ یہ جنگ صرف الفاظ سے نہیں جیتی جا سکتی، ہمیں ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے عملی اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے!سوشل میڈیا کا استعمال بالکل منع نہیں، لیکن اس کا بے لگام ہونا معاشرتی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ ہمیں بطور والدین، اساتذہ، اور ذمہ دار شہری اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا تاکہ ہماری نسل محض ویوز اور ڈالروں کے چکر میں اپنی زندگیاں برباد نہ کرے۔
تبصرہ لکھیے