ہوم << کورس نا ہو گئے مذاق ہو گیا۔جویریہ ساجد

کورس نا ہو گئے مذاق ہو گیا۔جویریہ ساجد

اب رجب بٹ، ڈکی بھائی اور سسٹرالوجی بھی کورس کروائیں گے۔ کورس کا معیار کیا ہو گا سمجھا جا سکتا ہے۔ جس کا دل چاہ رہا ہے پاکستان کی معصوم عوام کو بیوقوف بنا کے کورس کروا رہا ہے اور عوام اتنی سیدھی کہ بھئی سمجھیں تو صحیح آپ کیوں ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔

کورسز کروائے جاتے ہیں کسی کوالیفیکشن کے لیے، سکلز سیکھانے کے لیے، کسی ہنر اور مہارت کو حاصل کرنے کے لیے اور آخر میں ایک ڈگری یعنی سند حاصل کرنے کے لیے کہ ہاں اس شخص نے اس چیز میں نالج اور مہارت حاصل کر لی ہے اب یہ فلاں کام کے لیے موزوں ہے۔ جو خود علم سے بے بہرہ ہے وہ لوگوں کو گائیڈ کیا کرئے گا۔ اسی طرح انسانی رویوں پر رہنمائی کیا جا سکتا ہے۔ قرآن و سنت کے احکامات کی روشنی میں مشورے دیے جا سکتے ہیں اپنے تجربات بتائے جا سکتے ہیں لیکن یہ کیا کہ اس کو پیسے کمانے کا زریعہ بنا لیا جائے۔ اب تو شادیوں کے کورس بھی ہوتے ہیں۔

شادیوں پہ کاونسلنگ ضروری ہے مگر کورس کے بعد کون سی ڈگری دی جائے گی شاید کل کو سسرالی یہ دیکھ کے رشتہ دیں کہ اس لڑکے یا لڑکی نے شادی کورس کیا ہے یا نہیں اس کے پاس ڈگری ہے یا نہیں۔ اگر کسی کے پاس بہتر خیالات ہیں احساسات ہیں راہنمائی کے لیے دانائی ہے آپ معاشرے کو صحیح سمت گائیڈ کر سکتے ہیں تو ایسا ضرور کرئیں۔ پھر معاشرے کی بات آئی تو معاشرے کو وہ سدھار رہے ہیں جو اس معاشرے کا حصہ ہی نہیں۔ جو یہاں رہتے ہی نہیں وہ کس طرح یہاں کے حالات پہ اتنی گرپ رکھ سکتے ہیں کہ یہاں کے معاشرتی رویوں پہ باقائدہ ڈگریاں بانٹنی شروع کر دیں کورس کروانے شروع کر دیں پھر یہی کہوں گی کہ دانائی ضرور ہو گی اسے ضرور تقسیم کریں۔

ہمارے یہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ کسی باہر کے ملک میں سالوں سے بسنے والوں سے پوچھو کہ ویزہ کے متعلق گائیڈ کر دیں یا یہ کہ کون سے ڈگریاں لی جائیں جن کے لیے باہر کے ملکوں میں ڈیمناڈ ہے یا وہاں رہنے بسنے کے متعلق گائیڈ کر دیں تو بڑی نخوت سے کہیں گے یہ سب آسان تھوڑی ہے سب تھوڑی آ سکتے ہیں بھئی .لیکن پاکستان کی معاشرت پہ کورس اور سند بانٹنے کے لیے ہمیشہ تیار ملیں گے۔ اور یہاں ختمیرات بھی بھیجیں گے تو جتلا جتلا کے بھیجیں گے کہ ہم پاکستان میں اتنی خیرات بھیجتے ہیں اتنے بڑے ڈونر ہیں اور ہمارے لوگوں کا حق حلال کا پیسہ کورسوں کے نام پہ لے جائیں گے۔

میرا ایک سوال ہے جو کسی تجربے سے گزرا نہیں وہ دوسرے کو اس کے متعلق پرفیکٹ گائیڈ کیسے کر سکتا ہے ہاں اندازے لگائے جا سکتے ہیں کسی نا کسی حد تک صحیح مشورے دیے جا سکتے ہیں لیکن پیسے لے کے گیان بانٹنا سمجھ سے باہر ہے۔ ہمارا معاشرہ ہمارے مسائل یہاں ذات برادری کی درجہ بندیاں، سب زبانوں کے اپنے الگ کلچر، اپنی تہذیب اپنی ثقافت، پھر کمائیوں کا فرق کوئی کم آمدنی والا گروپ کوئی زیادہ آمدنی والا، ان میں بھی کوئی بڑی جوائنٹ فیملی، کوئی مضبوط خاندانی سسٹم۔ جو ان سب میں کبھی رہا نہیں وہ پیسے لے کے کورس کروائے گا؟

کورس کرنے والے بھی کچھ ہوش کے ناخن لیں پاکستان میں پیسہ کمانا آسان نہیں آپ کس لیے اپنی محنت کی کمائیوں کو دوسروں کی جیبوں میں ڈال رہے ہیں گھریلو امور میں اپنے گھر کی بڑی بوڑھیوں سے مشاورت کریں ہاں ان سے باہر کے ملکوں میں سیٹل ہونے کے کورسز ضرور کریں یہ وہاں کے مطابق گائیڈ کریں پیڈ کورسز کروائیں یا جو بھی اس میں ان کے تجربات ہیں۔ پھر کوئی پوچھتا نہیں کہ بھائیو اور بہنو آپ جب پاکستان آتے ہیں تو قریبی رشتے داروں کو بھی یہ باور کراتے ہیں کہ بھئی ہم آپ سے الگ ہیں سپیریئر ہیں ہمیں آپ کی سمجھ نہیں آتی اور پھر ہم انہیں سے اپنے گھروں میں رہنے بسنے کے کورس کرنے چل پڑیں تو کیسا ہے۔

میرے بچے ٹین ایج میں نہیں میں نے آج تک ٹین ایج بچوں کی تربیت پہ پوسٹ نہیں لگائی جب اس تجربے سے گزروں گی تب بات کروں گی جو جوائنٹ فیملی میں کبھی نہیں رہا اس نے کسی رشتے کو روزانہ دن رات پورا سال کبھی نہیں برتا چاہے وہ میکہ ہو یا سسرال وہ پھر بھی ٹھیک ہے کبھی ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کو اچھا گائیڈ کر دے یا آپ کو اچھی تسلی دے دے لیکن معاشرت پہ تفصیلی کورس نہیں کروا سکتا۔ یہی بات میں باہر بیٹھ کے یہاں کی سیاست پہ بڑھ چڑھ کے بولنے والوں کے لیے کہتی رہی کہ آپ کیا جانتے ہیں یہاں کے بارے میں آپ کا کیا تعلق ہے آپ ضرور سیاست میں حصہ لیں یہاں کے لوگوں کو گائیڈ مت کریں اب یہ اٹھیں اور پیسے لے کے کورس کروانے شروع کر دیں تو ہمارے لوگوں کو جو بیوقوف بنائے گا ہمیں تکلیف ہو گی۔

پھر ایک اور بات ہے اکثر لوگ کہتے ہیں ہمارا مقصد پیسہ کمانا نہیں پیسے چیریٹی کریں گے یقین کریں یہ جو معصوم لوگ فیس دے رہے ہیں پتہ نہیں کیسے کیسے ارینج کرتے ہیں اتنی رقم پھر کسی سکل پہ پیسہ لگائیں کوئی ہنر سیکھیں تو کل کو کمائی کا زریعہ بنے گا کام آئے گا معاشرتی قدریں پیسے دے کے سیکھی نہیں جاتیں اور سیکھنا بھی ہو تو ریلیونٹ بندے سے تو سیکھیں۔ یہ تو دیکھیں کہ بندہ ہم سے ریلیٹ بھی کرتا ہے یا نہیں کیونکہ جب تک کوئی انسانی رویے پہ وہاں کے معاشرے کے حساب سے تجربہ نہیں رکھتا وہ خالی لفاظی کرئے گا اب الفاظ کتنے شاندار ہیں یہ اسکا کمال ہے حقیقت نہیں۔ باہر کے ملک کام کرنے والے ڈاکٹر کبھی یہاں کے مریضوں کو نسخے لکھ کے نہیں دیتے یہاں دوائیاں اور ، بیماری الگ، لوگوں کی نفسیات الگ، طریقہ علاج الگ۔

میں نے کسی رشتے دار جو باہر کے ملک رہتی ہیں ان سے مشورہ کیا کہ مجھے گاڑی چلانے کے متعلق گائیڈ کریں کہاں سے شروع کروں انہوں نے کہا کہ اپنے گھر کی گلی سے شروع کریں چھوٹی چھوٹی روڈز پہ چلانا شروع کریں پھر بڑی شاہراہوں پہ جائیں میں نے سوچا ہمارے یہاں بڑی سڑکوں پہ ٹریفک سموتھ ہے گاڑی چلانا آسان ہے اور چھوٹی سڑکوں پہ بے حد مشکل ہے بائیک، پیدل چلنے والے ، گھروں نے اندھا دھن بھاگ کے باہر نکلنے والے بچے، روڈ پہ پارکنگ کرنے والے، پھر سڑکوں کے بیچوں بیچ کھلے گٹر، وغیرہ وغیرہ تو فوری احساس ہوا مشورہ غلط بندے سے لیا ہے بیشک اس نے اپنے حساب سے ٹھیک کہا ہے۔

یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے میں اپنی ہائیر کی آٹومیٹک واشنگ مشین کی کارکردگی کے لیے اپنی بہن جو انگلینڈ میں رہتی ہے اس سے مشورہ کروں کہ بھئی ہائیر تو انٹرنیشنل کمپنی ہے سب کو ہی پتہ ہوگا اور یہ نا سمجھوں کہ مشین ہی نہیں دیکھنی۔ ڈٹرجنٹ، پانی، اور کپڑا تو پاکستانی ہے مجھے اسے اپنے حالات کے مطابق ڈیل کرنا ہے۔ بس کہنا یہ ہے جس کے پاس علم ہے وہ اپنا علم ضرور بانٹے کوئی بات کسی کو بھی کلک کر سکتی ہے پیسے لے کورس کروانا تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے رجب علی، ڈکی بھائی اور سسٹرالوجی سے علم حاصل کرنا۔