ہوم << رٹا سسٹم سےبنے افسر باشعور نہیں- راؤ محمد اعظم

رٹا سسٹم سےبنے افسر باشعور نہیں- راؤ محمد اعظم

گزشتہ روز اسسٹنٹ کمشنر بدین کے ہاتھوں کتابوں کے اسٹال کا زبردستی بند کرایا جانا اور کتابوں کو ادھر ادھر پھینک دینا ایک ایسا افسوسناک واقعہ ہے جو ہمارے تعلیمی اور انتظامی نظام کی خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف غیر اخلاقی تھا بلکہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ محض رٹا لگا کر امتحان پاس کر لینا کسی شخص کو باعلم اور باشعور نہیں بناتا۔

رٹا سسٹم اور اس کے نقصانات:
پاکستان میں مقابلے کے امتحانات کا ایک بڑا مسئلہ رٹا سسٹم ہے، جس میں طالبعلم محض یاد کرنے پر زور دیتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ علم و ادب کو سمجھیں اور اس سے سیکھیں۔ اس طرح کے امتحانات میں اکثر وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو زبانی یادداشت میں مہارت رکھتے ہیں، مگر عملی زندگی میں حقیقی دانشورانہ بصیرت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایسے لوگ اعلیٰ عہدوں پر پہنچتے ہیں تو وہ علم و ادب کی اہمیت کو نہ تو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی قدر کر سکتے ہیں۔

کتابوں اور ادب سے دوری کے نتائج:
ایک مہذب معاشرے میں کتابوں کی عزت کی جاتی ہے، کیونکہ کتابیں نہ صرف علم کا ذریعہ ہوتی ہیں بلکہ قوموں کے تہذیبی ورثے کی نمائندہ بھی ہوتی ہیں۔ جب کوئی سرکاری افسر کتابوں کو بے حرمتی سے زمین پر پھینک دیتا ہے تو یہ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ علم اور ادب سے محبت نہیں رکھتا۔ ایک ایسا شخص جو خود کتابوں کی قدر نہ کرے، وہ عوام کی تعلیمی اور ثقافتی ترقی میں کیسے مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟

حقیقی علم کی ضرورت:
اصل علم وہ ہے جو انسان کے اندر برداشت، محبت، رواداری اور عقل و شعور پیدا کرے۔ کسی بھی امتحان میں کامیابی حاصل کرنا اچھی بات ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ادب، فلسفہ، تاریخ اور سائنس کے مطالعے کے بغیر کوئی بھی شخص متوازن سوچ نہیں اپنا سکتا۔ بدقسمتی سے، ہمارے معاشرے میں ایسے افراد اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہو جاتے ہیں جو طاقت کے نشے میں اپنے بنیادی فرائض بھی بھول جاتے ہیں۔

کیا حل ہے؟
یہ وقت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں اصلاحات کریں اور رٹا سسٹم کے بجائے فہم و فراست، تجزیاتی سوچ، اور علمی بحث و مباحثے کو فروغ دیں۔ مقابلے کے امتحانات میں ایسے سوالات شامل کیے جانے چاہئیں جو امیدوار کی ذہنی صلاحیت اور فکری وسعت کو جانچ سکیں، نہ کہ محض رٹے بازی کو۔ ساتھ ہی، سرکاری افسران کی تربیت میں ادب، اخلاقیات اور انسانی اقدار کی تعلیم کو لازمی قرار دینا چاہیے تاکہ وہ عوام کے ساتھ عزت و وقار سے پیش آئیں اور کتابوں جیسی قیمتی اشیاء کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہ کریں۔

نتیجہ
کتابوں کے ساتھ بدین میں ہونے والا سلوک صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ یہ ایک سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر ہم واقعی ایک باشعور اور ترقی یافتہ معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیم، علم اور ادب کو حقیقی معنوں میں اپنانا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، ہم ہمیشہ ایسے ہی افسوسناک واقعات دیکھتے رہیں گے۔