ہمیں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے ان سے بات چیت کرنی پڑتی ہے. اگر ہم لفظوں کا سہارا نہ لیں تو اپنا مؤقف کسی دوسرے تک نہیں پہنچا پائیں گے. ہمارا اندازِ گفتگو اور لفظوں کا چناؤ ہی ہماری شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے. بات تو سب کر لیتے ہیں لیکن اس کو بہتر اور موثرانداز میں کرنا اہم ہے کیونکہ ہمارے الفاظ ہی ہیں جو ہمیں دل میں اتار دیتے ہیں اور دل سے بھی اتار دیتے ہیں.
آپ کتنے تعلیم یافتہ ہیں یا آپ کے پاس کون کون سی ڈگریاں موجود ہیں یہ چہرے پر نہیں لکھا ہوتا اور نہ ہی ڈگریاں ہماری پہچان بنتی ہیں بلکہ ہمارے اٹھنے بیٹھنے' بات چیت کرنے کا انداز' بولے گئے الفاظ' پہننے اوڑھنے کے سلیقے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم کتنے پڑھے لکھے ہیں اور ہماری تربیت کیسے کی گئی ہے یا تعلیم نے کتنا شعور اجاگر کیا ہے. خاص طور پر جب ہم غصہ میں ہوں یا کسی پریشانی سے گزر رہے ہوں، تب ہمارے بولے ہوئے الفاظ سب سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں. بولتے وقت خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے لفظوں سے کسی کا دل نہ ٹوٹے یا تکلیف نہ پہنچے، کیونکہ دل کا شیشہ بہت نازک ہوتا ہے، اس میں ایک دفعہ دراڑ آ جائے تو جتنی مرضی کوشش کر لیں، وہ دوبارہ اپنی اصلی حالت میں نہیں آتا اور ہم اپنے بہت پیارے رشتوں سے محروم ہو جاتے ہیں.
گفتگو کرنا ، دوسروں کی بات توجہ سے سننا، ایک ایسا فن ہے جس کی بدولت لوگوں کے دلوں میں راج کیا جاتا ہے. اکثر لوگ بات تو اچھی کرتے ہیں، ان کا علم بھی کافی ہوتا ہے، لیکن اندازِ گفتگو اور لہجہ مناسب نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ تاثر قائم نہیں کر پاتے، اور جب تک ہم اپنی بات پُرتاثیر انداز میں کہہ نہیں پاتے، تب تک ہم کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ بات چیت کا انداز اور لفظوں کا چناؤ، اتار چڑھاؤ اور ایک تناسب سے بولنا، رکھ رکھاؤ، شائستہ گوئی ہی ہماری شخصیت کے آئینہ دار ہیں اور کامیابی کی ضامن بھی.
موجودہ دور میں لوگ پڑھا لکھا اس کو سمجھتے ہیں جو انگریزی بولتے ہیں. اسی وجہ سے کئی لوگ دوسروں پر رعب ڈالنے کے لیے عام گفت و شنید میں بھی بہت زیادہ انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، لیکن کئی بار اس کا برا اثر پڑتا ہے اور سامعین اکثر بات کو سمجھ ہی نہیں پاتے. گفتگو ایسی ہونی چاہیے جو عام فہم اور عزت و احترام سے بھرپور ہو، جس سے آپ کی اپنی عزت و تکریم میں بھی اضافہ ہو .
کمیونیکیشن یعنی گفتگو، بات چیت کئی مسائل کا حل بھی ہے. بہت سارے معاملات چاہے وہ گھریلو ہوں یا کاروباری و دفتری نوعیت کے ہوں، اس لیے بھی خراب ہو جاتے ہیں کہ اول تو بات چیت کا فقدان ہوتا ہے، اور اگر بات ہوتی ہے تو ہم ایک دوسرے کی بات کو سننے اور سمجھنے کے لیے نہیں سنتے، بلکہ اپنی ناقص عقل کی وجہ سے فوراً رائے قائم کر لیتے اور بھڑک اٹھتے ہیں. اسی میں لفظوں کا استعمال مناسب نہیں کرتے ، سونے پر سہاگہ ہمارا انداز بھی ایسا ہوتا ہےکہ لگتا ہے جیسے لڑائی ہو گئی ہو . ایسی گفتگو سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے اور بگڑ جاتا ہے. پھر ہم موقع کی مناسبت سے بھی بات نہیں کرتے. دوسروں کا مذاق بنانا، بے جا نصیحت کرنا'، تضحیک کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں. دوسروں کے عیب نکالنا ہمارا مرغوب مشغلہ ہے، لیکن اپنے عیب اور برائیاں ہمیں نظر نہیں آتیں. زندگی میں کئی مواقع ایسے آتے ہیں جہاں ہمیں پُرسکون رہتے ہوئے اپنے لفظوں کی شوگر کوٹنگ کرنی پڑتی ہے، جس سے بات کی کڑواہٹ کم ہو جاتی ہے، اس طرح کی حکمتِ عملی سے بہت سارے معاملات بگڑنے سے بچ جاتے ہیں.
عمومی طور پر لوگوں کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ وہ اونچا بول کر، دوسروں کی بے عزتی کر کے بڑا معرکہ مارتے ہیں، اور فخریہ اپنا کارنامہ بتاتے ہیں ـ حتٰی کہ بڑے بزرگ اور سمجھدار لوگ بھی طنزیہ بات کرتے ہیں، ان کا لب و لہجہ اس قدر نشتر چبھونے والا ہوتا ہے جو اندر تک چھلنی کر دیتا ہے، پھر اس کے باوجود وہ خود کو معتبر سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی عزت و احترام میں کمی واقع نہ ہو . ہمارا بات کرنے کا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ دوسروں کو بات آسانی سے سمجھ آ جائے. آواز نہ زیادہ اونچی ہو اور نہ ہی بہت دھیمی ہو کہ بات سمجھ ہی نہ آئے ، اور مناسب الفاظ استعمال کرنے چاہیے، جس سے گفتگو کی چاشنی برقرار رہے اور رشتوں کا تقدس بھی .
ہمیں کامیاب ہونے کے لیے گفتگو کے انداز و آداب کو سیکھنا اور سمجھنا ہوگا تبھی ہم اپنی بات دوسروں تک موثرانداز میں پہنچا سکیں گے، کیونکہ پریزنٹیشن بہت اہمیت رکھتی ہے. اگر ہم گھر میں آئے مہمانوں کو گندے برتنوں میں کھانا دیں تو ہمارا سلیقہ اور عقلمندی دھری کی دھری رہ جائے گی، اس کے برعکس اگر صاف ستھرے برتنوں میں کھانا پیش کیا جائے، اور چمچے، کانٹوں، نیپکن اور صفائی کا خاص خیال رکھا جائے، مزید یہ کہ سلاد وغیرہ کو خوبصورت انداز میں پیش کیا جائے، تو ہمارے سلیقے کی دھوم مچ جائے گی. ہر چیز کی خوبصورتی اسی وقت سامنے آتی ہے جب اسے بہترین انداز میں پیش کیا جائے. اب چاہے وہ ہمارے بولے گئے الفاظ ہی کیوں نہ ہوں.
اس کے علاوہ ایسی کوئی بات نہ کی جائے جس کا کوئی سر اور پیر ہی نہ ہو . ہوائی یا فضول باتوں کی وجہ سے ہم اپنی بات کا وزن اور اہمیت ہی کھو دیں گے. اس مقصد کے لیے اپنی معلومات میں اضافہ کریں، کتب بینی کو فروغ دیں اور زیادہ بولنے سے گریز کریں. مولانائے روم کی کہاوت کو یاد رکھتے ہوئے بولنے سے پہلے بات کو تین مراحل سے گزاریں. سب سے پہلے سوچیں کہ جو بات میں کہنے جا رہا ہوں کیا وہ سچ ہے ؟ اگر جواب ہاں میں ہو تو اسے اگلے دروازے میں داخل کریں. دوسرا دروازہ یہ ہے کہ سوچیں کہ جو بات میں کہنے جا رہا ہوں کیا وہ کہنا ضروری ہے یا نہیں ؟ اگر جواب ہاں میں آئے تو پھر اپنی بات کو اگلے اور تیسرے دروازے میں داخل کریں. تیسرا دروازہ یہ ہے کہ دیکھیں آپ کی کہی بات سے کسی کی دل آزاری تو نہیں ہو گی ؟ لہجہ اور الفاظ مہربان ہیں یا نہیں ؟ اگر نہیں تو خاموشی اختیار کر لیں، پھر چاہے آپ کا بولنا کتنا ہی اہم اور ضروری ہی کیوں نہ ہو .
ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہم کس سے، کیسے اور کہاں بات کر رہے ہیں ـ بچوں سے بات کرنے کا انداز مشفقانہ ہونا چاہیے ـ اسی طرح بڑوں سے بات کرتے ہوئے ادب و احترام ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے، حتٰی کہ اگر ماتحتوں اور ملازمین سے بات کریں، تب بھی اپنا لب و لہجہ اور الفاظ مناسب، مہذب اور انداز شائستہ رکھیں. ڈانٹ ڈپٹ کرنا، غصہ کرنا اور بدتمیزی و بد تہذیبی کا مظاہرہ کرنا کسی بھی صورت میں ہرگز زیب نہیں دیتا .
ہماری تعلیم ہمیں شعور دیتی ہے کہ ہم نے کیا بات کرنی ہے. تربیت بتاتی ہے کہ کیسے بات کرنی ہے. طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے کتنا بولنا ہے اور عقلمندی و دانشمندی ظاہر کرتی ہے کہ ہم نے بولنا بھی ہے یا نہیں. کئی معاملات میں خاموشی سب سے بہترین عمل ہے. ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب الفاظ ادا ہو جاتے ہیں تو پھر بس ان کا ردِعمل ہی سامنے آتا ہے، ہم کہے لفظوں کو واپس نہیں لے سکتے لہٰذا سوچ سمجھ کر، ناپ تول کر اور ان کو سجا سنوار کر بولیں تاکہ ان کی اہمیت کو چار چاند لگ جائیں اور لوگ آپ سے خود بات کرنے کی خواہش رکھیں. دوسروں کی بات پر بنا سوچے، سمجھے رائے دینے یا تبصرہ کرنے سے گریز کریں. خود کو ہر فن مولا سمجھنا یا ہر شعبے کا ماہر تصور کرنا بھی ایک ناپسندیدہ عمل ہے جس سے آپ کو تکلیف یا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے، لہٰذا غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے.
تبصرہ لکھیے