ہوم << سائبر کرائم بل ،ایک درست قدم - مولانامحمد جہان یعقوب

سائبر کرائم بل ،ایک درست قدم - مولانامحمد جہان یعقوب

محمد جہان یعقب سوشل میڈیا دورحاضر میں ایک ایسا ذریعہ ابلاغ ہے جس پر ہر شخص کو اختیار حاصل ہے۔اس کا استعمال بلاامتیاز ہر پاکستانی کرسکتا ہے، جس کا عملی اظہار سوشل میڈیا میں ہونے والی ایکٹیوٹیز سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا نے اسی طرح الیکٹرانک میڈیا، بالخصوص چینلز کی اہمیت گھٹا دی ہے، جس طرح ماضی قریب میں الیکٹرانک میڈیا نے پرنٹ میڈیا کی اہمیت کم کردی تھی۔ پرنٹ میڈیاکی اہمیت کم ہونے کے باوجود وہ زندہ ہے، بلکہ اس میں نئی نئی جہتیں متعارف ہور ہی ہیں، اسی طرح سوشل میڈیا کے باوجود چینلز کا وجود برقرار رہے گا۔ یہ بات بہرحال تسلیم کی جانی چاہیے کہ چینلز میں مافیائی راج کے بعد سنجیدہ طبقے نے سوشل میڈیا ہی کو اپنے لیے ذریعہ ابلاغ کے طور پر منتخب کیا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو۔ یوں سوشل میڈیا ایک تیز ترین ذریعہ اظہار کی شکل اختیار کرگیا۔ ارزاں اور ہرشخص کی پہنچ میں ہونے کی وجہ سے اس کو شر پھیلانے کا ذریعہ بھی شریر ذہن لوگوں نے بنایا۔ معاشرے کے بعض مسترد شدہ طبقات نے بھی اپنی پبلسٹی کے لیے استعمال کیا، جس سے قندیل بلوچ جیسے سانحے رونماہوئے۔ اسے تخریبی ذہن کے حامل لوگوں نے بھی خوب استعمال کیا۔ یہ تمام باتیں تسلیم شدہ حقائق ہیں، جن کا انکار چڑھتے سورج کے انکار کے مترادف ہے۔
سیاست ہو یا مذہب، معاشرت ہو یا سماجی زندگی، سب میں قوت برداشت اور تحمل سے مخالف کی بات سننے کا فقدان ہمارا من حیث القوم بہت بڑا المیہ ہے، جس کے مظاہر مختلف ٹاک شوز میں بھی دیکھے جاتے رہے ہیں، اراکین پارلیمنٹ بھی اس اجتماعی اخلاقیات کا عملی مظاہرہ کرتے رہتے ہیں، اب تو ایوان کو مچھلی بازار بنانے کی اصطلاح سے بڑھ کر اراکین پارلیمنٹ کے مجموعی رویوں کی ترجمانی کسی اور لفظ سے کی بھی نہیں جاسکتی۔ یہی المیہ منبر و محراب کا بھی ہے، وہاں بھی مخالفین پر الفاظ کے بم برسائے جاتے ہیں، جوکسی سے مخفی نہیں۔ اسی رویے کا پرتو ہماری معاشرتی و سماجی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ ایک اجتماعی اخلاقیات کی تصویرکشی ہے، جب اس کے حامل لوگ سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں تو وہ شتر بےمہار بن جاتے ہیں۔ انھیں کسی قسم کا ڈر اور خوف نہیں ہوتا۔ اکثر تخریبی و جذباتی ذہن کے لوگ اپنی پہچان بھی مخفی رکھتے ہیں۔سوشل میڈیا میں اس قسم کے مظاہر تلاش کرنے کے لیے کسی محنت کی ضرورت نہیں، ہر طرف ایسے مظاہر بکھرے پڑے ہیں۔ ان کا اظہار پوسٹوں کی شکل میں بھی ہوتا ہے، کارٹونز اور لطیفوں کی شکل میں بھی، مخالف کے خلاف لفظوں کے تیر و نشتر بھی بڑی فیاضی سے برسائے جاتے ہیں اور اپنی سوچ دوسروں پر مسلط کرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہمیشہ محسوس کی گئی کہ اس طوفان بدتمیزی کو روکنے کی کوئی سبیل تلاش کی جائے، کوئی مداوا اس اخلاقی تعفن کی تطہیر کا بھی ہونا چاہیے، کوئی روک اس رجحان پر بھی لگائی جانی چاہیے۔
اس صورت حال میں یہ خبر تازہ ہوا کے ایک جھونکے کی حیثیت سے سنی گئی کہ حکومت سائبر کرائم بل لے کر آئی ہے، جس کی قائمہ کیٹی کے ساتھ ساتھ سینیٹ سے بھی منظوری لے لی گئی ہے، سینیٹ میں سائبر کرائم بل 2015ء وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن نے پیش کیا، جس پر اپوزیشن کو کافی اعتراضات تھے، تاہم بحث وتمحیص کے بعد ان اعتراضات کو دور کرلیا گیا اور اپوزیشن کی طرف سے پیش کی گئی 50 ترامیم کو بھی بل کا حصہ بنا لیاگیا۔اب یہ بل قومی اسمبلی سے منظوری اور صد ر کے دستخطوں کے بعد نافذالعمل ہوجائے گا، جس میں بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ آئیے! بل اور اس میں کی جانے والی ترامیم کاجائزہ لیتے ہیں:
اس بل میں سب سے خوش آئند امر یہ ہے کہ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ عدالت کی اجازت کے بغیر سائبرکرائم کی تحقیقات نہیں ہوسکیں گی۔ اس شق پر عملدرآمد از حد ضروری ہے، ورنہ اس بات کا یقینی خطرہ ہے کہ پولیس اس کا ناجائز فائدہ اٹھائے گی، جیسا کہ پولیس کی ریت رہی ہے، پولیس اہلکار ہر نئے قانون کو داداگیری کے لیے استعمال کرتے ہیں، کراچی کے شہریوں کو ڈبل سواری پر پابندی کے دنوں میں اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ پولیس کی اس سوچ کا تمام تر نزلہ ان لوگوں پر گرتا ہے جو کسی مضبوط لابی، کسی بڑی شخصیت کی پشت پناہی، کسی جماعت کی رکنیت، کسی مافیا سے وابستگی اور کسی مادی و مالی سہارے سے محروم ہوتے ہیں۔ ان بے چاروں پر ہی ہمیشہ برق گرتی ہے۔ قوی امکان تھا کہ سائبر کرائم بل کو بھی ان مقاصد کےلیے ہتھیار بنالیا جائے گا، مذکورہ شق سے اس خطرے کے سدباب کی سبیل نکلتی معلوم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مزید واضح اور غیر مبہم اقدامات ضروری ہیں۔ سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کی مشاورت سے عدالت قائم کرنے کی شق میں اب اپوزیشن نے یہ ترمیم کرادی ہے کہ سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے قائم کی جانے والی ان خصوصی عدالتوں کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے کے خلاف 30 دن میں ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنے کی اجازت ہو گی۔ یہ ترمیم بھی خوش آئند ہے، اس سے بےگناہوں کوملوث کیے جانے کے امکانات بھی کم سے کم ہوجائیں گے اور عدلیہ کو بھی مزید موقع ملے گا، جس سے انصاف کا حصول ہر شخص کے لیے آسان ہوجائے گا۔ ایک اہم ترمیم یہ بھی کی گئی کہ سیکیورٹی ایجنسیز کی مداخلت کی روک تھام کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیکورٹی ایجنسیز کا اس ملک کے امن واستحکام میں کلیدی کردار ہے، تاہم ان کی جانب سے ناانصافیوں کے واقعات بھی اب کوئی سربستہ راز نہیں رہے، جس کے مختلف عوامل ہوسکتے ہیں۔ اس تناظر میں ان کی مداخلت کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جانے ضروری تھے، جس کی امید پیدا ہو چلی ہے۔ اللہ کرے یہ بیل منڈھے چڑھ جائے۔
یہ بات زبان زد عام ہے کہ اس ملک میں جن مسائل کو حکمرانوں نے ارادتاً لاینحل بنائے رکھا، فرقہ واریت کا سدباب بھی ان میں سے ایک ہے۔ یہاں امن عامہ کے لیے جو بھی قانون بنتا ہے، جو بھی آرڈیننس آتا ہے، جو بھی لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے یا جو بھی اجلاس ہوتا ہے، اس میں یہ بات زور و شور سے کی جاتی ہے کہ ملک سے فرقہ واریت کاخاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہر اقدام اور قانون کی تان اسی پر آ کر ٹوٹتی ہے، لیکن فرقہ واریت ہے کہ آکاس بیل کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، اس عفریت میں اضافہ ہی دیکھنے میں آتاہے، یہ ناسور پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ فرقہ واریت کے سدباب کےلیے بروئےکار لایا جانے والا ہر قدم اس کوتازہ پانی دیتاہے۔ ہم حقائق کی کھوج لگائیں تو نظر آتا ہے کہ ملک میں 1978ء تک فرقہ واریت کانام و نشان تک نہیں تھا۔ یہاں شیعہ بھی بستے تھے اور سنی بھی، لیکن وہ باہم دست وگریبان ہوتے کبھی نہ دیکھے گئے۔ 1979ء میں پڑوسی ملک میں آنے والے انقلاب اور اس کے نتیجے میں وطن عزیز میں ہونے والی کارروائیوں نے یہاں فرقہ واریت کو ہوا دی، یہ بحث جو، اب تک منبر ومحراب تک محدود تھی عوام میں آگئی، پھر تکفیر ی فتاویٰ کا دور آیا، جانبین کے افراد قتل کیے جانے لگے، یوں دلائل کی بحث نے تصادم کی شکل اختیارکرلی، اس آگ کوب ھڑکانے میں تحریری لٹریچر کا بھی کلیدی کردار رہا، اس کے ذریعے تعفن پھیلایاگیا، پھر عمل اور ردعمل کا سلسلہ جو شروع ہوا ہے تو اب تک جاری ہے۔ اس کا سبب اگر اس سوچ کی حامل جماعتیں ہوتیں تو پرویزمشرف کی جانب سے ان جماعتوں پر پابندی لگنے کے بعد یہ سلسلہ تھم جاناچاہیے تھا، لیکن ایسانہیں ہوا۔ حالیہ بل میں یہ شق بھی موجود ہے کہ نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر 7سال سزا ہوگی۔ یہ سزا بھی کم ہے۔ اس میں مزید اضافہ کیا جانا چاہیے۔ لیکن اگر ہماری سیاسی و ملٹری قیادت فرقہ واریت کے خاتمے میں مخلص ہے تو اسے اسباب پر بھی غور کرنا چاہیے۔ جب تک غیر جانبدارانہ و منصفانہ اقدامات بروئے کار نہیں لائے جاتے، ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں اس بل میں موجود اس شق کی وجہ سے بھی کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ جس معاشرے میں بےرحم و غیر جانبدارانہ انصاف نہ ہو، جہاں سب کو ایک آنکھ سے دیکھنے کی روایت موجود نہ ہو، جہاں فیصلے دباؤ کے تحت کیے جانے کی روش عام ہو، جہاں کتوں کو آزاد رکھنے اور پتھروں کے باندھنے کو مسئلے کا حل سمجھاجاتا ہو، وہاں مسائل بڑھتے ہیں ختم نہیں ہوتے۔کاش! جنرل راحیل شریف قیام امن کے لیے ایک قدم اور بڑھاتے اور فریقین کو بٹھا کر معاملے کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے۔ بنابریں، یہ شق مناسب ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں، وطن عزیز میں بیٹھ کر دوسرے ممالک کی دلالی و نمک حلالی میں وطن عزیز کی اساس کو زک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا ناطقہ بند کرنے کے لیے اس شق پر مکمل دیانت داری کے ساتھ عمل کرایا جانا چاہیے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر 7 سال قیدکی سزا بجا، لیکن دہشت گردی کی تعریف اور دہشت گردوں کی پہچان کرائی جانی چاہیے، کہ رہبر کے روپ میں رہزنوں کی بھی کمی نہیں۔ دھوکہ دہی پر 3 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ، بچوں کی غیراخلاقی تصاویر شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ، انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ، موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ، موبائل فون سموں کی غیر قانونی فروخت پر 5 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ، بالکل بجا ہے اور یہ شق بھی انتہائی اہم ہے کہ سائبر کرائم قانون کا اطلاق پاکستان سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر خلاف ورزی کے مرتکب افراد پر بھی ہوگا، عالمی سطح پر معلومات کے تبادلے کے لیے عدالت سے اجازت لی جائی گی اور دوسرے ممالک سے تعاون بھی طلب کیا جاسکے گا۔
مذکورہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بےجا اختیارات دینے کے مترادف قرار دینے والوں کی نیت تو اللہ جانے، لیکن انسانی حقوق کا مطلب اسے مادر پدر آزادی فراہم کرنا بھی نہیں، آئین ہمیں کس قسم کی آزادی دیتاہے، یہ شق پڑھ لیجیے:’’اسلام کی عظمت، یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت، سلامتی یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن عامہ، تہذیب یا اخلاق کے مفاد کے پیشِ نظر یا توہینِ عدالت، کسی جرم (کے ارتکاب) یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو تقریر اور اظہارِ خیال کی آزادی کا حق ہوگا، اور پریس کی آزادی ہوگی‘‘۔ اس بل میں اگر مذہب، ملک، عدالت، افواج اور حکومت پر تنقید کو جرم قرار دے دیاگیا ہے، تواسے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ سوشل میڈیا سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے والا کوئی دانش مند شخص اس شق کی مخالفت نہیں کرسکتا۔
اسی طرح آئی ٹی انڈسٹری کے نمائندوں کا یہ کہنا کہ مذکورہ بل ان کی تجارت کے لیے نقصان کا باعث بنےگا، محل نظر ہے۔ اس بل میں جرائم پر قدغن لگائی گئی ہے، درست طریقے سے کی جانے والی کوئی تجارتی سرگرمی اس کے دائرے میں ویسے بھی نہیں آتی، پھر واویلا چہ معنیٰ دارد! باین ہمہ، اس بل کی کوئی شق آئین پاکستان میں دی جانے والی تقریر کی آزادی، اظہار کی آزادی، میڈیا کی آزادی، بلاوجہ تلاش اور گرفتاری سے تحفظ، اور کاروبار کی آزادی چھیننے کا موجب بن سکتی ہے تو اس کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔
اس بل میں مزید بہتری کی گنجائش اب بھی موجود ہے، خاص طور پر اس میں پائے جانے والے ابہام کودور کرنا ہوگا، ورنہ اس سے من مانے معانی و مطالب کشید کرکے مخالفین کو ہراساں کیا جا سکتا ہے، مثلاً: اس بل کی ایک شق یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز بات پھیلانے پر ایک کروڑ روپے جرمانہ اور پانچ سال کی قید کی سزا ہوسکتی ہے، تاہم نفرت انگیز بات کی وضاحت نہیں گئی، اگر سوشل میڈیا پر کسی بھی بات کو کسی مخالف نے نفرت انگیز قرار دے کر مقدمہ دائر کر دیا تو ٹرائل بھگتنا ہوگا۔ اسی طرح ایک شق یہ ہے کہ منفی مقاصد کے لیے اگر کسی ویب سائٹ کو بنایا جائے تو ایسے شخص کو 50لاکھ روپے جرمانہ اور تین سال کی قید ہوسکتی ہے، یہاں بھی ابہام ہے اور منفی مقاصد کی وضاحت نہیں کی گئی، اس ابہام کی وجہ سے کسی بھی ویب سائٹ کو منفی مقاصد کی قرار دے کر مقدمہ دائر کرنے کی راہ کھلتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک بات اور بھی ضروری ہے وہ یہ کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو آگہی فراہم کی جائے، جس سے وہ اچھے برے، صحیح غلط ، جہاد وفساد اور تعمیر وتخریب کا فرق اچھی طرح جان سکیں، ورنہ جس طرح ملکی آبادی کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کو صرف تفریح اور وقت گزاری کا ذریعہ سمجھ کر استعمال کرتی ہے، اس کے لیے مسائل پیدا ہونے کا خطرہ ہے، بل کے نفاذ سے پہلے اس حوالے سے آگہی کا انتظام کیا جانا چاہیے، ملک میں خواندگی کی شرح کو دیکھ کر اس کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔
سائبر کرائم قانون کا اطلاق پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پر نہیں ہوگا۔ لیکن انھیں بھی بے مہار نہیں چھوڑناچاہیے، ان کے لیے بھی طے شدہ ضابطہ اخلاق کی پابندی لازمی کی جانی چاہیے۔
(مولانامحمد جہان یعقوب جامعہ بنوریہ عالمیہ، سائٹ، کراچی میں ریسرچ اسکالر اور ڈین فیکلٹی آف قرآن )

Comments

Avatar photo

مولانا محمد جہان یعقوب

Click here to post a comment