ہوم << یوم یکجہتی کشمیر سے بےاعتنائی کیوں؟ نامیہ سباس عباسی

یوم یکجہتی کشمیر سے بےاعتنائی کیوں؟ نامیہ سباس عباسی

پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر سے منسوب کیا جاتا ہے اصل سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقت میں اس دن کو منانے سے کشمیریوں کے دن بدلتے ہیں یا ایک روایتی رسم کے طور پر ہی اس دن کو منایا جاتا ہے۔ اب سوشل میڈیا کے دور میں سٹیٹس یا فیس بک پر یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے اور سڑکوں پر بینرز نصب کر دیے جاتے ہیں کہیں ہاتھوں کی کڑیاں بنائی جاتی ہیں اور کہیں ترانے گونجتے ہیں یہ دن فقط انہی رسومات تک محدود ہو کر رہ گیا ہے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کوئی سنجیدہ رویہ کسی بھی جگہ پر نہیں ملتا کشمیر کو ارضی جنت کہتے ہیں اور کشمیر کو شہ رگ کہنے والوں سے لے کر کشمیر کو چلانے والے سب مل کر اس جنت کو اجاڑنے میں لگے ہیں کہیں کشمیر کے چند حصوں کو تحائف کی شکل میں دے کر دوسرے ممالک کو پیش کیا جاتا ہے اور کہیں اس دن کو چھٹی دے کر آرام کیا جاتا ہے۔ درحقیقت ہماری نوجوان نسل اس معاملے میں دلچسپی نہیں لیتی اور اے آئی کے اس دور میں موبائل فون میں سٹیٹس سوشل میڈیا پر اظہار یکجہتی کو فروغ دیا جا رہا ہے ہر کوئی اپنی ذمہ داری سے عہد برا ہو رہا ہے حق کی تلاش میں ہم اپنے فرائض پیچھے چھوڑ چکے ہیں عملی اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔ زبانی کلامی ہمدردی کے بجائے عالمی سطح پر بھی اس مسئلے کا حل نکالا جانا چاہیے ۔ایک عام رویہ جو دیکھنے کو ملتا ہے وہ ہماری دانشگاؤں میں ایسی نسل تیار کی جا رہی ہے جو گلے پھاڑ کر تقریریں کرنے تک کی محدود ہو کے رہ گئی ہے

دل جوش میں لافریاد نہ کر
تاثیر دکھا تقریر نہ کر

ضرورت تو اس امر کی یقین احساس دلایا جائے کہ ارضی جنت میں موجود تمام چیزوں کا استعمال احتیاط اور کفار شعاری سے کیا جانا چاہیے۔یوم کشمیر ایک یاد نہیں ہے یہ جدوجہد کی داستان ہے جو ہماری روحوں کو بھی جھنجوڑ کر رکھتی ہے کشمیر میں جو ظلم و ستم کیے جاتے ہیں اور عوام کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے تو ہمارا رویہ یہی ہے کہ تقریریں کرتے ہیں اور سٹیج پر ہی اپنے الفاظ سے لوگوں کو سحر میں مبتلا کرتے ہیں اور عملی اقدام نہیں کیے جاتے ہیں ۔ کہنے کو کشمیر کو شہ رگ کہا گیا ہے لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو شہ رگ اگر متاثر ہو جائے تو جسم کے باقی حصے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے شہ رگ تو آئے روز ظلم کے پہاڑوں تلے ہے لیکن جسم پر اثر نہیں ہو رہا ۔یہ الفاظ جو قائد اعظم رحمتہ اللہ پاکستان کے حوالے سے کہہ گئے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے کاش یہ الفاظ سچ ہوتے ہے۔

آتی ہے صدا سوختہ لاشوں سے مسلسل
انسان کو آواز دو انسان کہاں ہے

کشمیر کے لہو کے چھینٹوں سے اقوام متحدہ بھی باخبر ہے افسوس اس بات کا ہے کہ ان بوندوں کی قیمت چکانے والا کوئی نہیں ہے۔دوسری جانب انڈیا دفعہ A 35 کی زد میں لا کر کشمیریوں کو بے گھر کر رہا ہے اور ہندوؤں کو آباد کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے منوں مٹی تلے دفن کر دیا جائے اس سر کے باوجود اواز بلند کرنے والا کوئی نہیں

آسمان جلتی زمین پہ نہیں آنے والا
اب کوئی اور پیغمبر نہیں آنے والا

ہم حق بھی انہی سے مانگتے ہیں جو ہمارے اصل دشمن ہیں اور آزادی کی امید بھی ہم انہی سے لگاتے ہیں

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

عالمی برادری اگر کشمیر میں ہونے والی ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھاتی تو آج لاکھوں کشمیری جان کا نذرانہ نہ پیش کرتے انسانی حقوق کی تنظیمیں جانوروں کے حقوق کے گیت آلاپتی ہیں لیکن جن کشمیری انسانوں پر ظلم و ستم ہو رہے ہیں وہ نظر نہیں آتے کشمیر کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا یہ بات تو روز روشن کی مانند عیاں ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر عالم برادری کا کردار بھی مجرمانہ ہے
المختصر ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے اسلاف کی گم گشتہ بہادری کو ذہنوں میں تر و تازہ رکھتے ہوئے ایک مضبوط حکمت عملی بنائی جائے جس میں جذبہ جہاد کو اجاگر کیا جائے اور کشمیریوں کو آزاد کروایا جائے جب ہمارے جذبے سچے ہوں گے تو کشمیر کی آزادی بھی مسلمہ حقیقت بن جائے گی۔

ہم راہ وفا کے رہرو ہیں
منزل پہ جا کے دم لیں گے