ہوم << شخصی ٹکراؤ اور عدم تحفظ ؛ باہمی تعلقات پر اثرات اور ان کا حل - ڈاکٹرعبیداللہ

شخصی ٹکراؤ اور عدم تحفظ ؛ باہمی تعلقات پر اثرات اور ان کا حل - ڈاکٹرعبیداللہ

انسانی تعلقات میں ہم آہنگی اور افہام و تفہیم کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن بعض اوقات مزاج، سوچ اور رویوں میں اختلافات تعلقات میں دراڑیں ڈال دیتے ہیں۔ یہی اختلافات آگے چل کر شخصی ٹکراؤ (Personality Clash) کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، جہاں دو افراد ایک دوسرے کی بات ماننے یا ایک دوسرے کو قبول کرنے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ عدم تحفظ (Insecurity) بھی ایک ایسا رویہ ہے جو تعلقات میں پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنے عہدے، حیثیت، عزت یا قابلیت کے حوالے سے خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے، تو وہ دوسروں کے خلاف نادانستہ طور پر ایسے رویے اختیار کر لیتا ہے جو تعلقات میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔

ہر فرد کی شخصیت، خیالات، اور تجربات مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ افراد منطقی انداز میں سوچتے ہیں، کچھ جذباتی فیصلے کرتے ہیں، اور کچھ حقیقت پسند ہوتے ہیں۔ جب یہ مختلف طریقہ ہائے کار ایک دوسرے سے متصادم ہو جائیں تو تنازعات جنم لیتے ہیں۔ اکثر اوقات لوگ اپنے خیالات اور نظریات کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں اور دوسروں کی رائے کو کم تر تصور کرتے ہیں، جس کی وجہ سے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔

احساس برتری بھی شخصی ٹکراؤ کی ایک بڑی وجہ ہے، جہاں ایک فرد چاہتا ہے کہ اس کی ہر بات کو تسلیم کیا جائے۔ وہ اپنی حیثیت، قابلیت یا تجربے کی بنیاد پر دوسروں سے زیادہ اہمیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ جب ایسا ممکن نہیں ہو پاتا تو وہ اختلافات کو مزید گہرا کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے تعلقات خراب ہونے لگتے ہیں۔

عدم تحفظ ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو بظاہر محسوس نہیں ہوتی، لیکن اس کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔ ایک شخص جو عدم تحفظ کا شکار ہوتا ہے، وہ ہمیشہ یہ سوچتا ہے کہ کہیں اس کا مقام، حیثیت، شہرت یا اختیار کسی دوسرے شخص کی وجہ سے متاثر نہ ہو جائے۔ اس خوف کی وجہ سے وہ دوسرے کو دبانے، اس کی صلاحیتوں کو کم تر دکھانے، یا اس کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر سکتا ہے۔

یہ رویہ اکثر دفاتر، تنظیموں، اور اداروں میں دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں بعض افراد اپنے ساتھیوں کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر بےچینی محسوس کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر دوسرا شخص زیادہ کامیاب ہو گیا تو وہ خود پسِ منظر میں چلے جائیں گے۔ اسی لیے وہ دوسروں کی صلاحیتوں کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کرتے اور انہیں نیچا دکھانے کے لیے مختلف طریقے اپناتے ہیں۔

یہ دونوں عناصر تعلقات کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی ترقی میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔ اگر ایک ادارے میں ٹیم کے افراد ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا اپنی حیثیت محفوظ رکھنے میں لگے رہیں تو اس کا نتیجہ کارکردگی میں کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اسی طرح، اگر خاندان میں افراد ایک دوسرے سے حسد کرنے لگیں تو محبت کی جگہ اختلافات لے لیتے ہیں، جس سے تعلقات میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

سماجی سطح پر بھی یہ مسئلہ سنگین ہو سکتا ہے۔ اگر ایک معاشرہ حسد، غیر ضروری مقابلے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی نفسیات میں الجھ جائے تو اجتماعی ترقی متاثر ہوتی ہے۔

اس پیچیدہ مسئلے کا کوئی ایک حل نہیں، بلکہ اس کے لیے اجتماعی حکمت عملی درکار ہے۔

کسی بھی معاشرے یا ادارے میں ترقی کے لیے ضروری ہے کہ افراد کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔ پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کرنے کے بجائے اہلیت کو معیار بنایا جائے تاکہ قابلیت رکھنے والے افراد اپنی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کر سکیں۔
پسند و ناپسند کے بجائے اہلیت کی بنیاد پر فیصلے
اگر ادارے، تنظیمیں اور سربراہان پسند و ناپسند کے بجائے اہلیت کی بنیاد پر فیصلے کریں، تو نہ صرف انصاف کا نظام مضبوط ہوگا بلکہ افراد میں عدم تحفظ بھی کم ہوگا۔ جب کسی کو یقین ہو کہ ترقی اور مواقع محض قابلیت کی بنیاد پر ملتے ہیں، تو وہ حسد اور غیر ضروری مقابلے میں مبتلا نہیں ہوگا۔

ایک اچھے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرے اور اپنے ماتحت افراد کی صلاحیتوں کو تسلیم کرے۔ اگر کسی ٹیم کا رہنما دوسروں کی ترقی کو خطرہ سمجھنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرے، تو پورے ادارے کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ اعلیٰ ظرفی کا مطلب ہے کہ اپنے اردگرد موجود باصلاحیت افراد کی ترقی پر خوشی محسوس کی جائے اور انہیں مزید مواقع فراہم کیے جائیں۔
افراد کے مابین عدل کے ساتھ بروقت فیصلے
انصاف اور شفافیت ہی وہ اصول ہیں جو عدم تحفظ کو ختم کر سکتے ہیں۔ اگر اداروں میں افراد کے مابین عدل و انصاف کے ساتھ بروقت فیصلے کیے جائیں، تو لوگ حسد اور ٹکراؤ کی بجائے اپنی محنت پر توجہ دیں گے۔ کسی بھی مسئلے کو طول دینے کے بجائے جلد از جلد حل کرنا ضروری ہے تاکہ تنازعات کی شدت نہ بڑھے۔

ہر ادارے اور معاشرے میں مسائل کو سمجھنے اور ان کے فوری حل کے لیے کوشش کرنا ضروری ہے۔ جب کسی بھی تنازع کو سنجیدگی سے لیا جائے اور اس کا بروقت حل نکالا جائے، تو معاملات سنگین ہونے سے بچ سکتے ہیں۔

شخصی ٹکراؤ اور عدم تحفظ وہ عناصر ہیں جو انسانی تعلقات میں دوریاں پیدا کرتے ہیں اور اجتماعی ترقی کو روکتے ہیں۔ اگر ہم ان مسائل کو سمجھ کر ان کا حل تلاش کریں، تو ہم زیادہ مثبت، ہم آہنگ اور ترقی پذیر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ تعلقات میں احترام، رواداری، اور اعتماد کی فضا قائم کر کے ہم شخصی اختلافات کو کم کر سکتے ہیں اور ایک بہتر، خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔

اگر افراد کا مؤثر استعمال کیا جائے، فیصلے پسند و ناپسند کی بجائے اہلیت کی بنیاد پر ہوں، سربراہان اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کریں، اور ادارے عدل و انصاف کے ساتھ بروقت فیصلے کریں، تو ہم شخصی ٹکراؤ اور عدم تحفظ جیسے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں اور ایک ترقی یافتہ، خوشحال اور متوازن معاشرہ قائم کر سکتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment