نوشہرہ شہر میں زندہ دفن کی گئی نومولود بچی کو ریسکیو کر کے بچالیا گیا ہے۔ جسے پاکستان فوج کے ایک میجر نے گود لے لیا ہے۔ جہاں خبر کا یہ پہلو خوش آئند ہے وہیں جنھوں نے یہ گناہ عظیم کیا ہے۔ ان کے فعل قبیح پر افسوس ہے۔ ان کے عمل نے دور جاہلیت کی یاد تازہ کردی۔ وہ جاہلیت جسے ختم کرنے کے لئے رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جہاں میں تشریف لائیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ دور جاہلیت میں زندہ دفن کی گئی لڑکی کے واقعہ کو سنتے سنتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روتے جاتے اور آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوتی جاتی۔ حدیث کے مطابق اس لڑکی کے والد کا یہ کہنا تھا کہ جب گڑھا کھود رہا تھا تو بچی میرے لباس اور چہرہ پر لگی مٹی جھاڑتی جاتی اور جب اس کو گڑھے میں ڈال کر مٹی برابر کی تو روتے ہوئے بار بار کہتی کہ اب تنگ نہیں کروں گی ابا۔
زمانے جاہلیت میں بیٹیوں کو اس لئے زندہ زمین میں دفن کردیا جاتا تھا کہ زمانہ کیا کہے گا۔ قرآن کے مطابق "ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے ۔"
آج صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے بس فرق یہ ہے کہ پیدائش سے قبل ہی بچے کی جنس معلوم کی جاتی ہے۔ پھر انتظار بالکل نہیں کیا جاتا اور جگہ جگہ ڈھکے چھپے انداز میں ابارشن کرنے والی دائیوں سے قصہ ختم کروالیا جاتا ہے۔ اگر کبھی ڈاکٹر کی غلط بیانی یا پھر غلط اندازے کی بنا پر لڑکی پیدا ہو بھی جائے تو پھر اس کو مار کر کچرے کے ڈھیرے پر ڈال دیا جاتا ہے، یعنی اب ہم دور جاہلیت سے بھی دو قدم آگے نکل گئے ہیں وہ دفن کرنے کی زحمت کرتے تھے مگر ہم اتنی بھی توفیق نہیں کرتے۔
کراچی میں موجود ایدھی فاؤنڈیشن کے مین گیٹ پے لگا بینر میری بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اب کوئی نوزائیدہ بچوں کو ان کے چھولے میں نہیں ڈالتا اس لئے انہوں نے چھولے ختم کردئیے ہیں۔ اب نوزائیدہ بچوں کی نوچی ہوئی لاشیں (آوارہ جانوروں کی وجہ) اور کبھی کبھی لاشیں بھی نہیں ملتی.
ہم اس ملک خداداد کا قیام اس عہد کے ساتھ لائے تھے کہ نہ صرف اجتماعی زندگیوں میں بلکہ اپنی انفرادی معاملات میں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کریں گے مگر بد قسمتی سے تعلیمات تو دور ہم گناہوں سے ہی کنارہ کش نہیں ہوئے۔ آئین پاکستان کے تحت زندگی ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ یہ حق ہر اس وجود کو حاصل ہو جاتا ہے جب قدرت اس کے اس دنیا میں آنے کی پلاننگ کرلیتی ہے۔ اس لئے اسقاط حمل ایک قابل سزا جرم ہے۔ اولاد کا قتل کسی طور جائز نہیں ہے۔ مگر ملک میں نوزائیدہ بچوں خاص طور پر لڑکیوں کی کچرے کے ڈھیر پر ملتی لاشیں اس ثابت کررہی ہیں کہ ہم نے اس جرم کو بے ضرر سمجھ لیا ہے۔ سال 2022 میں ایک شخص نے اپنی بیٹی کو پیدا ہونے کے جرم میں سات گولیاں ماری تھی۔ اس نوزائیدہ بچی کی تصویر کئی روز تک سوشل میڈیا کی زینت بنی یہ سوال کرتی رہی کہ "اے لوگو! کیا ہوگا تمہارا جب روز قیامت مجھے سے سوال ہوگا کہ تم کس جرم میں ماری گئی؟
تبصرہ لکھیے