ہنسی مذاق کی چیزوں سے لطف اندوز ہونا ایک فطری عمل ہے۔ انسان زندگی کی یک رنگی سے اکتا کر تفنن میں پناہ ڈھونڈتا ہے لیکن مزاح اور طرب حد اعتدال میں ہی بھلے لگتے ہیں۔ مزاح میں اگر پھکڑ پن آجائے تو مزاح ، مزاح نہیں رہتا۔ تفریح کا سامان فراہم کرتے وقت ایک سرخ لکیر کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے۔ اسے کسی بھی صورت عبور نہیں کرنا چاہیے۔
گزشتہ برسوں میں جہاں ہر شعبہ رو بہ زوال ہے، مزاح کو بھی استثنا نہیں ہے۔ مزاح میں بھی ناشائستگی در آئی ہے۔ مزاح کی موجودہ شکلیں ایک سے بڑھ کر ایک کریہہ ہیں۔ گالی ، جو کبھی ایک معیوب شے سمجھی جاتی تھی، تیزی سے شرف قبولیت پا رہی ہے۔ گالی کو مزاح بنا کر پیش کرنے میں سٹیج ڈراموں کا بڑا ہاتھ ہے۔ سٹیج کے فن کاروں نے لوگوں کے ہنسانے کے لیے دشنام کو ہتھیار بنایا تو سٹیج اور ٹیلی وژن۔ دونوں کے ناظرین نے اس طرزِ مزاح پر کوئی سوال نہ اٹھایا بل کہ اسے قبولیت سے نوازا۔ نتیجتاً یہ گالیاں اور فحش جگتیں کوچہ و بازار میں عام ہوئیں اور بڑی تیزی سے روزمرہ گفت گو کا حصہ بن گئیں۔ ہنسی مذاق میں ماں بہن تک پہنچنا اب معمول کی بات بن گئی ہے۔ ٹیلی وژن پروگراموں میں کچھ میزبان، مہمان اور کامیڈین داد سمیٹنے کے لیے ناشائستہ گفت گو پر اتر آتے ہیں۔ اس ناشائستگی میں گالی سے لے کر اشاروں کنایوں میں فحش گفت گو، کوئی ذو معنی بات اور بے ہودہ اشارے بھی شامل ہیں۔ درحقیقت، تفریح کے نام پر نازیبا گفت گو کرنا کامیڈی نہیں بل کہ بہت بڑی ٹریجڈی ہے۔ اس ٹریجڈی کی شدت اس وقت زیادہ محسوس ہوتی ہے کہ جب ایک حساس انسان سوچتا ہے کہ اتنی بڑی ٹریجڈی کو کوئی ٹریجڈی سمجھ ہی نہیں رہا بل کہ اسے محض تفریح سمجھا جا رہا ہے۔
اسی طرح کسی ذات ، لسانی گروہ اور نسل کو مذاق کا نشانہ بنانا بھی کامیڈی نہیں بل کہ ٹریجڈی ہے۔ ایک ویڈیو میں ایک سوشل میڈیا سٹار ایک سیاہ فام شخص سے پوچھ رہا ہے
" چائے پیتے ہو؟"
جواب میں وہ سیاہ فام شخص کہتا ہے کہ
" میں چائے نہیں پیتا کیوں کہ چائے پینے سے رنگ سیاہ ہوجاتا ہے۔" ( یہ جملہ غالباً ویڈیو بنانے والے شخص نے ہی اسے سکھایا ہوگا) اس مذاق کے پس منظر میں ایک نسلی گروہ کے لیے حقارت کے جذبات پوشیدہ ہیں۔لائکس اور کامنٹس کے لیے کسی کی رنگت کا مذاق اڑانا ایک گھٹیا حرکت ہے۔ اس قسم کی ویڈیو نظر سے گزرتی رہتی ہیں لیکن مجھے ان میں تفریح کے بجائے نسل پرستی اور احساس برتری کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ نسل پرستی، کسی کو تضحیک کا نشانہ بنانا اور کسی کی رنگت کا مذاق اڑانا کامیڈی نہیں ٹریجڈی ہے۔
کسی کی ذہنی معذوری کو دیکھ کر زوال نعمت سے پناہ مانگنے کے بجائے اس کا مذاق اڑانا کامیڈی نہیں بلکہ ٹریجڈی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک منظر اکثر دکھائی دیتا ہے کہ ایک مرفوع القلم شخص سے کچھ گنگنانے کو کہا جاتا ہے۔ گنگنانا تو کجا وہ شخص الفاظ کو درست طریق سے ادا کرنے سے بھی قاصر ہے۔ نتیجتاً وہ بے معنی سی گفت گو کرتا ہے تو اس ویڈیو کے ویوز لاکھوں میں چلے جاتے ہیں۔ ایک تکلیف دہ منظر میں لوگ کامیڈی تلاش کررہے ہیں، کسی کی ذہنی معذوری کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ یہ کتنی بڑی ٹریجڈی ہے۔ وطن عزیز کے اکثر گلی محلوں میں یہ تکلیف دہ منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک مرفوع القلم شخص پر ہجوم " سائیں" اور " پاگل پاگل" کی آوازیں کس رہا ہے۔ بلا تخصیص جنس ،ہر ذہنی معذور شخص کو اس صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے۔ بسا اوقات یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ان میں سے پاگل کون ہے؟ آوازیں کسنے والا ہجوم یا ان آوازوں کا نشانہ بننے والا شخص۔ اک طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاگل پاگل کی آوازیں کسنے والے یہ لوگ اپنے سے طاقت ور لوگوں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں۔
خواتین کے جسمانی خدوخال کے ذکر کو تفریح کا ذریعہ بنانا کامیڈی نہیں ٹریجڈی ہے، ہنسنے ہنسانے کے لیے اس حد تک گر جانا کہ انسان تمام اخلاقی ضابطوں کو پامال کردے , کامیڈی نہیں ٹریجڈی ہے۔ وطن عزیز کی سیاست میں خواتین کی کردار کشی ہمیشہ سے ایک ہتھیار کے طور پر موجود رہی ہے۔ سوشل میڈیا نے اظہار رائے کے ساتھ ساتھ ، اظہارِ اخلاقی زوال کے مواقع بھی فراہم کیے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے حامی مصنوعی ذہانت کی مد سے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کی خواتین کی ایسی ایسی تصویریں بناتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔
تفریح کے نام پر ازدواجی زندگی پر لطیفے بنانا، بیوی کو استہزاء کا موضوع بنانا اور مقدس رشتوں کو بے توقیر کرنا قرین انصاف نہیں ہے۔ یہ کامیڈی نہیں ٹریجڈی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک امریکن خاتون پاکستان آئی۔ خاتون اپنی سیاہ رنگت کے سبب سوشل میڈیا ٹرولنگ کا ٹاپ ٹرینڈ رہی۔ اگر وہ خاتون سیاہ فام کے بجائے گوری رنگت کی ہوتی تو اس کے ساتھ سیلفی لینے کے لیے ایک جم غفیر امڈ آتا۔ چوں کہ وہ رنگت کی سیاہ ہے، اس لیے سماج کی نظر میں جگت، خندہ تحقیر اور تضحیک کی مستحق ہے۔ کسی آوٹ آف فارم کھلاڑی کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بھی ٹریجڈی کی ایک شکل ہے۔ جب تک اس کی کارکردگی اچھی ہے، سب اس کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوتے ہیں لیکن جب کوئی کھلاڑی توقعات پر پورا نہ اترسکے تو اس کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے ، سب اس کے خلاف سوشل میڈیا مہم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس ناکام کھلاڑی کی وہ ہتک ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ۔
تفریح کے نام پر مذکورہ بالا رویے تیزی سے فروغ پارہے ہیں۔ انہیں معاشرے میں قبولیت کی سند مل رہی ہے۔ ان سے معاشرتی تخریب ہورہی ہے، شائستگی کا گریباں چاک ہورہا ہے اور معقولیت منہ چھپائے رو رہی ہے، معصوم ذہن آلودہ ہورہے ہیں اور لائکس اور ویوز کے لیے تمام اخلاقی ضابطے پامال ہورہے ہیں۔ سنجیدہ حلقوں کو اس کامیڈی یعنی ٹریجڈی کے سیلاب کے آگے بند باندھنا چاہیے۔ سوشل میڈیا صارفین کو اچھا مواد دیکھنے کی تلقین کی جانی چاہیے۔ ناشائستہ مواد پیش کرنے والوں کے خلاف ان سبسکرائب، ان فالو اور بلاک کا آپشن استعمال ہونا چاہیے۔
تبصرہ لکھیے