فلیش بیک ۔۔
مئی ١٩٨٦ء
اک پل میں صدی کا مزہ ۔۔۔ ہم سے پوچھئے ۔۔۔
دس بج گئے ہیں آج کیا پکے گا اماں بی ۔۔ بڑی صاحبزادی پوچھ رہی ہیں ۔
فریج میں کل کی بچی دہی رکھی ہے آج کڑھی چڑھا لو ۔۔
لیں جی کڑھی کے لئے دہی , بیسن تو لازمی جز ہیں یہ دو اجزا موجود ہو جائیں تو پھر کڑھی کی ترغیب و ترکیب عمل میں آتی ہے ۔۔
گیارہ بجنے تک دن جلنے بلنے لگتا لیکن اے سی جیسی ٹھنڈی بلا کا تصور سب کے ہاں نہیں تھا اور بہت سے لوگوں نے تو ائرکنڈیشن دیکھا تک نہیں تھا ۔۔اجبنی ہونے کے سبب زیادہ تر لوگوں کی زبان پہ نام بھی نہیں چڑھتا تھا تو اسے گھر ٹھنڈا کرنے والی مشین ہی کہہ دیتے تھے ۔۔ خیر آج بھی بھولے بھالے اور سستے زمانے کی ایک گرم دوپہر تھی ۔۔۔ آج کل کے رہن سہن اور آسائشات کے تصور کے ساتھ تو اچھی خاصی غربت کا زمانہ تھا ۔۔ اماں بی کے ہاتھ میں جانے کونسا سا جادو تھا کہ مصالحہ جات کے انتہائی کنجوسی سے استعمال کے باوجود گنی چنی سبزی ترکاری بے حد مزے دار بنتیں ۔ اب بھلا کیوں ذائقہ نہیں بچا ۔۔ اس لئے کہ ہمارے زبانیں ذائقوں کی ورائٹی چکھ چکی ہیں ۔ ہماری زبان چٹخاروں پہ لگ چکی ہے ۔ ارد گرد سمیت تمام گھر کے رقبوں میں اتنی گنجائش نہیں تھی لیکن دلوں میں گنجائش تھی تبھی تو چھوٹے چھوٹے رقبہ کے گھروں کو ڈبل سٹوری کر کے افراد کی رہائش کی گنجائش نکال لی گئی تھی ۔۔
ڈیڑھ دو بجے تک کڑھی تیار ہو گئی پورا گھر کڑھی کے تڑکے کی خوشبو سے مہکنے لگا ۔۔ دستر خوان پہ تقریباً تمام افرادِ خانہ جمع تھے بھوک بے حال ہوکے چمک رہی تھی ۔۔ لیکن چھوٹے گھروں کے بھی بڑے آداب ہیں طبعیت میں اتاؤلا پن دستر خوان کے آداب کے خلاف سمجھا جائے گا اس وقت دستر خوان کھجور کی چٹائیوں پہ لگتا تھا ۔۔ تمام کنبہ چٹائی کے عرضی کناروں پہ دوزانو یا آلتی پالتی پہ بیٹھا ہے ۔ بیچ میں برتن نمک دانیاں اور سالن کے جوڑ کے حساب سے سلاد چٹنی اچار کا اہتمام ہے ۔۔ طول کے رخ پہ ہانڈی اور چاول کا پتیلا اور نمک اور خوب برف ڈال کے لسی کا ڈول رکھ لیا گیا تھا ۔۔ باآوازِ بلند بسم اللہ پڑھ کے روٹی کھول دی گئی ۔۔
اماں بی پسار کے دروازے پہ پڑا موٹی کاٹن کا پردہ گرا کے گیلا کر چکی تھیں ۔۔ نیم اندھیرے کمرے میں چھت والا تھکا ہوا پنکھا گرمی کی گھرر گھرر سے خود بخود قدرے ٹھنڈی ہوا دینے لگ گیا ۔۔ اماں بی نے سب سے پہلے حق و برکت کی نیت سے ابا کی پلیٹ تیار کی ۔۔ اگر جو کبھی ابا دستر خوان پہ موجود نہ ہوتے تو اماں بی تری والا ڈونگہ پہلے الگ کر لیتیں ۔۔
باہر مین روڈ پہ پیروں کے نیچے تپتی سڑک اور جلتے سورج کے نیچے شدید گرمی میں بھی ٹریفک بلا تعطل جاری تھی کمرشل ایریا یے سڑک پہ سائیکل , موٹر سائیکل , تانگے ریڑھے اور گڈے بھی مسلسل رواں ہیں ۔۔ کبھی کبھی بیچ سڑک میں کوئی گھوڑا یا گدھا تھک کے یا گرمی سے نڈھال ہو کے اڑی کر جاتا تو ٹریفک جیم ہونے لگتا جانور کا اڑیل پن نکالتے محنت کشوں کا پسینہ بہہ جاتا ۔۔ ایسے سمے میں اگر چھت سے کوئی یہ سماں دیکھ لیتا تو اس گیلے پردے والے گرم کمرے کی خنکی جنت جیسی لگتی ۔۔
ڈھائی سے تین بجے تک ظہرانے کا دستر خوان بڑھا لیا گیا تھا کھانے کے دوران حالاتِ حاضرہ پہ سرسری گپ شپ اور مہنگائی کی شرح میں اضافے کی گفتگو بھی اس سادہ سے دسترخوان کی عیاشی پہ زیرِ بحث رہی تھی جن کو یہ عیاشی میسر نہیں تھی ان کا تذکرہ کیا گیا تازہ اور گھر کے کھانے کی اہمیت پہ بھی گفتگو کی گئی ۔۔۔ اماں بی بظاہر کھانا کھا رہی ہیں لیکن انکی کڑی نظر کا دھیان بچوں پہ بھی ہے کوئی چپڑ چپڑ کی آواز نہ نکالے بے ڈھنگے پن سے نہ کھائے اور کوئی بچہ نظر بچا کے چند نوالے چنگیر میں نہ چھوڑ دے ۔۔ گو سورج سوا نیزے سے اتر چکا تھا لیکن گھر بھر کو تندرو کی طرح تپا دیا تھا نہ برآمدے میں چین نہ کمروں میں سکھ ۔۔
صبح سے معمول کے کئی چھوٹے بڑے کاموں میں مصروف اماں بی نے تمام جوٹھے برتن اکٹھے کروا کے برتن ٹب سے ڈھانپ دئیے تھے تاکہ مکھیاں نہ بھنبھنائیں اور سب کو قیلولہ کی تاکید کی ۔ اگڑ پچھڑ بنے دونوں کمروں میں سب گھڑی بھر آرام کر لیں باہر تو سورج آگ اگل رہا ہے گرمی سانپ کی طرح پھنکار رہی ہے ۔۔ لوازمات کے ساتھ پیٹ بھر ذائقہ دار کھانا اور ٹھنڈی لسّی خمار چڑھائے دے رہے ہیں سب ادھر ادھر لڑھک کے غافل ہو چکے تھے لیکن اماں بی کی تیز نظریں گھڑی کے گجر پہ جمی رہتیں بمشکل گھنٹا سوا گھنٹا کے بعد دونوں کمروں کے پنکھے بند کر دیتیں کہ اب پنکھوں کو بھی سانس لینے دو جل ہی نہ جائیں ۔۔
پنجاب کے دیہی اور شہری علاقوں میں گرمیوں میں شام کی چائے کا کوئی تصور نہیں تھا شام چار پانچ بجے کے درمیان گڑ یا شکر اور ستو ڈال کے بالٹی بھر شربت تیار ہوتا ۔۔۔ یا پنّا جو گرمی اور لو لگنے سے حفاظت دیتا سب جی بھر کے پیتے اور گرمی کے خلاف خوب جہاد کرتے کبھی جو لسّی کم پڑنے کا امکان نظر آتا تو اماں بی لسًی کے اسی ڈول میں دو تین گلاس پانی ڈال کے قلت کا اندیشہ ختم کر دیتیں کسی بہن بھائی نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ اسے لسّی پسند نہیں یا ستّو پسند نہیں سب کے لئے بنا ہے اور سب نے پینا ہے اماں بی دوپہر کے کھانے کے برتن اور شام کے شربت کے گلاس اکٹھے کروا کے دھونے کے لئے کسی ایک بیٹی کی ڈیوٹی لگا دیتیں اور اپنی نگرانی میں دھلوا کے برتنوں والی ٹوکری میں رکھوا لیتیں اوپر سفید جالی ڈال دیتیں بچا ہوا کھانا فریج میں رکھ دیا گیا تاکہ خراب نہ ہو جائے رات میں تازہ روٹی کے ساتھ یہی سالن اچار کے ساتھ کام آنے تھے دستر خوان بڑھا دیا گیا تھا ۔
گھر ۔۔۔ گھر لگتا تھا جس میں رہنے کے آداب ہوتے ہیں وقت کی پابندی کی جاتی تھی یہ نہیں کہ جس کا جب موڈ ہو جہاں چاہے آئے جائے ۔۔ بازار بھی ساڑھے آٹھ نو بجے کھل جاتے اور شام سات بجے سب بند ۔۔
اب اماں بی موٹر چلا کے تازہ پانی سے اپنے پودوں کو نہلا کے چھت کو ٹھنڈا کر چکی تھیں کانوں میں موتیے کی دوکلیاں سونے کی سادہ بالیوں کے بیچ میں مسکراتی ہوئی اٹھکیلیاں کر رہی تھیں اس وقت ابا میاں کے شاہی تخت پوش پہ اماں بی کسی سلطنت کی شہزادی کی طرح متمّکن ہوچکی تھیں یوں تو یہ تخت ابا میاں کے لیٹنے اور آرام کی جگہ تھی لیکن شام کے وقت بیٹیوں والی ماں کی تربیت گاہ تھی ۔۔ اغل بغل میں مختلف دستکاریوں کے تھیلے اور شاپر تھے کسی بہن کو نانی کی قمیض پہ گلکاری کو بٹھاتیں کسی کو کروشیہ سے شیفون کے دوپٹہ کے نفیس کنارے بنانے پہ لگاتیں ایک کو شٹل کی بیل شروع کروا رکھی ہے ۔۔ یہ ہر فن مولا اماں بی اس وقت ایک سخت گیر استانی بن جاتیں مجال ہے کڑھائی کے ٹانکے ,توپے برابر برابر نہ ہوں کشیدہ کاری کا پھول گلے پہ یوں مسکرا رہا تھا جیسے گملے کا تازہ گلاب ۔۔ گھنٹہ ڈیڑھ یہ کلاس لگی تھی موسم اور ضرورت کے حساب دستکاریوں کی ورائٹی بدل جاتی ۔۔ کبھی ناڑے پراندے بنے جاتے کبھی جرسیاں سویٹر ۔۔ برسات میں چنگیریں ۔۔۔ گھر کی بنی یہ اشیاء کچھ تو بچیوں کے جہیز کے لئے کام آئیں گی اور کچھ گھر میں سال بھر کام آتی رہتی تھیں ۔
سات بج کے دس منٹ پہ ارد گرد کی تمام مسجدوں کے لاؤڈ سپیکر مغرب کی اذان دے رہے تھے شام کا دھندلکا غالب آرہا تھا اس لئے اس سگھڑ سلائی سکول کو بند کر دیا گیا تھا اماں بی دائیں بائیں سب کو کھڑا کرکے نماز کی نیت کروا رہی تھیں ۔۔ ساڑھے سات بجنے تک سب ایک بار پھر نیچے کی منزل پہ تھے رات کا کھانا آٹھ بجے تک تیار تھا اس وقت سب ہلکا پھلکا ہی لیتے تھے ساتھ ساتھ ٹیلیویژن کے اکلوتے سیٹ اور پی ٹی وی کے اکلوتے چینل پہ کوئی قسط وار ڈرامہ چل رہا تھا ۔۔ نو بجنے سے چند منٹ پہلے کسی کلائمیکس پہ ڈرامے کو روک دیا گیا اور سپانسرڈ کمپنیوں کے اشتہار چلنے لگے ۔۔ ڈرامہ سب نے دیکھا تھا اور عین لبوں سے جام چھن جانے والی تشنگی سب کے چہروں پہ تھی ۔۔ اگلی قسط کی قیاس آرائیوں کے درمیان "خبرنامہ"کا مخصوص میوزک بجا تو سب بہن بھائی جو گرمی کی شدت ڈرامے کی محویت میں ہلکی کئے ہوئے تھے گھبرا کے اٹھ کھڑے ہوئے اور چھت کی کھلی فضا میں بھاگ لئے ۔۔۔ ابا پورا خبر نامہ سن کے بیرونی دروازے کو تالا ڈال کے اور ٹی وی اور بتیاں بجھا کے اوپر آئیں گے ۔۔۔
جب تک اوپرچھت پہ ہلکی شرارتوں اور چھیڑ چھاڑ کے بیچ قطار در قطار چارپائیاں اور ہلکے بستر بچھ رہے تھے ایک قطار بیٹوں کی اور ایک بیٹیوں کی بنتی ہے بیٹوں والی قطار ابا کے تخت سے شروع ہوکے درجہ بدرجہ ہوتی سب سے چھوٹے بھائی پہ ختم ہوتی ابا کے تخت پہ شنیل کے غلاف والا تکیہ لازمی رکھا جاتا تھا اور بیٹیوں والی قطار چھوٹی بیٹی سے شروع ہوکے اماں بی پہ ختم ہوتی ایک طرف اکلوتا پیڈسٹل دھر دیا گیا تھا اماں بی کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ پیڈسٹل اس طرح سے رکھا جائے کہ ابا کے تخت پہ بلا تواتر ہوا پہنچے ۔۔۔ اور درمیان میں سٹول پہ نیلے رنگ کا رہبر واٹر کولر رکھا ہے تاکہ کسی کو پیاس لگے تو ٹھنڈے پانی کے لیے نیچے نہ جانا پڑے ۔ پورے گھر کے پنکھے اور بتیاں بند ہیں ایک ملگجی روشنی ہے جو سڑک پہ استادہ سرکاری کھبوں سے آرہی ہے سڑک پہ ٹریفک رواں ہے ریڑھی بان سستے پھلوں کی پکار کر رہے ہیں سب سودا بیچ باچ کے ہی گھر جائیں گے ۔ باربی کیو کی خوشبو ہوا کے دوش پہ آوارہ ہوکے اور ادھر ادھر اشتہا پھینک کے اپنے گاہک ڈھونڈ رہی ہے ڈھابے اور توے پہ مغز اور قیمے کے کٹاکٹ ساز بج رہے ہیں الائچی پستہ والی دودھ کی بوتلیں اور لیمن سوڈے کی بوتلیں پٹاخ پٹاخ کھل رہی ہیں لیمن سوڈے کی بوتلوں اور کٹاکٹ کے درمیان میچ سا پڑا ہوا معلوم پڑتا ہے لیکن اس تمام شور شرابے اور خوشبوؤں پہ موتیے کے پھولوں کی تیز خوشبو حاوی ہے جو امی اور ابا کے سرہانے دھرے ہیں ۔۔ شروع میں ابا اور آخر میں اماں بی جیسے کسی قافلے کے دو نگران ہوں اور قافلے کی ہر بلا سے حصار بندی ہو گئی ہو ۔۔۔ اب کسی کی مجال نہیں کہ بستر چھوڑ کے کسی کونے کھدرے میں گھس کے بیٹھے ۔۔۔ اس بھولے زمانے کا آج کے زمانے سے بھلا کتنا فاصلہ ہے ۔۔ پل بھر جتنا ۔۔
تبصرہ لکھیے