اسلام آباد کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ پاکستان کا ٹورزم بیس کیمپ ہے۔ جتنے بھی معروف سیاحتی علاقے، خوبصورت وادیاں اور تاریخی مقامات ہیں ان میں سے زیادہ تر کا راستہ اسلام آباد سے ہو کر جاتا ہے۔ بلکہ اکثر مقامات اسلام آباد سے قریب ہی ہیں۔ اس لئے مجھ جیسے آوارہ مزاج شخص کیلئے تو اسلام آباد کچھ زیادہ ہی اہم ہے۔ لیکن اسلام آباد کی جو اصل اہمیت ہے تو وہی ہے کہ یہ پاکستان کا دارالحکومت ہے، امارتوں وزارتوں اور نوکر شاہی کا مرکز ہے۔ اسی لئے یہاں کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں آپ کے آگے پیچھے گھومنے پھرنے والے کسی کا کچھ پتا نہیں ہوتا کہ وہ کتنا بڑا افسر یا کتنا اہم اہلکار ہے اور کس سرکاری عہدے پر براجمان ہے۔
اس شہر پر اس ماحول کامنفی اثر یہ پڑا ہے کہ یہاں کے اکثر باشندے ایک خواہ مخواہ کی اکڑ اور ایک بناوٹی رعب داب کے ساتھ گھوم رہے ہوتے ہیں۔اگر کوئی شخص واقعی کوئی بڑا عہدے دار اور وزیر سفیر امیر ہے، اس کا تو رعب ہوگا ہی، لیکن جو شخص کچھ بھی نہیں ہے، ویسے ہی ٹٹ پونجیا ہے، وہ بھی اسلا م آباد میں یہی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کوئی توپ چیز ہے۔ یہاں اکثر لوگ مہنگے کپڑوں میں، کوٹ واسکٹ پہنے اور سنجیدہ چہرہ بنائے پھر رہے ہوتے ہیں۔ کسی سے زیادہ بے تکلف بھی نہیں ہوتے، سلام دعا سے کتراتے ہیں، دوست نہیں بنتے اور پڑوسیوں کے ساتھ بھی کوئی خاص تعلق نہیں رکھتے۔ جہاں کوئی اختلافی معاملہ پیش آئے تو ان کے منہ سے جو اولین جملہ برآمد ہوگا وہ عام طور پر یہی ہوگا کہ :
”تو مجھے جانتا نہیں“
تو بھائی اب ہم کس کس کو جانیں؟ … جو بھی گزر رہا ہے یہی کہہ رہا ہے کہ تو مجھے جانتا نہیں۔ تو یہ یہاں کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستان کے دیگر تمام شہروں میں پڑوسی ایک دوسرے سے گھلے ملے ہوتے ہیں، بلکہ تقریباً رشتے داروں کی طرح ہی ہوتے ہیں، ایک گھر کی طرح رہ رہے ہوتے ہیں اور یہ محبتیں اکثر رشتوں میں بھی بندھ جاتی ہیں۔ لیکن اسلام آباد میں آپ کو ایسا ماحول خال خال ہی ملے گا۔ وجہ یہی ہے کہ یہاں ہر شخص اپنی ہی پھوں پھاں میں ہے۔ حتیٰ کہ مسجد میں بھی اگر کوئی صف میں ٹیڑھا کھڑا ہے یا درمیان میں خواہ مخواہ خالی جگہ چھوڑ کر کھڑا ہے اور آپ نے اسے کہہ دیا کہ قریب ہو جائیں، تو وہ کچھ ناراض ناراض نظروں سے آپ کو گھورے گا اور آپ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے ظاہر کرے گا جیسے کہہ رہا ہو کہ تو ہوتا کون ہے مجھے یہ کہنے والا … مجھے تجھ سے زیادہ پتہ ہے … تو مجھے جانتا نہیں۔
یہاں ہمارے دوست ہیں ڈاکٹر شاہد رفیع۔ انہوں نے ایک بڑا عجیب واقعہ سنایا۔ وہ خود ہیں تو کراچی کے لیکن گزشتہ چار عشروں سے اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ کہتے ہیں :
”یہ اس وقت کا ذکر ہے جب میں سیکٹر جی ٹین میں رہتا تھا۔ ایک شادی کی تقریب کے سلسلے میں ہم مہینے بھر کیلئے کراچی گئے۔ جب کراچی سے اسلام آباد واپس آئے تو اگلے دن میں محلے کی مسجد میں عصر کی نماز کیلئے گیا۔ اس مسجد میں ایک ریٹائر بیوروکریٹ صاحب بھی نماز پڑھنے کیلئے آتے تھے۔ اتفاق یہ ہوا کہ نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلتے وقت جوتا پہنتے ہوئے اس بوڑھے ریٹائرافسر کے ساتھ اچانک آنکھیں چار ہو گئیں تو وہ غالباً زندگی میں پہلی بار خلافِ توقع مجھ سے مخاطب ہو ا اور بولا :
”آپ کافی دن سے مسجد میں نظر نہیں آرہے تھے؟“
میں چونکا اور بولا :
”جی بالکل … میں ایک شادی میں کراچی گیا ہوا تھا“
اس نے اپنا سر ہلایا اور جوتے پہن کر چلا گیا۔
اتفاقاً اگلے دن بھی اسی طرح مسجد میں نمازِ عصر پڑھ کر باہر نکلتے ہوئے وہ پھر مل گیا۔ آنکھیں ملیں تو میں نے کہا :
”السلام علیکم … کیسے ہیں جناب؟“
اس نے مجھے چونک کر دیکھا اور سلام کا جواب دینے کی بجائے بولا :
”وہ تو کل آپ مجھے کافی دن بعد نظر آئے اس لیے میں نے پوچھ لیا تھا“
یہ کہہ کر اس نے اپنا جوتا پہنا اور چلا گیا۔
شاہد رفیع یہ واقعہ سنا کر ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ اس بڈھے ریٹائرڈ آفیسر نے یہ کہہ کر مجھ پہ واضح کیا کہ چونکہ تم کافی دن نظر نہیں آئے تھے تو اس لئے میں نے پوچھ لیا تھا، زیادہ بے تکلف ہونے کی ضرورت نہیں ۔
تو بھیا یہ ہے اسلام آباد … لیکن ایسا بھی نہیں کہ یہاں سارے ہی اسی طرح کے نمونے ہیں۔ ایک مناسب تعداد نفیس الطبع اور محبت کرنے والے لوگوں کی بھی اس شہر میں رہتی ہے۔ یہاں ملک بھر سے لوگ آتے ہیں۔ ہر طرح اور ہر مزاج کے ہوتے ہیں۔ کئی ایسے بھی ہیں جو خوش اخلاق اور ملنسار و مہمان نواز تو ہوتے ہیں، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہاں اسلام آباد میں یہ رویہ چلتا نہیں۔ اس لئے یہاں وہ بھی اپنے مزاج کے خلاف خشک و لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب کبھی ان کی پرتیں کھلیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو بالکل آپ ہی کے جیسے ہیں۔ بس پھر آپ کی بڑی زبردست دوستیاں بن جاتی ہیں۔
٭٭٭
تبصرہ لکھیے