معاشرے کی بقا اور ترقی کے لیے عدل و انصاف بنیادی ستون ہیں، لیکن جب طاقت اور منصب عدل پر غالب آ جائیں، تو اصول محض کتابوں کی زینت بن کر رہ جاتے ہیں۔ اصولی اور عادلانہ فیصلے کرنے کا سوال ہمیشہ ایک معمہ رہا ہے۔ کون صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہے گا؟ اس کا جواب کبھی نہیں ملتا، کیونکہ طاقت اور منصب ہمیشہ اپنے آپ کو حق پر گردانتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ تلخ حقیقت ہے کہ جب تک اقتدار اور اختیار کسی کے پاس ہوتا ہے، وہ خود کو برتر سمجھتا ہے، اور جب یہ طاقت ختم ہو جاتی ہے، تو وہی افراد مظلومیت کا راگ الاپنے لگتے ہیں۔
اجتماعیتیں، چاہے وہ کسی بھی سطح پر ہوں—سیاسی، سماجی، تعلیمی، یا تنظیمی—اندرونی مسائل سے مبرا نہیں ہوتیں۔ اکثر اجتماعیتیں بظاہر اصولوں پر قائم نظر آتی ہیں، لیکن اندرونی طور پر گروہی مفادات، پسند و ناپسند، اور نااہل قیادت کی وجہ سے مسائل کا شکار رہتی ہیں۔ اجتماعیت کے اندر بعض مخصوص افراد یا گروہ اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے فیصلہ سازی پر قبضہ جما لیتے ہیں اور تنظیم کو ذاتی یا گروہی مفادات کے تابع کر دیتے ہیں۔
فیصلہ سازی کے عمل میں شفافیت کی کمی ایک اہم مسئلہ ہے۔ جب فیصلے بند کمروں میں چند افراد کے مفادات کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں اور دیگر افراد کو محض رسمی طور پر شامل کیا جاتا ہے، تو تنظیمی عدل و انصاف متاثر ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں اختلاف رائے کو دبایا جاتا ہے، اور جو افراد بہتری کی بات کرتے ہیں، انہیں یا تو بےاثر بنا دیا جاتا ہے یا پھر ان کے خلاف سازشیں کی جاتی ہیں۔ یہی رویہ تنظیموں اور اداروں کو کمزور کر دیتا ہے اور ان کے زوال کا باعث بنتا ہے۔
جب طاقت، منصب اور عہدے دلیل کا جواب نہیں دے سکتے اور تنقید کو برداشت نہیں کر سکتے، تو وہ تادیب اور طاقت کے استعمال پر اتر آتے ہیں۔ یہی طاقت کا روایتی طریقہ کار رہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اختلاف رائے کو دبانے کے لیے طاقت کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ دلیل کے بجائے طاقت کے ذریعے مسائل کو “حل” کرنے کی روش صرف ناانصافی کو فروغ دیتی ہے اور معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
نااہلیت کی ایک واردات یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اہلیت کو شکست دینے کے لیے الزامات، کردار کشی اور بدنام کرنے جیسے حربے استعمال کرتی ہے۔ جب کسی اہل اور باصلاحیت فرد کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا، تو اسے جھوٹے الزامات کے ذریعے کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسا صرف افراد کی سطح پر ہی نہیں بلکہ اداروں کی سطح پر بھی کیا جاتا ہے۔ جب اداروں کو فیصلے کرنے کے لیے متوجہ کیا جاتا ہے، تو وہ بھی ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں اور نتیجتاً نقصان ہمیشہ افراد کا ہی ہوتا ہے۔ دلیل یہی دی جاتی ہے کہ اداروں کی بقا کے لیے افراد کی قربانی جائز ہے، حالانکہ یہی ادارے چند مشترکہ مفادات رکھنے والے افراد ہی کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی ایک معمہ ہے کہ ہم عمومی اور متوسط درجے کے لوگوں کو تو سمو سکتے ہیں، لیکن غیرمعمولی افراد کے لیے ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ حالانکہ غیرمعمولی افراد ہی کسی بھی قوم اور معاشرے کی ترقی کا اصل محرک ہوتے ہیں۔ جب تک ہمارے اندر ان غیرمعمولی افراد کو جگہ دینے کی گنجائش پیدا نہیں ہوتی، اس وقت تک ہمارا معاشرہ “چلتی کا نام گاڑی” کی طرح حرکت تو کرتا رہے گا، لیکن حقیقی پیش رفت اور ترقی کی منازل طے کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ غیرمعمولی افراد اپنی صلاحیتوں، نظریات اور منفرد طرزِ فکر کی بدولت معاشرتی انقلاب برپا کر سکتے ہیں، لیکن اگر ان کی صلاحیتوں کو تسلیم نہ کیا جائے اور انہیں ایک تنگ دائرے میں محدود کر دیا جائے، تو وہ یا تو کسی اور جگہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر ان کے جوہر ضائع ہو جاتے ہیں۔
اجتماعیتوں کو اپنی تنظیمی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے تاکہ عدل، شفافیت، اور میرٹ کو یقینی بنایا جا سکے۔ ہر فیصلہ اجتماعی مشاورت اور تنظیمی قواعد کے مطابق ہونا چاہیے، اور مخصوص گروہوں کے مفادات کے بجائے تنظیمی بہتری کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ اختلاف رائے کو دبانے کے بجائے اسے سنا جائے اور اس پر غور کیا جائے۔ کھلی بحث و مباحثے کو فروغ دیا جائے تاکہ ہر فرد اپنی رائے دے سکے۔
قابل افراد کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جانا چاہیے، اور گروہی تعصب اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اداروں کو طاقتور افراد یا گروہوں کے زیراثر آنے سے بچایا جائے۔ اگر ادارے کسی مخصوص طبقے کی خدمت کے بجائے حقیقی عدل و انصاف کے اصولوں پر کاربند ہوں، تو اجتماعیت میں شفافیت اور ترقی ممکن ہو سکے گی۔
عدل کا قیام اسی وقت ممکن ہے جب اصولوں کو شخصیات پر فوقیت دی جائے، اختلاف رائے کو دبانے کے بجائے سنا جائے، اور طاقت و منصب کو انصاف کے تابع کیا جائے۔ اسی طرح، غیرمعمولی افراد کو سماجی ڈھانچے میں سمو کر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے، نہ کہ انہیں بےجا تنقید اور عدم برداشت کا شکار بنا کر ان کا راستہ روکا جائے۔
اجتماعیتوں کو اپنی اندرونی تنظیمی خامیوں کو دور کرنا ہوگا، ورنہ وہ اندرونی خلفشار کا شکار ہو کر بکھر جائیں گی۔ طاقت اور عہدے اگر دلیل کا جواب نہ دے سکیں اور اختلاف رائے کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کریں، تو یہ ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہ سکتے۔ جب تک فیصلے میرٹ پر نہیں کیے جائیں گے اور طاقتور افراد کو جوابدہ نہیں بنایا جائے گا، تب تک معاشرے میں حقیقی انصاف کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر ہر باشعور فرد اور اجتماعیت کو غور کرنا چاہیے تاکہ ایک منصفانہ، متوازن اور ترقی یافتہ نظام تشکیل دیا جا سکے۔
تبصرہ لکھیے