ہوم << طلاق، حلالہ اور ایمان کا معاملہ- ربیعہ فاطمہ بُخاری

طلاق، حلالہ اور ایمان کا معاملہ- ربیعہ فاطمہ بُخاری

اسلام دینِ فطرت ہے۔ یہ جہاں ایک گھر کو بجا طور پہ نظامِ ہستی کا مرکز گردانتا ہے اور اس گھر کے ماحول کو ہر ممکن طریقے سے خوشگوار بنانے کے لیے جا بجا مرد اور عورت، ہر دو اصناف کو قرآن و حدیث میں واضح احکامات دیتا ہے۔ وہیں خدانخواستہ کسی ناقابلِ برداشت یا abusive صورتحال سے نکلنے کے لیے طلاق کا رستہ، جو اگرچہ ربِّ کائنات کی طرف سے جائز قرار دیے گئے افعال میں سے ناپسندیدہ ترین فعل ہے، لیکن اس انتخاب کا حق فریقین کے پاس بہرحال موجود ہے۔

یہ عمل بظاہر جتنا آسان دِکھائی دیتا ہے، اپنے نتائج و عواقب کے اعتبار سے اِس کی نوعیّت ایک آگ کے بھڑکتے ہوئے الاؤ سے کم نہیں ہوتی۔ اس پچھتاوے کی آگ میں فریقین خود تو بھسم ہوتے ہی ہیں، ان دونوں سے بھی زیادہ جو فریق متاثر ہوتا ہے، وہ اس جوڑے کی اولاد ہوتی ہے۔ جن کےلیے ماں اور باپ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ایک اذیّت کے لامتناہی سلسلوں کی بنیاد بن جاتا ہے۔ اب ہوتا یہ ہے (میرے مشاہدے کے مطابق) کہ اکثر مرد حضرات غصّے اور جذبات میں آکے اپنا حق استعمال کر تو لیتے ہیں، لیکن بہت جلد انھیں احساس ہوتا ہے کہ ان سے کس قدر فاش غلطی سرزد ہو گئی ہے۔

جب بچّے نہ تو باپ کے بغیر رہ پاتے ہیں اور نہ ہی ماں کو چھوڑنےپہ آمادہ ہوتے ہیں۔ یہ اپنے پاس زبردستی روک بھی لیں بچوں کو تو یہ بچّے سنبھالیں گے؟ گھر یا ملازمت؟؟ اب یہاں سے ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جس پہ میں بہت عرصے سے لکھنا چاہ رہی تھی اور وہ ہے حلالہ۔۔!! حلالہ سے پہلے میں طلاق کے شرعی طریق کار پہ تھوڑا مزید لکھنا چاہوں گی۔ پھر حلالہ کو سمجھیں گے اور بعد ازاں آج "حلالہ سینٹرز" کے نام پہ دین فروشوں نے جو بے حمیتی کے اڈے کھول رکھّے ہیں، اُن پہ بات کروں گی، اِن شاءاللہ۔ سب سے پہلے طلاق پہ بات کرتے ہیں۔ شریعت کے مطابق طلاقیں تین ہوتی ہیں۔

اگر ایک وقت میں مرد ایک طلاق دے تو اِسے طلاقِ رجعی کہا جاتا ہے، اس عمل کے بعد عورت پہ تین ماہ (menstrual cycles) کی عدّت واجب ہو جاتی ہے۔ اِس عرصے کے دوران اگر وہ جوڑا ایک دوسرے سے بطور شوہر اور بیوی رُجوع کر لیتا ہے تو یہ رجوع بغیر نکاح کے ہو گا۔ شرعاً عدّت کے عرصے میں عورت کو شوہر کا گھر چھوڑ کے نہیں جانا چاہیے، کہ ایک چھت کے نیچے رہیں گے تو ہی رجوع کی صورت بھی بن پائے گی۔ ہمارے یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ اوّلاً تو مرد تین طلاق سے کم پہ راضی نہیں ہوتے اور اگر بالفرض کوئی ایک طلاق دے ہی دے تو عورت کو فوراً اُس کے ورثاء اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ رُجوع کیا خاک ہو گا؟؟

اگر دو طلاقیں ایک وقت میں دی جائیں تو یہ طلاق بھی رجعی ہی ہو گی لیکن اب کی بار، عدّت کے دوران تو بغیر نکاح کے رُجوع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر دورانِ عدّت رُجوع نہ کیا جائے تو رُجوع کرنے کے لیے نیا نکاح ہو گا اور نئے سِرے سے حق مہر مُقرر ہو گا۔ اس کی عدّت بھی تین ماہ ہی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر میّاں بیوی میں نہیں بن پاتی اوریہ رُجوع کرنے کے بجائے تیسری طلاق کی طرف جاتےہیں یا مرد غصّے اور جذبات میں ایک ہی نشست میں تین طلاقیں دے دیتا ہے، تو اب اِن کا آپس میں تعلق بالکل منقطع ہو جائے گا۔ اب یہ دونوں چاہیں بھی تو دوبارہ نکاح نہیں کر سکتے۔ اب اِن کے نکاح کی صرف ایک صورت بن سکتی ہے، وہ بھی اگر اللہ چاہے تو، وہ یہ کہ یہ خاتون اپنی عدّت مکمل کرے، اور اسلامی مُعاشرے کے فوری تقاضے کے مطابق کسی اور مرد سے دوسرا نکاح کرے اور یہ جوڑا بطور شوہر اور بیوی زندگی گُزارنے لگ جائے۔

اِس معمول کی زندگی میں اگر خدا نخواستہ اس خاتون کی پھر سے طلاق ہو جاتی ہے یا خدا نخواستہ وہ بیوہ ہو جاتی ہے۔ اب اس صورت میں شریعت اِن دونوں (پہلے جوڑے کو) کو اجازت دیتی ہے کہ اب اگر وہ دونوں چاہیں تو دوبارہ آپس میں نکاح کر کے بطور میاں بیوی نئے سرے سے اپنا گھر بسا سکتے ہیں۔ اور یہی "حلالہ" کی شرعی صورت ہے۔ جو ایک مکمل طور پہ قدرتی اور فطری طور پہ وقوع پذیر ہونے والا عمل ہے۔ جس کے جتنے واقع ہونے کے امکانات ہوتے ہیں، اس سے زیادہ واقع نہ ہونے کا امکان ہوتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ وہ عورت دوسرے شوہر کے پاس زیادہ خوش ہو، یا وہ دونوں بڑھاپے تک ایک دوسرے کے ساتھ خوش رہیں۔ یہ ایک مکمل طور پہ امکانی صورت ہے، جو شریعت کی رُو سے جائز ہے۔

حلالہ، اپنی اصلی اور شرعی صورت میں، عرب مُعاشرے میں شاید ایک آپشن ہو سکتا ہے کہ وہاں نکاح، طلاق، پہلی شادی، دوسری شادی وغیرہ وغیرہ ہمارے یہاں کی طرح عزّت اور غیرت کے ساتھ منسلک نہیں ہوتے۔ خاص طور پہ دورِ نبوی میں صحابیات کی عمر کے آخری حصّے تک، متعدّد شادیوں اور طلاقوں کے احوال پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ایک بار پڑھا تھا کہ کوئی عرب خاتون بیوہ ہو گئی، اُس کے جنازے پہ دوسری خاتون اظہارِ تعزیّت کر رہی تھی اور الفاظ یہ تھے کہ اللّٰہ پاک تمھیں جلد مرحوم شوہر کا بہترین نعمُ البدل عطا فرمائے۔ کیا ہمارے یہاں ان الفاظ میں ایک بیوہ سے تعزیّت کی جا سکتی ہے؟ بیوہ خود ہی اُٹھ کے کہنے والے کا کچومر بنا ڈالے گی۔

ہمارے یہاں طلاق کو جس طرح stigmatize کر دیا گیا ہے، اِس صورتحال میں طبعاً کوئی خاتون نہیں چاہے گی کہ ایک گھر اُجڑ گیا تو اب دوسرا بھی اُجاڑ دے کہ ایک طلاق ہی عورت کےلیے بہت بھاری ہوتی ہے۔ کُجا یہ کہ کوئی عورت دو گھروں سے طلاق یافتہ ہو جائے۔ مُراد یہ ہے کہ حلالہ بقول کسے، "ہو جاتا ہے، کیا نہیں جاتا”، اُس کے شرعی طریقے سے وقوع پذیر ہونے کے اِمکانات ہمارے یہاں بہت کم ہیں۔ ہاں زندگی اور موت کے مُعاملات بہت عجیب ہیں، اُس پہ رائے زنی نہیں کی جا سکتی۔ یہ تو تھا حلالہ کا شرعی طریقہ، اب آتے ہیں حلالہ کی دوسری صورت پہ کہ جب طلاق دینے والا مرد کسی دوسرے مرد کے ساتھ مل کے یہ منصوبہ بندی کرے کہ تم میری سابقہ بیوی سے نکاح کرو ، اور ایک دو دن یا چند دِنوں بعد طلاق دے دو، تاکہ میں اِس سے دوبارہ نکاح کر سکوں۔

اِسے ہی ہمارے یہاں حلالہ سمجھا جاتا ہے۔ شرعاً اس طرح منصوبہ بندی کر کے حلالہ کرنا حرام ہے۔ مکرر لکھوں گی کہ منصوبہ بندی کر کے "حلالہ" کروانا شریعتِ مُحمّدی کی رو سے حرام ہے اور اس طرح سے حلالہ کرنے والے مرد اور اس مرد پہ، جو یہ حلالہ کروائے، دونوں پہ حضور نبی اکرم ﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔ اور لعنت سمجھتے ہیں؟؟ اللہ کی رحمت سے دُوری کو لعنت کہتے ہیں۔ اور یہ کوئی آسان بات ہرگز نہیں ہے۔ حلالے کی جو قسم ہمارے یہاں مستعمل ہے، یا عام طور پہ حلالہ سے جو عمل مرادلیا جاتا ہے، یہ انتہا درجے کی بےحمیتی اور بے غیرتی ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی لعنت کا مستحق عمل بھی ہے۔

اب آتے ہیں "حلالہ سینٹرز" پہ، میں یہ باتیں فیس بک پہ سنا کرتی تھی کبھی کہ حلالہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چُکا ہے تو سچی بات ہے کہ میں بالکل یقین نہیں کرتی تھی۔ لیکن جب میں نے خود اِسی نوع کے ایک کیس کا مشاہدہ کیا تو میں یہ دیکھ کر نہ صرف حیران رہ گئی بلکہ دُکھ کی شدید کیفیت سے گزری کہ ایک نامور اور معتبر "عالمِ دین"، جن کی فیس بک پروفائل ان کی نورانی تصاویر اور بےمثال خطبات سے بھری پڑی تھی، وہ درپردہ یہ دھندہ کر رہے تھے۔ لوگ جہالت کے مارے، اپنی چند روزہ زندگی کے معمولی سے مفاد کے لیے روزِ حشر اور ابدی زندگی کا خسارہ مول لے لیتے ہیں۔ اور یہ حضرت چند ہزار روپے اور شاید ایک نئی عورت کے شوق میں، لڑکیوں سے خود "نکاح" کرتے ہیں، اور طے شدہ دنوں کے بعد اسے طلاق دے دی جاتی ہے۔ جاہل تو شاید روزِ محشر اپنی جہالت کا عذر پیش کر سکیں، لیکن اس طرح کے "علماء" بروزِ حشر نبی رحمتﷺ کا سامنا کس منہ سے کریں گے کہ جو چند ٹکوں کے عوض اپنا دین اور ایمان بیچ دیتے ہیں؟؟

اب میں آخر میں خواتین سے مُخاطب ہو رہی ہوں۔ اللّٰہ کی بندیو۔ !! کیا مرد تمھارا رازق ہے؟؟ جس شوہر نے گھر بار کا سوچا نہ تمھاری زندگی کا اور نہ ہی اپنے بچوں کا، تم اس کی خاطر اپنی عزّت اور اپنا ایمان گنوا دو گی؟ میں جانتی ہوں کہ اِس طرح کے معاملات میں عورت کی زندگی خاص طور پہ نہایت ناگفتہ بہ ہو جاتی ہے، چاہے معاشی مسائل نہ بھی ہوں، تب بھی۔ لیکن اس زندگی کی کوئی بھی تکلیف اخروی اور ابدی زندگی کی قیمت پہ تو دور نہیں کی جاسکتی نا۔ وہ مرد جس کے ساتھ اب تمھارا کوئی تعلق باقی نہیں رہا، اسے یہ حق ہر گز نہ دو کہ وہ تمھیں ایک کٹھ پتلی بنا کے نچائے۔ اپنے کسی بھی عمل پہ بروزِ حشر تمھارا یہ عذر قابلِ قبول نہیں ہو گا کہ تمھیں مجبور کیا گیا تھا۔

اپنے ایمان کی حفاظت خود کرو اور اگر خُدانخواستہ، خاکم بدہن ایسے کسی موڑ پہ زندگی لے آئے تو اپنے ایمان کی خاطر ڈٹ جاؤ۔ پھر کہوں گی کہ یہ سب عملاً بہت بہت بہت زیادہ مشکل ہے، خاص طور پہ اگر بچوں کا ساتھ ہو، لیکن اِسی میں دُنیا کی بھلائی بھی ہے اور عقبٰی کی راحت بھی۔

Comments

Avatar photo

ربیعہ فاطمہ بخاری

ربیعہ فاطمہ بخاری سلگتے ہوئے سماجی اور نازک دینی معاملات پہ اپنی رائے رکھتی ہیں، اور اسے دوٹوک انداز میں بیان کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔ زبان و بیان پہ گرفت اور سلجھا ہوا اندازِتحریر ان کی پہچان ہے۔ سوشل میڈیا پہ شوقیہ لکھنے کے ساتھ کانٹینٹ رائٹنگ کے میدان میں ایک تجربہ کار اور کامیاب پروفیشنل ہیں۔

Click here to post a comment