ہوم << ڈیرہ بگٹی، نواب اور میڈیا - عبدالغفار بگٹی

ڈیرہ بگٹی، نواب اور میڈیا - عبدالغفار بگٹی

کتنی حیران کن بات ہے نا کہ آج کے دور میں بھی ایسے لوگ ہیں جن کی کوئی خبر نہیں اور نہ ان تک کوئی خبر پہنچتی ہے. اور یہ لوگ پاکستان میں ہی رہتے ہیں. آئیے آپ کو لیے چلتے ہیں بگٹیوں کی اندھیر نگری ڈیرہ بگٹی میں. جو علاقہ سوئی گیس اور نواب اکبر بگٹی کی وجہ سے کافی مشہور ہے. ڈیرہ بگٹی پاکستان کا ایک قبائلی ضلع ہے جس کے مسائل کو ملکی میڈیا نے دوسرے قبائلی علاقوں کی طرح مختلف وجوہات کی بنا پر اب تک پس پردہ رکھا ہے.

ڈیرہ بگٹی کی سیاسی تاریخ، قبیلے کی معاش کے باعث تبدیلی کے ساتھ تین حصوں میں تقسم ہوتی ہے . سوئی گیس کی دریافت سے پہلے, اس کے بعد کا عرصہ اور 2006 کے فوجی آپریشن کے بعد کا دور اس میں شامل ہیں. سوئی گیس کی دریافت سے پہلے یہاں کے لوگوں کی آمدن، مال مویشی اور بارانی زمینوں کی کاشت پر انحصار کرتی تھی. جس کا بہت ہی تھوڑا حصہ قبیلے کے سردار کے حوالے کیا جاتا تاکہ وہ باہر سے آئے قبیلے کے مہمانوں کی خاطر تواضع کرے اور بوقت ضرورت مجبور لوگوں کی مدد کرے اور ان مال مویشیوں کو زر میں تبدیل کر کے اپنی ضرورت کی اشیاء خریدنے میں خرچ کرے. کیونکہ ان کو قبیلے کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد اپنے لیے معاش کا بندوبست کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا. اس طرح ان کی گزر برس ہوجاتی.

برصغیر میں برطانیہ کی حکومت قائم ہونے کے باوجود انگریز زیادہ تر قبائلی علاقوں کو زیرنگوں کرنے سے قاصر رہا اور اس میں بگٹی قبیلے کا علاقہ بھی شامل تھا . حکومت برطانیہ نے یہاں کے قبائلی عمائدین کو اپنے پاس بلا کر ان کو معاہدے کے ذریعے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے. اس کے ساتھ ان کے ذاتی گارڈز کو لیویز فورس میں تبدیل کرلیا گیا اور ان کی تنخواہیں بھی حکومت برطانیہ ادا کرنے لگی. ان کو ڈاک اور اشتہاری ملازمان کی پکڑ دھکڑ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا. آہستہ آہستہ قبائلی نواب کا اثرورسوخ بڑھتا گیا. اب معاش کے ساتھ ساتھ اپنے قبیلے میں پیدا ہونے والے باغیوں کی گرفتاری اور سزائیں دلوانا ان کے لیے آسان ہوگیا تھا.اکثر ملزمان کو دہلی , سیوی اور مچھ جیل میں بھیجا جاتا تھا .

اس کے ساتھ انگریز سرکار نے نواب صاحبان کی نرینہ اولاد کو اپنے ساتھ برصغیر اور انگلستان کے بڑے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلانے کے لئے بھجوایا. اب وہ معاشی و انسانی قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی شعور میں بھی اپنے قبیلےکے لوگوں سے کافی آے نکل گئے تھے. ان میں ایک نواب شہباز خان بگٹی(اکبر خان بگٹی) بھی تھے. گیس کی دریافت اور اس وقت کے حکمرانوان کے ساتھ قربت نے نواب صاحب کے معاش کو چار ہزار گنا بڑھا دیا.

سرکار اور سردار کے اتحاد نے ان لوگوں کے مسائل کو میڈیا تک نہ لانے میں اہم کردار ادا کیا. کیونکہ نواب صاحب قبیلے کے بڑے ہونے کے ساتھ سیاسی رہنما بھی تھے. مطلب سرکاری اور سرداری دونوں اختیارات اپنے پاس رکھتے تھے. اس طرح چالیس سال سے زیادہ عرصے تک یہ علاقہ کمیرے کی آنکھ سے اوجھل رہا. قبیلے کے لوگ اپنے سردار کے خلاف بولنے کو اپنے قبیلے کی توہین سمجھتے تھے. قبیلے کے بڑے کو برا بھلا کہنے کا مطلب لوگوں کو برا بھلا کہنے کا مترادف تھا. پاکستان کی آزادی سے لیکر نواب صاحب کی وفات تک میڈیا کی ٹیمیں نواب صاحب کے انٹرویوز لینے کے علاوہ ان علاقوں میں کبھی نہ آئیں. فوجی آپریشن کو کور کرنے کےلیے فوجی جہازوں پر نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کے کچھ صحافیوں کو یہاں تک رسائی ملی. مگر خطرات کے پیش نظر سکیورٹی اداروں نے ان کو ایک مخصوص حصے کی کوریج دینے کی اجازت دی.

اب آتا ہے حکومتی دور
نواب صاحب کی وفات اور لوگوں کے غم و غصے کو مختلف انداز میں بین الاقوامی میڈیا نے دیکھنے کی کوشش کی تھی. مگر نیشنل میڈیا جنرل پرویز مشرف کی سنسرسشپ میں تھا. اسے وہ دیکھنےاور دکھانے پر مجبور کیا گیا جس سے مشرف کے اس آپریشن کو درست ثابت کرنے کا موقع ملے. رفتہ رفتہ سیکورٹی فورسز نے ضلع بھر میں اپنی چوکیوں کا جال بیچھا دیا . مین شاہراہوں کے داخلی راستوں پر بڑی چوکیاں بنا کر آنے جانے والوں کی تفتیش شروع کردی. میڈیا کے کسی شخص کا سن کر ادارے ایکٹو ہوجاتے اور اس کو اپنے ساتھ صرف اپنی حدود اور کام کی کوریج دلا کر واپس کردیتے.جس کو دوسرے الفاظ میں ان فورس جرنلزم کہا جاتا ہے.

اب حکومتی دور میں نئے لوگ سامنے آنے لگے، جن کو حکومتی زبان میں قبائلی عمائدین کہا جاتا ہے.شروع میں وہ بھی بالکل غریب اور بے اختیار تھے .حکومتی اداروں نے انگریزوں والی پالیسی پر عمل کرتے ہوئےان کے قریبی لوگوں کو لیویز فورس میں بھرتی کرکے بطور گارڈز ان کےحوالے کیا، تاکہ وہ علیحدگی پسند تنظیموں کی گرفت سے بھی بچے رہیں، اور ان کا سیاسی رعب و دبدبہ بھی بڑھ سکے . امن فورس کے نام پر لوکل لوگوں کو بھرتی کرکے ان کے حوالے کیا. ان کے پاس بالکل برٹش لیویز جیسا کام تھا. خبر رسائی کرنا, اور بوقت ضرورت اشتہاری ملزمان کو پکڑنے میں حکومت کی مدد کرنا وغیرہ ، آہستہ آہستہ ان کا اثرورسوخ بھی بڑھتا گیا. ان کے بچوں کو حکومت نے پاکستان کے بہترین تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے لیے بھیجا. کچھ ہی عرصے میں وہ مضبوط سیاسی کردار بن کر سامنے آگئے.

میڈیا کو الیکشن کے دنوں میں اور بعض مخصوص مواقع پر بلایا جاتا ہے، اور حزب اختلاف کے خلاف رپورٹنگ کرنے کے بعد واپس کردیا جاتا ہے.اب تک ضلع بھر کے ترقیاتی منصوبوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، نہ میڈیا اسے رپورٹ کرتا ہے. تمام چینل کے رپورٹرز موجود ہیں مگر معاش کی تنگی اور حکومتی اور علیحدگی پسند تنظیموں کے ڈر کی وجہ سے کوئی کوریج نہیں دے پاتے. ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کے صحافی تنازعات میں رپورٹنگ کی تربیت سے نابلد ہیں. مزید یہ کہ وہ ملک کے دور دراز ضلع سے تعلق رکھتے ہیں. جہاں معلومات یا ذرائع بہت ہی محدود ہیں. میڈیا چینلز ان کو کام کے بدلے شاباشی کے علاوہ کچھ نہیں دیتے. ان لوگوں کو ادارہ جاتی تحفظ کے بغیر چھوڑا ہوا ہے .یہ جانیں اور ان کا خدا جانے.

یہ وہ علاقہ ہے جہاں ریاستی اور مخالف عناصر میڈیا کو قابو میں رکھنے اور اپنی معلومات مختلف حوالوں سے اس پر تھوپنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں. مزید یہ کہ ان کی اپنی قبائلی ,اور سیاسی ہمدردیاں ہوتی ہیں جو ان کو کوریج دینے سے روکتی ہیں. اکثر صحافی حضرات حکومتی ملازمت بھی کرتے ہیں، جو ان کی راہ میں رکاوٹ بنی رہتی ہے. اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کچھ عرصے سے عام لوگوں نے سوشل میڈیا پر اپنے مسائل اور سیاسی نمائندگان کی کرپشن کو بےنقاب کرنے کی کوشش کی تو حکومت نے ضلع بھر کے انٹرنیٹ کو معطل کیا. اب حالات یہاں تک پہنچے ہیں کہ لوگوں کی دکانوں میں لگے پی ٹی سی ایل کے کنکشن کو اتار کر پھینکا جارہا ہے. اور آئے روز سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے نوجوان سماجی کارکنان کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے. حکومتی نمائندگان کے خلاف بولنا بھی ریاست کے خلاف بولنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے، ان سیاسی نمائندگان کے سپورٹر ملک دشمنی کا ٹھپہ لےکر فیس بکی میدان میں موجود رہتے ہیں . بالکل اسی طرح جیسے نواب صاحب کے دور میں قبیلے کے لوگ اس کو برا مانتے تھے، اور ناقابلِ تلافی گناہ سمجھتے تھے.

میڈیا کی موجودگی اور رپورٹنگ کے بغیر ایسے دور دراز علاقے میں حکومتی منصوبہ جات کی تکمیل ممکن نہیں ہے. پورے ضلع میں ہر سال صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کے نمائندگان نے جعلی منصوبوں کے نام پر اربوں روپے ہڑپ کر ڈالے ہیں ، اس کی کوئی خبر میڈیا پر نہیں چلتی. اگر یہ تمام کام بروقت مکمل ہوتے, اور لوگ اس سے مستفید ہوتے تو شاید علاقہ بھر میں اب تک امن قائم ہوجاتا، مگر اس جانب حکومت، اداروں اور میڈیا کی کوئی توجہ نہیں ہے.

Comments

عبدالغفار بگٹی

عبدالغفار بگٹی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، سماجی کارکن اور ادیب ہیں۔ ڈیرہ بگٹی بلوچستان سے تعلق ہے۔ پروگریسیو رائٹرز ایسوسی ایشن اسلام آباد کے جوائنٹ سیکرٹری ہیں۔ بلوچستان کی سیاست و سماج پر گہری نظر رکھتے ہیں

Click here to post a comment