یادش بخیر، اپریل 2021ء میں، یعنی آج سے تقریباً 4 سال قبل ہم نے ایک رٹ درخواست جمع کرائی۔ رٹ درخواست کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ معاملہ آئین میں درج بنیادی حقوق کے نفاذ کا ہے اور اس وجہ سے سنجیدہ ہے اور اسے عام سول عدالت کے بجاے ہائی کورٹ کو سننا چاہیے۔
29 اپریل 2021ء کو اس رٹ درخواست کی پہلی سماعت ہوئی۔ متعلقہ فریقوں کو نوٹس جاری کردیے گئے کہ 3 ہفتوں میں جواب جمع کرائیں۔ تاہم اگلی سماعت کےلیے کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔
چند ہفتوں بعد بعد درخواست جمع کی کہ معاملہ فوری نوعیت کا ہے، اس لیے اسے جلد سماعت کےلیے مقرر کیا جائے۔
28 مئی 2021ء کو یہ فوری نوعیت کی درخواست منظور کی گئی اور ہمیں تاریخ دی گئی 4 مہینے بعد 19 ستمبر 2021ء کی!
19 ستمبر 2021ء کو سماعت نہیں ہوسکی، بلکہ ایک اور تاریخ مل گئی 28 اکتوبر 2021ء کی۔
بالآخر 28 اکتوبر 2021ء کو پہلی بار ہمارے فاضل وکیل کو معزز جج نے سنا اور قرار دیا کہ part heard، یعنی کسی حد تک سماعت ہوگئی۔ اب یہ کیس کسی اور جج کے پاس نہیں لگنا تھا، بلکہ انھی جج نے سننا تھا۔ ہمیں اگلی تاریخ 7 دسمبر 2021ء کی دی گئی۔
7 دسمبر 2021ء کو ہمارے وکیل کے دلائل مکمل ہوئے۔ اب مدعا علیہ کے وکیل کو دلائل دینے کےلیے 16 دسمبر 2021ء کی تاریخ دی گئی۔
16 دسمبر 2021ء کو مدعا علیہ کے وکیل نے ناسازیِ طبع کا بہانہ کیا، تو معاملہ ایک مہینے بعد تک ملتوی کرکے ہمیں 18 جنوری 2022ء کی تاریخ دی گئی۔
18 جنوری 2022ء کو مدعا علیہ کے وکیل کی جانب سے بہانہ کیا گیا کہ وہ سپریم کورٹ میں مصروف ہیں، تو معزز جج نے کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزید ایک مہینے کےلیے سماعت ملتوی کردی۔
اگلی تاریخ 9 فروری 2022ء کی دی گئی۔ اس تاریخ پر معزز جج صاحب مقدمات کی سماعت کرتے کرتے تھک گئے، تو انھوں نے اس مقدمے کی سماعت سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے 2 مارچ 2022ء کی تاریخ دے دی۔
2 مارچ 2022ء کو پھر مدعا علیہ کے وکیل نے سپریم کورٹ نے مصروفیت کا بہانہ کیا اور معزز جج نے پھر کمال فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سماعت کو ملتوی کرتے ہوئے 5 اپریل 2022ء کی تاریخ دے دی۔
5 اپریل 2022ء کو بالآخر مدعا علیہ کے وکیل کے "کچھ دلائل" سنے گئے اور مزید دلائل کےلیے 18 مئی 2022ء کی تاریخ دے دی گئی۔
18 مئی 2022ء کو مدعا علیہ کے وکیل نے کہا کہ ہماری جانب سے جن غیر قانونی کاموں کی نشاندہی کی گئی تھی، ان میں کئی ایک کی وہ درستی کرچکے ہیں۔ عدالت نے ان پر نظرِ کرم کرتے ہوئے انھیں یکم جولائی 2022ء تک مذکورہ نوٹیفیکشن پیش کرنے کی ہدایت کی۔
یکم جولائی کے بجاے مقدمہ سماعت کےلیے 4 جولائی 2022ء کو رکھا گیا، لیکن معزز جج صاحب پھر اس مقدمے کی سماعت کےلیے وقت نہیں نکال سکے، اور اسے "ستمبر 2022ء کے تیسرے ہفتے تک" ملتوی کردیا!
21 ستمبر 2022ء کو مقدمے کی سماعت ہوئی، تو مدعا علیہ کے وکیل نے 55 غیر قانونی کاموں میں صرف 4 کی اصلاح کے نوٹی فیکیشن پیش کیے۔ معزز جج نے ہم پر کمال مہربانی کرتے ہوئے یہ نوٹی فیکیشن ہمارے حوالے کردیے اور سماعت 3 ہفتوں کےلیے ملتوی کردی
3 ہفتے بعد بھی سماعت نہیں ہوئی تو ہم نے کچھ اضافی دستاویزات جمع کرانے کےلی درخواست دی تاکہ کچھ تو ہماری بات سنی جائے۔ اس پر 7 ہفتے بعد 11 نومبر 2022ء کو سماعت ہوئی اور صرف وہ اضافی دستاویزات جمع کرانے کی اجازت دے کر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
29 نومبر 2022ء کو یہ مقدمہ سماعت کےلیے مقرر کیا گیا، تو سنے بغیر ہی اسے ملتوی کردیا گیا۔
ہم نے کچھ عرصہ انتظار کرنے کے بعد پھر فوری سماعت کی درخواست دی، تو 4 مہینوں کے بعد 31 مارچ 2023ء کو اس درخواست کی سماعت ہوئی اور اسے منظور کرتے ہوئے 2 مہینے بعد مئی کے آخر میں سماعت کےلیے مقرر کرنے کا حکم دیا گیا۔
(یہاں تک مقدمہ دائر کیے 2 سال ہوگئے!)
22 مئی 2022ء کو یہ مقدمہ سماعت کےلیے مقرر کیا گیا، تو معزز جج صاحب کے حکم پر اسے فہرست سے نکال دیا گیا اور ایک دفعہ پھر سماعت کے بغیر ہی مقدمہ ملتوی کردیا گیا۔
اس کے بعد 1 سال تک مقدمہ مقرر ہی نہیں کیا گیا۔
1 سال بعد 9 مئی 2024ء کو مقدمہ مقرر کیا گیا، تو کسی کارروائی کے بغیر ہی اسے غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا۔
اس کے مزید 4 بعد مہینے بعد اسے 9 ستمبر 2024ء کو سماعت کےلیے مقرر کیا گیا، لیکن ایک دفعہ پھر بغیر کسی کارروائی کے، اسے غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا۔
اس کے بعد 5 مہینے ہونے کو آئے اور اب تک یہ مقدمہ سماعت کےلیے مقرر ہی نہیں کیا گیا!
واضح رہے کہ یہ مقدمہ کسی ذاتی غرض کےلیے نہیں تھا، بلکہ شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کےلیے تھا۔
اچھا، یہ معزز جج صاحب پنج ستارہ ہوٹلوں میں جا کر لوگوں کو بھاشن بھی دیتے ہیں کہ عدالتوں میں وقت اور وسائل کا ضیاع ہوتا ہے، اس لیے عدالتوں سے فیصلے کروانے کے بجاے "تنازعات کے حل کے متبادل طریقوں" (ADR) کی طرف جائیں۔ یہ معزز جج صاحب اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی آزادی کے علمبردار بھی ہیں اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے دعویدار بھی، اور انھیں کسی دوسری ہائی کورٹ سے جج کے ٹرانسفر پر اعتراض بھی ہے۔
تبصرہ لکھیے