نیتن یاہو امریکا یاترا پر ہیں. ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے ساتھ ایک پریس ٹاک کی، جس میں ایک بار پھر اہلِ غزہ کو غزہ سے نکالنے کی بات کی. وہی میٹھا کھانڈ لہجہ ،وہی بھیڑیے کے چہرے پر شکار کی آرزو لیے ہوئے مکارانہ مسکراہٹ. بیانیہ دیکھیے کہ غزہ تباہ ہوچکا. اب رہنے کے قابل نہیں. وہاں کے لوگوں کی زندگی بہت مشکل میں ہے. اس لئے انہیں متبادل مگر بہتر قیام گاہ درکار ہے وغیرہ وغیرہ. ایسے جیسے ٹرمپ سے بڑھ کر روئے زمین پر فلسطینیوں کا کوئی خیرخواہ نہ ہو.
اس نکتے پہ ہفتہ عشرہ قبل ہم تفصیل سے لکھ چکے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کے لئے پچھلے 54 سالوں سے کیا کیا جتن کیے گئے اور تمام منصوبے کیسے ناکام ٹھہرے. اب کی بار کی خاص بات یہ ہے کہ تقریباً تمام عرب اس منصوبے کی مخالفت میں یک زبان ہو کر سامنے آگئے ہیں. پہلے بیان کے بعد اردنی وزیر خارجہ نے بیان دیا تھا کہ تمام عرب اس پہ متفق ہیں کہ فلسطینی فلسطین میں ہی رہیں گے. آج سعودی عرب نے واضح طور پر کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے تعلقات ناممکن ہیں. اتنا سخت ردعمل دراصل سیاسی چال ہے کہ صاحب! آپ فلسطینیوں کی بےدخلی کی بات کر رہے ہیں، جبکہ ہم تو دو ریاستی فارمولے سے بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں.
ٹرمپ کے پچھلے دور میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی رِیت چل نکلی تھی. یہ سب اور اس کے بعد کے حالات دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ آج نہیں تو کل سعودی عرب سمیت باقی ماندہ ممالک بھی اسرائیل سے دوستی گانٹھ لیں گے. ایسا ہونا اس لئے بھی عین ممکن تھا کہ تب ایران کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا. سعودی عرب کے گرد محاصرے کے حلقے کی گولائی تقریباً مکمل ہو چکی تھی. جنوب سے یمن، شمال سے شام اور شمال مشرق سے عراق ایرانی مورچوں میں تبدیل ہو چکا تھا. اسرائیل کو بھی توپ چیز بنا کر پیش کیا جارہا تھا. گویا ایک جانب کنواں اور دوسری جانب کھائی تھی. چونکہ ایرانی پیش قدمی تیز تر تھی، جبکہ اسرائیل ابھی تک فلسطینی گھاٹی عبور نہ کر پایا تھا، اس لئے عربوں نے ایرانی کنویں کی بجائے اسرائیل نامی کھائی میں گرنے کو منتخب کر لیا تھا ، مگر اچانک منظر نامہ تبدیل ہونا شروع ہوا.
غزہ میں حماس نے جنگ چھیڑ دی. چونکہ حما.س ایرانی کیمپ میں تھی، اس لئے اسے بھی خواہی نہ خواہی میدان میں اترنا پڑا. رن میں قدم رکھتے ہی اسے اپنی تنہائی کا شدت سے احساس ہوا. عرب بھی ایرانی اضطراب کو سمجھ ریے تھے. چنانچہ سعودی عرب اور ایران کی لیڈر شپ چین کے دارالحکومت میں اکٹھی ہوئی. گلے شکوے ہوئے. کہا سنا گیا. بالآخر ایک دوسرے سے جدل و پیکار ترک کرنے پر اتفاق کر لیا گیا. ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے حادثے میں انتقال کے بعد محمد بن سلمان نے تعزیتی کال کی. بعد ازاں سعودی آرمی چیف نے ایران کا دورہ بھی کیا. جب ایران پہ اسرائیل کا دباؤ بڑھا تو ایران کے حق میں ایک تگڑا سا بیان بھی دیا گیا. یہ سب بیجنگ میں ہونے والی صلح کے کرشمے تھے. بعد میں شام بھی ایران کے ہاتھ سے نکل گیا. یوں سعودی عرب کے گردا گرد کھنچے ہوئے محاصرے کا حلقہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گیا.
دوسری جانب اسرائیل غزہ میں حماس نامی چٹان سے سر پٹختا رہ گیا. پندرہ ماہ میں ہر ستم روا رکھے جانے کے باوجود اکتالیس کلومیٹر کا چھوٹا سا علاقہ فتح نہ ہوسکا. اس سے عربوں کو پیغام گیا کہ جن اسرائیل کو دیو بنا اور بتا کر ہمیں ڈرایا جارہا ہے ،وہ تو حقیقت میں چوہا ہے. جس سے ننھی سی حما.س قابو نہیں ہو پارہی، اس کے سامنے سرِ تسلیم کیسے خم کیا جاسکتا ہے.
عربوں کے سامنے ایک اور حقیقت بھی ہے. وہ یہ کہ اسرائیل دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جس کی کوئی باقاعدہ سرحد نہیں ہے. جنوب میں مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد لگتی ہے، جسے عارضی طور پر بفرزون تسلیم کر لیا گیا ہے، مگر وہ مستقل سرحد نہیں. شمال میں لبنان کا بلیو لائن نامی بارڈر بھی دونوں ممالک کے بیچ ایک عارضی حدبندی ہے. مشرق میں اردن کے ساتھ بھی کوئی باقاعدہ تسلیم شدہ سرحد نہیں ہے. اردن سمجھ رہا تھا کہ اسرائیل مغربی کنارے سے آگے نہیں بڑھے گا، مگر ڈیل آف دی سینچری میں ٹرمپ نے مغربی کنارے سے آگے واقع وادیء اردن بھی اسرائیل کی جھولی میں ڈالنے کا سامان کر رکھا ہے. چاروں طرف غیر مستقل اور عارضی سرحد کا مطلب ہے کہ اسرائیل کسی بھی وقت مصر، اردن یا لبنان کی جانب پیش قدمی کرسکتا ہے. نیتن یاہو کا اقوام متحدہ میں مشرق وسطیٰ کا نیا نقشہ لہرانا بلاوجہ نہیں تھا ،بلکہ یہ ایک طرح سے تمام عربوں کو کھلی دھمکی تھی. اسرائیل کو حد میں رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے. وہ یہ کہ اسے فلسطین میں ہی الجھائے رکھا جائے. عرب خصوصاً فلسطین کے پڑوسی ممالک بخوبی جانتے ہیں کہ فلسطین بالخصوص غزہ آخری مورچے کی حیثیت رکھتا ہے.
یہ ہیں وہ حقائق اور وجوہات جن کی وجہ سے اب عرب حرفِ انکار لبوں پر لانے کی جرات اور جسارت کر رہے ہیں. یہ بدلاؤ کسی حد تک غیر متوقع مگر نہایت خوش کن ہے.
[…] عربوں کی جرات رندانہ اور اس کی وجوہات – نواز کمال […]