قرائن اشارہ کر رہے ہیں کہ حکومت نے دھرنے کی جوابی کاروائی کی تیاری شروع کر دی ہے اور اس ضمن میں پچھلے 24 گھنٹے باقاعدہ سٹارٹ اپ کہے جاسکتے ہیں۔
کل کے دن میں وزیر اعظم نے تین اہم پیغامات دیے :
1۔ چیف آف آرمی سٹاف سے ون آن ون اور پھر شہبازشریف صاحب اور چوہدری نثار کی موجودگی میں ملاقات سے یہ تاثر دیا گیا کہ وزیراعظم کا براہ راست اور اپنے ایلچیوں کے ذریعہ فوج (جنرل راحیل شریف) سے رابطہ متواتر اور مستحکم ہے۔ جنرل صاحب کی ’’خفگی‘‘ کی خبریں دینے والےسوچ سمجھ لیں۔
2۔ دو سال بعد اچانک پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا جانا بھی اسی سلسلہ کی کڑی معلوم ہوتا ہے۔ اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ وزیراعظم صاحب کی اندرون پارٹی حمایت پوری طرح برقرار ہے اور مستحکم ہے۔ وزیر اعظم کے جارحانہ خطاب کے ساتھ ساتھ خوشامد اور سرفروشی کے روایتی مظاہروں نے اس بات کو مزید واضح کرنے میں مدد دی۔
3۔ پارلیمانی پارٹی سے اپنے خطاب میں میاں صاحب نے فرمایا کہ چین سی پیک کے معاملہ میں ان کے برسر اقتدار آنے کا منتظر تھا۔
یہ ہے وہ چھکا جو میاں صاحب نے اپنی دانست میں اپوزیشن کے اس دعوی پر لگایا ہے کہ وزیر اعظم کرپٹ ہیں اور پانامہ لیکس اس کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ وزیر اعظم کے مطابق چین جیسا ملک ان کو پاکستان کی پوری سیاسی قیادت میں سب سے زیادہ قابل اعتبار اور Honest سمجھتا ہے اور محض ان پر تکیہ کرتے ہوئے 46 ارب ڈالر کا ایک اسٹریٹیجک منصوبہ ترتیب دیتا ہے اور یہاں کی اپوزیشن ہے کہ ان کو خائن قرار دینے کے چکر میں ہے۔ یہاں انہوں نے سب کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ ’’ہلے‘‘ تو کافی کچھ ہل جائے گا۔ پھر نہ کہنا۔ شہباز شریف صاحب نے بھی ایک بیان میں فرمایا کہ سی پیک کا ڈی ریل ہو جانا (نواز حکومت کا غیر فطری اختتام) سن 71 جیسا سانحہ ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف نے مزید یہ بھی فرمایا کہ وہ تو قوم کی خدمت کے لیے اس منصب پر ہیں، اقتدار کے لیے نہیں، اور انہیں اقتدار کی کوئی پرواہ نہیں۔
یعنی وہ بھی اس کھیل کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور کسی بھی طرح پریشر میں نہیں اور نہ ہی آئندہ چل کر اس کی کوئی امید رکھی جائے۔ البتہ عوام یہ جان لیں کہ وہ یہ سب صرف عوام کی محبت میں کر رہے ہوں گے جبکہ حزب مخالف محض اقتدار کے لیے دھماچوکڑی مچانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
وزیر اعظم نے فوج کے ساتھ بظاہر غیرمعاندانہ تعلقات، پارلیمنٹ میں بھاری سیاسی حمایت، سی پیک اور اس سے منسلک معاشی امکانات کو اپنے مخالفین کے خلاف دفاعی لائن بنایا ہے۔
اپوزیشن کے پاس کیا ممکنہ کارڈز ہیں ۔۔۔۔ یہ کل اور پرسوں ، 6 اور 7 اگست کو کافی حد تک سامنے آجائے گا ۔
تبصرہ لکھیے