ہوم << عصری تعلیمی اداروں اور دینی مدارس کے امتحانات کا تقابلی جائزہ - قاری حفیظ ککی

عصری تعلیمی اداروں اور دینی مدارس کے امتحانات کا تقابلی جائزہ - قاری حفیظ ککی

تعلیم کامیابی کی کنجی ہے اور کوئی قوم تعلیم میں مہارت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی ۔ تعلیمی اداروں میں امتحانات کا دورانیہ شروع ہو چکا ہے۔ دنیا میں سینکڑوں نظام تعلیم اس وقت چل رہے ہیں ۔ ان میں دینی مدارس کا تعلیمی نظام بھی شامل ہے۔

پاکستان میں تمام مسالک کے اپنے نمائندہ وفاق ہیں، جن میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان سب سے نمایاں ہے۔ جس کی صدارت و سرپرستی مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کرتے ہیں ۔عصری ایجوکیشن کے لحاظ سے اس وقت پاکستان بہت پیچھے ہیں ۔لیکن مدارس کے تعلیم کے لحاظ سے پاکستانی مدارس کی کارکردگی انتہائی شاندار رہا ہے ۔اس وقت وفاق المدارس العربیہ کے تحت چوتھا امتحانی پیپر جاری ہے، جو طلباء بنین و بنات وفاق المدارس کے تحت پیپرز دے رہے ہیں ۔ان کی تفصیلات درج ذیل ہیں: وفاق المدارس کے بورڈ کے زیر اہتمام پورے ملک میں بیک وقت امتحانات جاری ہیں۔ آج تیسرا پرچہ ہو چکا ہے۔ کل امتحانی مراکز کی تعداد 3,562 ہے، جبکہ کل( فضلاء )طلبہ و طالبات کی تعداد 629,529 ہے۔امتحانی نگران عملہ کی تعداد 6,533 ہے، اور حفاظ کی تعداد 108,403 ہے۔ یہ معلومات 2025 کی ہیں۔

وفاق نے امتحانات شروع ہونے سے قبل تمام میڈیا ہاؤسز و سوشل میڈیا کو مدعو کیا تھا کہ وہ امتحانات کا مشاہدہ کریں۔ یہ امتحانات اس طرح منعقد ہوتے ہیں کہ امتحان ختم ہوتے ہی نگران عملہ کو ان کی ڈیوٹی کا معاوضہ ادا کر دیا جاتا ہے۔ امتحانات میں نقل کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے، اور تقریباً ایک ماہ بعد لاکھوں طلبہ و طالبات کے نتائج انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر دیے جاتے ہیں۔ امتحانی مراکز میں بدتمیزی اور شوروغل کا تناسب بہت کم ہے، البتہ انسانی سماج ہونے کے ناتے کبھی کبھار ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔

اس کے برعکس، عصری تعلیمی اداروں میں ہر سال لاکھوں طلبہ و طالبات امتحانات دیتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں اساتذہ کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے۔ لیکن مدارس کے برعکس، عصری تعلیمی اداروں میں سفارش کا کلچر بہت مضبوط ہے۔ دولت مند طلبہ کے ساتھ ایک طرح کا سلوک کیا جاتا ہے، جبکہ غریب طلبہ کے ساتھ دوسرا۔ طلبہ نقل کرنے کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں، اور اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔ بورڈز کے اہلکار اثر و رسوخ والے اساتذہ کی ڈیوٹیاں لگاتے ہیں، اور بعض کیسز میں رشوت لینے کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں۔ مہینوں بعد اساتذہ کو معاوضے کے بلز ادا کیے جاتے ہیں۔ پیپرز چیک کرنے میں کئی مہینے لگ جاتے ہیں، اور اس عمل میں اثر و رسوخ والے افراد اور پرائیویٹ اسکولز اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور کامیاب بھی ہوتے ہیں ۔

دینی مدارس میں نشے کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ عصری تعلیمی ادارے آئس اور دیگر منشیات کے استعمال کی اماج گاہ بن چکے ہیں۔ لیکن ان خدمات کے باوجود، مدارس کو ریاستی سطح پر میڈیا ٹرائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، اور ان کی ساکھ کو مجروح کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ مدارس کے بینک اکاؤنٹ کھولنے میں مشکلات پیدا کی جاتی ہیں، اور انہیں انتہاپسندی سے جوڑا جاتا ہے۔ حالانکہ مدارس کے علماء نے "پیغام پاکستان" جیسے اہم ترین فتوے جاری کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس فتوے پر تمام مسالک کے نمائندہ وفاقوں سمیت دس ہزار سے زائد جید علماء نے دستخط کیے ہیں۔ لہٰذا، ضرورت ہے کہ مدارس کے مثبت کردار کو ریاستی سطح پر تسلیم کیا جائے، اور ان کے قانونی مسائل کو آسان بنایا جائے۔

بہت سے مدارس عصری تعلیم بھی اعلی کوالٹی کی مہیا کرتے ہیں ۔اور ملکی اور غیر ملکی طور پر پاکستان کا نام روشن کرتے ہیں ۔ اعلی درجے کا کمپیوٹر لیبز کا قیام ممکن بنایا ہے ۔ مدارس اور عصری تعلیمی اداروں کے امتحانی نظام کا تقابلی جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں کے اپنے مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ تاہم، دونوں نظام ہائے تعلیم کو ایک دوسرے سے سیکھنے اور بہتر بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک کا تعلیمی نظام مزید موثر اور شفاف ہو سکے۔