ارومچی - پہلا پڑاؤ
رو لینے سے دل کا غبار کچھ کم ہوا تو میں نے جہاز کی کھڑکی سے باہر دیکھا۔ دور دور تک بھورے چٹیل پہاڑ، جن کی چوٹیوں پر برف ایسے دِکھ رہی تھی کہ گویا سفید اون کی ٹوپیاں ہوں۔ میں نے سر جہاز کی سیٹ پر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ جہاز کو اڑان بھرے تقریباً آدھا گھنٹہ ہوا تھا کہ ہوائی میزبانوں نے کھانے کے ڈبے بانٹنا شروع کیے۔ میں نے بھی ایک ڈبہ لے لیا، مگر بددلی سے سیٹ پر رکھ دیا کیونکہ دل ابھی تک گھر کی یاد میں ڈوبا ہوا تھا۔
موسم صاف تھا اور کہیں کہیں اکا دکا بادل روئی کے گالوں کی مانند اڑتے پھر رہے تھے۔ کھانے کا ڈبہ ایسے ہی پڑا رہا، لیکن اب کچھ کچھ بھوک لگنے لگی تھی۔ میں نے بٹن دبا کر سیٹ سیدھی کی اور کھانے کا ڈبہ کھولنے لگا۔ ڈبے پر چینی زبان میں کچھ لکھا تھا، بس ایک جگہ انگریزی میں China Southern Airlines لکھا تھا۔ اچانک ایک کونے پر نظر پڑی تو وہاں اردو میں ’’موسولمانچہ‘‘ لکھا تھا۔ ارے واہ! یہ دیکھ کر میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
جو خدشات تھے کہ پتا نہیں حلال کھانا ہوگا یا نہیں، فوراً اڑن چھو ہوگئے۔ میں نے حیرت و خوشی کے ملے جلے جذبات سے ڈبہ کھولا لیکن یہ کیا؟ ایک بن، ایک چھوٹا پیکٹ دہی، چھوٹی سی ڈبیہ میں چند قاشیں پھل، ایک آملیٹ، اور ایک پیکٹ میں گلابی گلابی گوشت کے قتلے جن کے بیرونی کنارے کالے سیاہ تھے۔ دل میں خیال آیا کہ شاید یہ پورک (Pork) ہے، مگر باہر تو ’’موسولمانچہ‘‘ لکھا تھا۔ کچھ شک سا ہوا۔
پاس سے گزرتی میزبانِ ہوائی سفر سے پوچھا:
"Excuse me, what's this?"
جواب آیا:
"This is dry beef."
اللہ اللہ، چلو بچت ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ وہ چلتی، میں نے جلدی سے پوچھا:
"Is this halal? I mean for Muslims?"
ایک پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب آیا:
"Yes, it's for Muslims."
میں نے شکریہ ادا کیا اور ڈبے میں موجود چیزوں کو الٹ پلٹ کرنے لگا۔ ابھی آملیٹ کے دو نوالے ہی منہ میں ڈالے تھے کہ جہاز میں اعلان ہونے لگا کہ تمام مسافر حفاظتی بیلٹ باندھ لیں کیونکہ جہاز جلد ہی اترنے والا ہے۔ اب میں ایک نظر جہاز کے عملے کو دیکھوں جو تمام مسافروں سے فرداً فرداً کھانے کی ٹرے بند کرنے اور حفاظتی بیلٹ باندھنے کی درخواست کر رہا تھا اور دوسری نظر کھانے کو دیکھوں جو کہ سامنے پڑا مجھے چڑا رہا تھا۔ میں نے بھی پیور پاکستانی بنتے ہوئے فٹافٹ کھانے پر ہاتھ صاف کیا اور عملے کے مجھ تک پہنچنے تک تقریباً سب کچھ چٹ کر ڈالا سوائے خشک گوشت کے۔ ایک تو اس کا ذائقہ الگ سا تھا، تھوڑا میٹھا میٹھا، دوسرا اس کی رنگت کچھ گلابی گلابی تھی۔ خیر، اسی دوران جہاز اترنے لگا۔
جہاز کے اترتے ہی تقریباً سب پاکستانی کھڑے ہو کر سیٹوں کے اوپر موجود شیلف سے اپنا اپنا دستی اٹیچی اتارنے لگے۔ جہاز کا عملہ چیختا رہا کہ صبر کریں اور جہاز کے مکمل رک جانے تک اپنی نشست پر بیٹھے رہیں مگر مجال ہے کہ کسی نے اس پر کان بھی دھرا ہو۔ میں نہایت آرام سے بیٹھا رہا۔ جب تقریباً سب لوگ جہاز سے نکل گئے تو میں بھی آخری چند مسافروں کے ساتھ اپنا سامان اٹھا کر باہر آ گیا۔
ایک لمبی راہداری سے گزرتے ہوئے امیگریشن کاؤنٹر تک پہنچا۔ وہاں میں نے اپنا پاسپورٹ امیگریشن آفیسر کو پکڑایا جس نے پہلا سوال کیا:
"Where are you going?"
میں نے کہا:
"Hangzhou."
پھر اس نے پوچھا:
"Why are you going?"
میں نے جواب دیا:
"For study."
اس نے مجھ سے داخلے کا ثبوت دکھانے کو کہا۔ میرے ایڈمیشن لیٹر کو دیکھ کر پاسپورٹ پر انٹری کی مہر لگا دی۔
اب سامان لینے والی جگہ پہنچا تو دیکھا کہ ایک بڑے سے گھومتے ہوئے پٹے پر کافی بیگ گھوم رہے تھے۔ اپنے بیگ کو ساتھ بندھی کپڑے کی پٹیوں سے پہچانا۔ وہاں سے سامان لے کر جیسے ہی باہر نکلا تو باقی مسافروں کی پیروی کرتے ہوئے ائیرلائن کی بس تک جا پہنچا، جس نے کچھ ہی دیر میں ہمیں ہوٹل پہنچا دیا۔
سنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ لگنے والا چین کا صوبہ سنکیانگ مسلمان اکثریتی صوبہ ہے۔ دل میں خیال تھا کہ یہاں آکر شاید اپنی ثقافت کے کچھ رنگ نظر آئیں گے، مگر نہ تو کسی چہرے پر داڑھی نظر آئی اور نہ ہی کسی سر پر اسکارف۔ یہی سوچتے ہوئے ہوٹل پہنچا، چیک ان کیا اور کمرے میں آ گیا۔ ایک کمرے میں دو دو لوگ تھے، زیادہ تر کاروباری طبقہ تھا جو کہ ہانگجو کے پاس موجود بین الاقوامی مارکیٹ ’’ایوو شہر‘‘ (Yiwu) جا رہے تھے۔ نرم نرم بستر پر دراز ہوتے ہی آنکھ لگ گئی۔
آدھی رات کو بھوک سے آنکھ کھلی۔ اُٹھا، ہاتھ منہ دھویا اور نیچے آ گیا۔ بہت سے پاکستانی بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ ان سے سلام دعا کی اور کھانے کے متعلق معلومات لیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہوٹل سے نکلتے ہی بائیں مڑ کر سیدھا چلتے جاؤ تو پانچ سات منٹ کے بعد کافی دکانیں ہیں۔ ان کا شکریہ ادا کیا اور جیبوں میں ریزگاری اور موبائل کی تسلی کرنے کے بعد مارکیٹ کا رخ کیا۔
مارکیٹ میں بہت سی دکانیں تھیں، کافی گھومنے کے باوجود نہ تو کسی دکان پر کوئی مسلمان صورت نظر آئی نہ ہی کہیں ’’حلال‘‘ لکھا ہوا دکھائی دیا۔ اسی ادھیڑ بن میں چلتے چلتے ایک جگہ تندور لگا دیکھا جہاں دھڑادھڑ نان لگ رہے تھے۔ یہ نان پاکستان جیسے نہ تھے بلکہ دیکھنے میں تو یہ روغنی نان کے بڑے بھائی لگ رہے تھے۔ سائز کافی بڑا تھا مگر ہاتھ لگانے پر معلوم ہوا کہ یہ تو کافی سخت ہیں، اتنے سخت کہ شاید کسی کا سر پھاڑنے کے کام بھی آ سکتے ہیں۔ خیر، جو نان تندور سے تازہ تازہ نکل رہے تھے وہ خستہ اور نرم تھے۔ سوچا کہ اگر کچھ اور نہ ملا تو یہی نان خرید لوں گا۔
چلتے چلتے ایک ریسٹورنٹ کے دروازے پر پہنچا۔ وہاں ایک بزرگ سفید داڑھی، درمیانہ قد، سر پر ٹوپی لیے کھڑے تھے۔ میں نے رسک لیتے ہوئے پوچھا:
"Muslim?"
جواب میں انہوں نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بلند آواز میں پڑھا:
"لا الٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ!"
بس پھر ’اندھا کیا چاہے دو آنکھیں‘ کے مصداق اسی ہوٹل پر ڈیرا ڈال لیا۔
کھانے کے مینیو میں سے ایک تصویر پر ہاتھ رکھ دیا جو دیکھنے میں آلو چکن اور چاول لگ رہی تھی۔ چند منٹ بعد چاولوں کی پلیٹ جس پر آلو اور چکن کی چند چھوٹی چھوٹی بوٹیاں تھیں، میرے سامنے تھی۔ اگلا مرحلہ تھا کہ اسے کھایا کیسے جائے کیونکہ چینی لوگ تو چوپ اسٹکس استعمال کرتے ہیں۔ میری مشکل کو دیکھتے ہوئے وہ بزرگ ایک بڑا چمچ لے آئے، جسے دیکھ کر میں سوچنے لگا کہ ہمارے ہاں تو ایسا چمچ یخنی پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
بسم اللہ پڑھ کر پہلا نوالہ لیا اور ساتھ ہی ساری ایکسائٹمنٹ غائب ہو گئی۔ ادھ پکے آلو اور تقریباً کچا چکن۔ بڑی مشکل سے چاول اور آلو کے قتلے زہر مار کیے اور ادائیگی کرکے ہوٹل کی راہ لی۔ چلتے چلتے خود سے کہا:
"مسٹر محمد حسیب اللہ راجہ صاحب، آپ کو کس کتے نے کاٹا تھا جو آپ چین چلے آئے؟"
انہی سوچوں میں گم، ہوٹل پہنچا، پیر پسارے اور اگلے دن کی فلائٹ کے بارے میں سوچتے ہوئے نیند کی آغوش میں جا سویا۔
تبصرہ لکھیے