ہوم << سفرنامہ: چین: جیسا میں نے دیکھا(2) - محمد حسیب اللہ راجہ

سفرنامہ: چین: جیسا میں نے دیکھا(2) - محمد حسیب اللہ راجہ

گھر سے روانگی - ناقابلِ فراموش واقعہ

بیرونِ ملک روانگی کے وقت جذبات کا ایک عجیب امتزاج دل و دماغ پر چھایا ہوتا ہے۔ ایک طرف بہتر مستقبل کی امید دل میں روشنی جگاتی ہے تو دوسری طرف اپنے پیاروں سے جدائی کا خیال دل کو بوجھل کر دیتا ہے۔ جب میں گھر سے روانہ ہوا، تو میرے ساتھ میرا چھوٹا بھائی اور ڈرائیور تھے۔

سفر کا آغاز ہوا، اور ہم جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ ستمبر 2015 کی بات ہے جب چکلالہ ایئرپورٹ کو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ سنا تھا کہ حال ہی میں اس ایئرپورٹ کی تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ تقریباً سوا گھنٹے بعد ہم ایئرپورٹ پہنچے جہاں زندگی کی رونقیں عروج پر تھیں۔ کچھ لوگ روانگی کی تیاری میں مصروف تھے اور کچھ اپنے عزیزوں کے استقبال میں۔ روانگی کے وقت چہروں پر اداسی کے رنگ تھے جبکہ واپسی پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ ایئرپورٹ واقعی ایک منفرد مقام ہے جہاں بچھڑنے اور ملنے کے مناظر ایک ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

عمارت کے اندر جانے سے پہلے میں نے سوچا کہ واش روم استعمال کرلوں کیونکہ آگے امیگریشن اور سیکیورٹی کے مراحل میں وقت لگ سکتا تھا۔ مگر باہر کے واش روم کی صفائی دیکھ کر دل سخت مکدر ہوا۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ہم عوامی مقامات پر صفائی کا اتنا کم خیال کیوں رکھتے ہیں؟ کیا عوامی جگہوں کی صفائی صرف حکومت یا صفائی کے عملے کی ذمہ داری ہے؟ اگر ہم بیت الخلا کو اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھیں تو بہت سی مشکلات سے بچا جا سکتا ہے۔

خیر، میں نے اپنی سامان والی ٹرالی سنبھالی اور عمارت میں داخلے کے لیے قطار میں لگ گیا۔ جانے سے پہلے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ ایک یادگار سیلفی لی۔ داخلی دروازے پر سکیورٹی اہلکار پاسپورٹ اور ٹکٹ کی جانچ کر رہے تھے۔ عمارت کے اندر داخل ہوتے ہی سامان کی سکیننگ کی گئی۔ میرے بیگز میں کچھ مشکوک نہ تھا لیکن انسدادِ منشیات کے عملے نے مزید معائنہ کے لیے کہا۔ بیگز کھولے گئے اور ایک ایک چیز کو باریک بینی سے چیک کیا گیا۔ سوالات کیے گئے: ’’کہاں جا رہے ہو؟ کیوں جا رہے ہو؟‘‘ وغیرہ۔

تحقیقات کے بعد میں آگے بڑھا اور ایئرلائن کے کاؤنٹر پر پہنچا، جہاں بغیر کسی اضافی سوال کے سامان بک کرلیا گیا اور بورڈنگ پاس تھما دیا گیا۔ یاد رہے، چائنا سدرن ایئرلائن طالب علموں کے لیے خصوصی رعایت دیتی ہے، جس کے تحت 64 کلو سامان لے جایا جا سکتا ہے۔

امیگریشن کاؤنٹر سے پاسپورٹ پر اخراج کی مہر لگوائی، دوبارہ سکیورٹی چیکنگ ہوئی اور آخرکار انتظار گاہ تک پہنچ گیا۔ کچھ دیر بعد سوچا کہ جہاز میں سوار ہونے سے پہلے واش روم چلا جاؤں۔ اس بار واش روم کی صفائی تسلی بخش تھی۔ صاف ستھرا ماحول، مغربی طرز کی ٹوائلٹ سیٹ، مسلم شاور اور ایک چھوٹا سا شیلف بھی تھا جہاں موبائل یا بٹوہ رکھا جا سکتا تھا۔

واپس آ کر اپنی نشست سنبھالی اور اردگرد کا مشاہدہ کرنے لگا۔ کچھ لوگ فون پر مصروف تھے، کچھ میگزین پڑھ رہے تھے اور چند لوگ اپنے پیاروں سے الوداعی باتیں کر رہے تھے۔ میں نے بھی گھر اطلاع دی کہ سب خیریت ہے۔

اسی دوران، لاؤڈ اسپیکر پر ایک اعلان ہوا کہ کوئی شخص اپنا بٹوہ واش روم میں بھول آیا ہے، نشانی بتا کر کاؤنٹر سے بٹوہ وصول کر لیں۔ اعلان سنتے ہی میں نے اپنی جیبیں چیک کیں اور حیرت زدہ رہ گیا—واقعی، میرا بٹوہ غائب تھا!

دل کی دھڑکن تیز ہوگئی کیونکہ بٹوے میں تقریباً 1600 امریکی ڈالر اور چینی کرنسی موجود تھی۔

بغیر وقت ضائع کیے، میں کاؤنٹر کی طرف دوڑا۔ کاؤنٹر پر موجود عملے نے نشانی پوچھی، میں نے کہا: ’’بٹوے کے اندر میری تصویر ہے۔‘‘ انہوں نے تصدیق کے بعد بٹوہ واپس کیا۔ لرزتے ہاتھوں سے بٹوہ کھولا اور جب پوری رقم صحیح سلامت ملی تو دل سے بے اختیار شکر کے کلمات نکلے۔

یوں، یہ سفر نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ جذباتی اور ذہنی طور پر بھی ایک ناقابلِ فراموش تجربہ ثابت ہوا۔

Comments

محمد حسیب اللہ راجہ

محمد حسیب اللہ راجہ پچھلی ایک دہائی سے چین میں مقیم ہیں۔ سائنسی تحقیق کے ساتھ ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ "صنعتی استعمال شدہ پانی کی صفائی" پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ جنوبی افریقہ، ملائشیا، انڈونیشیا اور چین میں رہنے اور کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد مباحثے جیت چکے ہیں۔

Click here to post a comment