یہ گھنٹی مقبوضہ کشمیر کے شہر پلوامہ میں برہان مظفروانی شہید کے گھر بجنے کو تھی، بائیس برس کے اس شہید نے بہت کم عمری میں بڑی مراد پالی تھی، برہان وانی نے پندرہ برس کی عمر میں کرکٹ کا بلا چھوڑ کر کلاشنکوف اٹھائی تھی، سرخ و سپید رنگت والے اس نوجوان نے مقبوضہ کشمیر کی مسلح تحریک آزادی کو وینٹی لیٹر (ventilator) سے اٹھا کر ایک بار پھر ہندو برہمن کی آنکھوں سے نیند نوچ لی تھی ، دل سے سکون چھین لیاتھا۔
نیوز روم میں نمبر ڈائل کرتے ہوئے یونہی سیلانی کی نگاہ سامنے دیوار پر نصب دس ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر پڑی اور پھر ٹیلی فون کے بٹنوں پر اس کی انگلیوں کا دباؤ کم پڑنے لگا، اس کی انگشت شہادت ساکن ہوگئی، سامنے نیوز چینلز کی اسکرینوں کی تہہ میں سرکتے لفظ کچھ ایسی ہی خبر دے رہے تھے، بتا رہے تھے کہ بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ پاکستان پہنچ گئے ہیں۔
ہندو توا کے لیے کام کرنے والی مسلم دشمن انتہا پسند ہندو تنظیموں راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ سے برسوں جڑے رہنے والے اور ان کا ایجنڈا لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی میں آنے والے متعصب راج ناتھ سنگھ پاکستان میں سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد
کشمیر میں مجاہدین اسی طرح ہزاروں لاکھوں کے جلوس میں چپکے سے داخل ہوتے ہیں اور کشمیریوں کو تب پتہ چلتا ہے جب وہ کلاشنکوف لہرا کر تکبیر کا نعرہ بلند کرتے ہیں، انہیں جب معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑوں پر رہنے اور چٹانوں کا سا حوصلہ رکھنے والے مجاہدین ان کے سا تھ ہیں تواس کے بعد جلوس کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ہے، نعروں کا جواب اس شدت سے دیا جاتا ہے کہ وادی کی زمین تھر تھرا اٹھتی ہے، آواز دہلی تک پہنچ کر بنیا مہاراج کے سینے پر سانپ لوٹانے لگتی ہے۔
راج ناتھ ایسے ہی بے چین ہو کر مقبوضہ کشمیر نہیں آیا تھا، برہان وانی کی شہادت کے بعد مظاہروں میں ساٹھ کشمیری بھارتی فورسز کی گولیوں سے چھلنی ہو کر شہید ہو چکے تھے، دو ہزار سے زائد پیلٹ گن کے چھروں کا نشانہ بن کر ساری عمر کے لیے کوئی نہ کوئی معذوری لے چکے تھے، ان میں وہ بچے اور بچیاں بھی تھیں جن کی آنکھوں کی روشنیاں ان چھروں سے بجھ چکی تھیں۔ اس کے باوجود مظاہرے ختم ہو رہے تھے نہ احتجاج، مجبورا گجرات کے قصاب نریندر مودی نے راج ناتھ کو تھپکی دے کر کشمیر روانہ کیا لیکن اس کے ہاتھ کیا آیا؟ راج ناتھ کا استقبال دہلی کی کٹھ پتلی مفتی سرکار کے بعد حریت قیادت کے سخت رویے نے کیا، راج ناتھ سنگھ باوجود کوشش کے کسی بھی حریت رہنما کے گھر پر دستک نہ دے سکا، ملاقات کے لیے وقت نہ لے سکا، علی گیلانی سے لے کر میر واعظ عمرفاروق تک ہر جگہ سے راج ناتھ کو سبکی ہی ملی تھی اور اب عزت مل رہی تھی تو اس پاکستان میں جسے کشمیری خانہ کعبہ کے بعد سب سے مقدس مانتے اور جانتے ہیں۔
سیلانی کا ہاتھ ٹیلی فون کے بٹنوں سے ہٹ گیا، اس کا چہرہ مرجھا سا گیا، کاندھے اور کان کے درمیان دبا ہیڈسیٹ، کریڈل پر آگیا اور وہ خاموشی سے اپنی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا. برہان وانی کے گھر کا ٹیلی فون نمبر حاصل کرنے کی ساری خوشی کافور ہو چکی تھی۔ وہ سیل فون ہاتھ میں لیے اسے خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگا، اس کی دلی کیفیت بڑی عجیب سی ہو رہی تھی. جی چاہ رہا تھا کہ ابھی کال ملا کر مظفر وانی سے بات کرے اور پھر اگلے ہی لمحے کچھ سوچ کر چپکا ہو رہتا، وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اس کے سیل فون نے واٹس ایپ پر کسی دوست کے پیغام آنے کی اطلاع دی۔ پیام کیا تھا کوئی تصویر تھی جسے ڈاؤن لوڈ کرنا تھا، سیلانی نے سیل فون کے بٹنوں سے چھیڑچھاڑ کر کے اسے ڈاؤن لوڈ کیا اور اگلے ہی لمحے وہ ہکا بکا اور پریشان بیٹھا تھا، سیل فون پر کی اسکرین پر کشمیر کے بغیرپاکستان کا نقشہ تھا، یہ تصویر پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی و ی گلوبل کے اسکرین شاٹ کی تھی، اسکرین شاٹ یقینی طور پر کسی خبرنامے کے دوران دکھائے جانے والے فوٹیجز کا تھا جس میں major projects of the China-Pak economic coridoor کا ذکر تھا. اس سرخی کے نیچے پاکستان کا نقشہ بنا کر اس کوریڈور کی راہداری کی راہ دکھائی گئی تھی، ضرور دکھائی جاتی، سو نہیں ہزار بار دکھائی جاتی لیکن سرکاری ٹی وی نقشہ تو پورا دکھاتا، اس کے دکھائے جانے والے نقشے سے کشمیر ہی غائب تھا۔ عجیب اتفاق تھا کہ بھارتی وزیرداخلہ ایک ایسے وقت میں پاکستان آئے تھے جب کشمیر میں تحریک آزادی چنگاری سے الاؤ بن چکی ہے اور ایسے ہی وقت میں سرکاری ٹیلی ویژن اپنے خبرنامے کے نقشے سے ’’کشمیر‘‘ہی غائب کردیتا ہے، ایسا ہی اتفاق بےنظیر بھٹو صاحبہ کے دور وزارت میں بھی ہوا تھا جب پاکستان کے دورے پر آئے راجیو گاندھی کی کھلی پیشانی پر ناراضگی کے بل پڑ جانے کے ڈر سے کشمیر ہاؤس سے اس کے نام کا بورڈ ہی اتار لیا گیا تھا لیکن یہ دور تو بےنظیر بھٹو کا نہیں ان کے شدید مخالف اور کشمیری النسل نوازشریف کا ہے، پھربھی پی ٹی وی ایسی غلطی کر بیٹھا؟
’’اتفاق‘‘ سے ہونے والی غلطی دیکھ کر سیلانی کے دل پر بوجھ بڑھ گیا، تھوڑی دیر پہلے وہ حزب المجاہدین کے شہید کمانڈر برہان وانی
سیلانی فون نہ کرسکا - سیلانی کے قلم سے

تبصرہ لکھیے