ہوم << یوم یکجہتی کشمیر اور ہماری ذمہ داریاں - امیرجان حقانی

یوم یکجہتی کشمیر اور ہماری ذمہ داریاں - امیرجان حقانی

پچھلے پینتیس برسوں سے پاکستان بھر میں یوم یکجہتی کشمیر جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر پاکستانی عوام یک زبان ہو کر کشمیری بھائیوں پر بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور اپنے بھائیوں کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔ اس سال ملک بھر کی طرح ضلع دیامر، بالخصوص چلاس شہر میں، اس دن کو بھرپور انداز میں منانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر دیامر، فیاض احمد، اس حوالے سے متحرک دکھائی دیتے ہیں اور عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے انتظامیہ بھی پیش پیش ہے۔ گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول چلاس میں ایک مرکزی تقریب منعقد کی جا رہی ہے، جسے کامیاب بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ مختلف ڈیپارٹمنٹس، سوشل ایکٹیوسٹ اور اہل علم کو مدعو کیا جارہا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے۔

یوم یکجہتی کشمیر کا پس منظر
یہ 21 جنوری 1990ء کا واقعہ ہے، جب بھارتی تسلط میں موجود کشمیری عوام نے ظلم و جبر کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ سرینگر سمیت مختلف شہروں میں لاکھوں کشمیریوں نے بھارتی قبضے کے خلاف آواز بلند کی، تو بھارتی قابض فورسز نے ظلم و بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے درجنوں کشمیریوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا۔ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور پوری وادی کو لہو میں نہلا دیا گیا۔ کشمیری عوام پر یہ ظلم کی انتہا تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب کشمیری عوام، مرد و خواتین، بوڑھے اور نوجوان، سب یکجا ہو کر قابض بھارتی حکومت کے خلاف میدان میں نکلے اور واضح پیغام دیا کہ وہ آزادی کے سوا کچھ قبول نہیں کریں گے۔ مظلوم کو بہرحال اپنی دفاع میں اٹھنا پڑتا ہے، مظلوم کشمیری عوام بھی اٹھ پڑے تھے۔

مرحوم قاضی حسین احمد کی اپیل
بھارتی مظالم کے خلاف 1990ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے اپیل کی کہ 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جائے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف نے اس اپیل پر لبیک کہا اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے باقاعدہ مہم کا آغاز کیا۔ یہ عوام پاکستان کے ساتھ حکومت پاکستان کی کشمیریوں کے ساتھ ھمدردی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ یوں 5 فروری 1990ء کو پاکستان بھر میں کشمیری عوام کے لیے زبردست حمایت دیکھنے میں آئی۔ ملک گیر ہڑتالیں ہوئیں، جلسے اور جلوس نکالے گئے، اور کشمیر کی آزادی کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔ گھروں، مساجد، خانقاہیں، مدارس، جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں بھی کشمیری عوام کے لیے دعائیں مانگی گئیں۔

بے نظیر بھٹو کی کاوشیں
جب یوم یکجہتی کشمیر ایک مضبوط تحریک بن چکا تھا، تو اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس دن کو سرکاری سطح پر منانے کا اعلان کر دیا اور اسے قومی تعطیل قرار دیا گیا۔ تب سے لے کر آج تک، ہر سال 5 فروری کو پاکستان اور دنیا بھر میں کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ خود بے نظیر بھٹو نے کئی مقامات پر تقاریب سے خطاب کیا اور بھارتی مظالم کی سخت مذمت کی اور کشمیریوں کے ساتھ ہر طرح کی ھمدری کا اعلان بھی کیا۔

کشمیریوں کا حق خود ارادیت
پاکستان کا کشمیر پر مؤقف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے۔ جب بھارت نے اقوامِ متحدہ میں کشمیر پر اپنا دعویٰ پیش کیا، تو پاکستان نے بھی واضح کیا کہ مسئلے کا حل کشمیری عوام کی مرضی سے طے ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو استصوابِ رائے کا حق دینے کا اعلان کیا، لیکن سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود یہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ پاکستانی عوام کسی صورت، کشمیریوں کی حق خود ارادیت سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔

بانی پاکستان کا عزم
قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور اسے بھارت کے چنگل سے آزاد کرانے کے لیے حتی المقدور کوشش کی۔ لیکن افسوس کہ ان کے بعد آنے والی قیادت نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، بلکہ بعض ادوار میں کشمیر پر سودے بازی بھی کی گئی، خاص طور پر مشرف دور اس حوالے سے ایک تاریک باب رہا۔ مشرف کے کالے دور کے بعد بھی پاکستانی حکمرانوں نے کشمیر پر کمزوری دکھائی لیکن پاکستانی عوام ہمیشہ اپنے مظلوم کشمیریوں بھائیوں کے ساتھ کھڑے رہے۔

ایک منٹ کی خاموشی یا بے عملی؟
ہر سال پانچ فروری کو صبح 10 بجے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے، مگر اس کے بعد مسئلہ کشمیر کو غیر سنجیدگی کے ساتھ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ خاموشی اگر عملی اقدامات میں نہ بدلے تو محض ایک رسم بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ ایک علامتی اظہار ضرور ہے مگر اس مسئلہ کو انتہائی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔

بھارتی مظالم کے اعداد و شمار
بھارتی مظالم کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو لاکھوں کشمیری شہید ، ہزاروں افراد حراست کے دوران قتل، ہزاروں خواتین بیوہ اور لاکھوں بچے یتیم دیکھنے کو ملیں گے۔ اسی طرح ہزاروں خواتین کی عصمت دری کی گئی اور لاکھوں مکانات اور عمارتوں کو جلا کر خاکستر کیا گیا۔ یہ اعداد و شمار خود کشمیریوں اور عالمی نشریاتی اداروں کے بیان کردہ ہیں۔ یہ مظالم آج بھی جاری ہیں، مگر اب خود بھارت کے اندر بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ دہلی کے طلبہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیمیں بھی بھارتی ریاستی دہشت گردی کو بے نقاب کر رہی ہیں۔

مسئلہ کشمیر کا حل اور ہماری ذمہ داریاں
مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہمیں محض تقریروں اور جلسوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے، جن میں چند اقدامات بہت اہم ہیں ۔

١. قومی اتفاقِ رائے
پاکستانی کی وفاقی پارلیمنٹ ، چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اسمبلیوں کا مشترکہ اجلاس بلا کر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصوابِ رائے کا مؤقف اپنانا ہوگا۔

٢. سفارتی محاذ
عالمی سطح پر منظم سفارتی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ ایک مستقل کشمیر ڈپلومیسی کمیٹی بنائی جائے جو تحقیقی بنیادوں پر دنیا کو قائل کرے۔

٣. مسلم دنیا کا کردار
او آئی سی، عرب لیگ، وسطی ایشیائی ریاستوں، عرب ممالک، چین اور روس جیسے ممالک کو مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے متحرک کرنا ہوگا۔ اور انہیں اس بات پر قائل کرنے کے لیے پاکستان کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

٤. بھارت پر دباؤ
بھارت کو ہر سطح واضح پیغام دینا ہوگا کہ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر تجارتی تعلقات ممکن نہیں۔ کشمیر کی جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنے کی بھارتی کوششوں کو عالمی سطح پر مسترد کیا جانا چاہیے۔اور اس کے لیے شاندار میکنیزم تیار کرنا ہوگا۔

٥. میڈیا کا مؤثر استعمال
قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر کشمیریوں کے حق میں دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ مؤثر مہم چلائی جائے تاکہ عالمی رائے عامہ کو بھارت کے مظالم کے خلاف ہموار کیا جا سکے۔

یوم یکجہتی کشمیر صرف ایک رسم نہیں، بلکہ ایک عہد ہے کہ ہم کشمیری عوام کے حق میں اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔ مگر یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم عملی اقدامات کریں اور محض زبانی ہمدردی کے بجائے عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لیے مضبوط حکمت عملی اپنائیں۔ ایک بات مسلم ہے کہ جب نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بنے تو انہوں نے سفارتی اور میڈیائی سطح پر پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا تھا اور یوم یکجہتی کشمیر کا دن بھی دنیا بھر میں مختلف طریقوں سے منایا جانے لگا تھا۔ بہرحال ہمیں یہ دن صرف تقریروں اور جلسوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ سفارتی، سیاسی، اور ابلاغی محاذ پر جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا تاکہ مظلوم کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت دلایا جا سکے۔

آئیں! ہم اپنی اپنی سطح پر 5 فروری کو "یوم یکجہتی کشمیر" کو منظم انداز میں منانے کی کوشش کریں اور نوجوان نسل کو آگاہ کریں۔