سرائیکی وسیب اپنی ثقافتی اقدار، روایات اور منفرد شناخت کے ساتھ، ایک زرخیز خطہ ہے۔ یہاں کے نوجوانوں میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں، نہ ماضی میں رہی ہے۔ ہاں البتہ ماضی میں مواقع کم ہونے کی وجہ سے یہ صلاحیتیں وہیں کی وہیں رہ جایا کرتی تھیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ٹک ٹاک اور یوٹیوب نے انہیں اپنی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ایک بہترین موقع فراہم کیا ہے۔ چند ہی سالوں کے اندر سرائیکی وسیب میں عام طور پر اور جنوبی پنجاب خاص طور پر ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کی ایک بڑی کھیپ تیار ہوگئی ہے۔
ان میں سے کچھ مزاحیہ ویڈیوز بناتے ہیں، کچھ معلومات افزا، کچھ اپنی گلوکاری کے جوہر دکھاتے ہیں، اور کچھ سماجی مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔ روایتی اور غیر روایتی رقص اور شاعری پر مبنی کثیر مواد بھی بن رہا ہے جو کہ ملینز میں وویوز لے رہا ہے۔ اس طرح کا مواد عموماً نوجوانوں میں مقبول ہوتا ہے، اور بنانے والے کم وقت میں شہرت کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں۔ان کی ویڈیوز سے نہ صرف تفریح فراہم ہوتی ہے بلکہ وسیب کے حوالے سےمعلومات بھی ملتی ہیں۔
جہاں تک سرائیکی ثقافت کی بات ہے، کچھ ٹک ٹاکرز اور یو ٹیوبرز اسے بہت خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔ ان کی ویڈیوز میں سرائیکی ثقافت و روایات کی جھلک نظر آتی ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ایک طرف یو ٹیوب اور ٹک ٹاک کے یہ چینلز سرائیکی ثقافت، رہن سہن، اور روایات کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی بدولت سرائیکی گیت ، مقامی لباس، رہن سہن، کھانوں، زبان، اور روایات کو فروغ مل رہا ہے، وہیں دوسری طرف اس خوب صورت ثقافت کو داغ دار بھی کر رہے ہیں۔ ان داغ دار کرنے والے تخلیق کاروں کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے نمبر پر ہیں وہ لوگ جو مزاحیہ ویڈیوز کے نام پر گالیوں اور غلیظ زبان کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ ذو معنی جملے اور پھکڑ پن گویا بد نامِ زمانہ سٹیج ڈراموں کو بھی مات دے رہا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک تیزی سے معروف ہوتے چینل پر دو انتہائی کمسن بچے انتہائی گھٹیا اور واہیات زبان و بیان استعمال کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے لیےسکرپٹ یقیناً کوئی بڑا ہی لکھتا ہوگا پر وہ سکرپٹ اتنے کم عمر اور معصوم بچوں سے پیش کروانا اور ان سے اس قسم کی زبان استعمال کروانا کسی صورت درست نہیں۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے ایسے کئی چینلز موجود ہیں۔ دوسری طرف خواتین کی ایک کھیپ ہے جو کہ دیہی زندگی دکھانے کے نام پر پتا نہیں کیا دکھا رہی ہیں۔ اس قسم کی ویڈیوز میں سرائیکی ثقافت کو غلط طریقے سے بھی پیش کیا جاتا ہے، جس سے کئی غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ جب ان ٹک ٹاکرز اور یو ٹیوبرز کا نوجوان گہرا اثر لیتے ہیں۔
کارل ہاولینڈ سے لے کر آج تک کے میڈیا ریسرچرزکا ماننا ہے کہ میڈیا کسی بھی ثقافت کو مقبول بنانے کی قوت رکھتا ہے ۔ ابلاغِ عامہ کی دنیا سے تحقیقی کام اٹھا کر دیکھ لیں میڈیا کے اثرات پر جس قدر کام ہوا ہے اور کسی موضوع پر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے ملک میں یہ محقیقین کا پسندیدہ موضوع رہا ہے اور ابھی بھی ہے۔ انڈین ڈراموں اور فلموں کے ہماری ثقافت پر اثرکے حوالے سے بہت کام ہوا ہے، موجودہ حالات میں سوشل میڈیا کے اثرات کے حوالے سے بہت کام ہو رہا ہے۔ ایسے میں آج اگر کوئی محقق اس موضوع پر تحقیق کرے کہ ٹک ٹاک اور یوٹیوب کے لیے مواد تخلیق کرنے والوں کی وجہ سے سرائیکی ثقافت کو کیا فایدہ یا نقصان پہنچ رہا ہے تو یہ ایک اچھا موضوع ہوگا۔
آج آپ دیکھیں جو کچھ سوشل میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے (روایتی میڈیا کی بات جانے دیتے ہیں کیونکہ اس کے حوالے سے ہمیشہ شکوہ کیا جاتا رہا کہ گھروں میں کام کرنے والی یا جرائم پیشہ عورتوں کا تعلق سرائیکی وسیب سے دکھایا جاتا ہے)۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب کو جس طرح دکھایا جا رہا ہے اور جس طرح کی ثقافت کا عکس یہ ٹک ٹاکر اور یوٹیوبرز پیش کر رہے ہیں کیا وہی سرائیکی ثقافت ہے؟ اس قسم کا مواد دیکھ دیکھ کر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ سارے سرائیکی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اچھی صاف ستھری زبان بولتا ڈیسنٹ بندہ یا بندی کہے میں سرائیکی ہوں تو لوگ حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ گالی اور بد دعائیں تو خیر سرائیکیوں کی زبان پر ایسے چڑھی ہوتی ہیں جیسے محاورے مگر ا س کا مطلب یہ نہیں کہ پوری کی پوری ثقافت چھوڑ کر صرف انہی کا اظہار کیا جائے۔ کیا بغیر گالی کے یا بے ہودہ یاوہ گوئی کے مزاح تخلیق نہیں ہوسکتا؟ سرائیکی تو اس قدر میٹھی زبان ہے کہ اسے سننا خود میں ایک پر لطف تجربہ ہے ۔ مگر اسے اس قدر بد نما بنا کر پیش کرنے والوں کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔
تبصرہ لکھیے