رشید ایک مزرود پیشہ آدمی ہے. دیہاڑی لگ گئی تو ٹھیک ورنہ فاقہ. گاؤں کے عمومی رواج کے مطابق اس کی شادی اس کی خالہ زاد بہن سے کر دی گئی تھی جو کہ پیدائش سے ہی اس کی "منگ" تھی. پہلا حمل تیسرے ماہ میں ہی ضائع ہوگیا. دوسری بار میں اللہ نے چاند سا بیٹا دیا. پورے خاندان نے خوب خوشیاں منائیں. 6 ماہ تک بچہ خوب پھلا پھولا اور ہر ایک کی آنکھ کا تارا بنا رہا. پھر اس کی ماں نے محسوس کیا کہ اس کا رنگ دن بدن پھیکا پڑتا جا رہا ہے. گاؤں کے ڈاکٹر کو دکھایا، اس نے چند شربت لکھ دیے پر افاقہ نہ ہوا. پھر جب اس کا پیٹ بھی بڑھنا شروع ہو گیا اور رنگ پیلا پھٹک پڑ گیا تو والدین کو تشویش ہوئی اور شہر کے بڑے ہسپتال لے گئے. ڈاکٹر نے معائنہ کیا تو اس کے چہرے کے تاثرات کچھ بدل سے گئے. اس نے کچھ مہنگے ٹیسٹ لکھ دیے کہ یہ کروا لائیں، ان کے بعد ہی مرض کی تشخیص ہو گی؛ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس کے جسم میں خون کیوں نہیں بن رہا. جیسے تیسے رشید نے مشہور اور مہنگی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروائے تو ڈاکٹر صاحب نے یہ روح فرسا خبر سنائی کہ ان کے چاند کو "تھیلیسیمیا" جیسا موذی مرض ہے اور یہ کہ اس کی زندگی کا دار و مدار اب مسلسل انتقال خون پر ہوگا. ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ یہ موروثی بیماری ہے اور کزن میرج سے اس کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہے. مزید یہ کہ اگلے ہر حمل میں بڑے ہسپتال سے لازمی چیک اپ کروائیں. گاؤں میں گھر والوں کو پتہ چلا تو ڈاکٹر پر دو حرف بھیجے اور بچے کو پیر صاحب کے پاس دم کروانے لے گئے. اگلے چند دنوں میں جب بچہ آخری سانسوں پر آ گیا تو پھر شہر کو دوڑے جہاں چار بار خون لگا تو تب جا کر بڑی مشکل سے جان بچی. اگلا حمل بھی گاؤں کی جدی پشتی ماہر دائی کی زیر نگرانی گزرا. اس بار بھی بیٹا ہوا. مگر وائے قسمت،..... نہیں، بلکہ وائے حماقت، یہ بچہ بھی 6 ماہ کی عمر میں پیلاہٹ کا شکار ہوا اور بالآخر "تھیلیسیمیا" کا مریض نکلا.
یہ اکیلے رشید کی کہانی نہیں بلکہ وطن عزیز میں سالانہ 8000 'رشیدوں' کے گھر کزن میرج اور حمل کے دوران نامکمل چیک اپ اور سب سے بڑھ کر 'جہالت' کی بدولت اس موذی مرض میں مبتلا بچے پیدا ہو رہے ہیں. ان بچوں کو اور ان کے والدین کو پھر باقی عمر علاج کے سلسلے میں جس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے وہ ایک الگ المیہ ہے. اور جس گھر میں دو بچے تھیلیسیمیا کے ہوں، ان کی کسمپرسی کا میں اور آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.
حال ہی میں پنجاب حکومت نے ایک نہایت مستحسن اقدام کے تحت تھیلیسیمیا کی سکریننگ اور علاج کو سرکاری سرپرستی میں لے لیا تھا اور کئی شہروں میں اس ادارے کے دفاتر قائم کیے گئے. لیکن انگریزی کہاوت ہے "Prevention is better than Cure" یعنی اسباب کا سد باب علاج سے بہتر ہے. اسی سمت درست قدم اٹھاتے ہوئے حکمران جماعت کے سینیٹر چوہدری تنویر خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک ایسا بل پیش کرنے جا رہے ہیں جس کے مطابق نکاح سے قبل لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے خون کے سکریننگ ٹیسٹ کروانے لازم ہوں گے جن سے ہیپٹائیٹس، ایڈز اور تھیلیسیمیا جیسے موذی امراض کی قبل ازوقت تشخیص اور اگلی نسل میں ان کی منتقلی کو روکنے میں سہولت ہو گی. ان ٹیسٹوں کے بغیر نکاح رجسٹرار نکاح نامہ جاری نہیں کر سکے گا.
میڈیکل حلقوں سے اس قسم کی قانون سازی کے لیے بڑے عرصے سے مطالبات جاری تھے. حالیہ اقدام سے اس جانب اہم اور مثبت پیش رفت ہوگی. واضح رہے کہ کئی مفتیان نے حمل کے پہلے تین ماہ کے اندر بچے میں تھیلیسیمیا کی تشخیص کی صورت میں اسقاط حمل کے جواز کا فتوی دے رکھا ہے. البتہ یہ اقدام اس لحاظ سے اہم ہے کہ نہ ایسے حمل ہوں اور نہ ان کے اسقاط کی نوبت آئے.
تبصرہ لکھیے