ہوم << صبر اور ادب:اسلامی تہذیب کے دو اہم پہلو - سعد احمد

صبر اور ادب:اسلامی تہذیب کے دو اہم پہلو - سعد احمد

راشد، تمہیں پتہ نہیں خوشی ہو یا نہ ہو مگرآپ ابے والے روح افزا افراد کی کیٹیگری میں شامل ہوئے جاتے ہو۔تم سے ناراضگی کسی طور کی نہیں، پابندی سے تم سے گفتگو ہوتی ہے، حلم و تورع کی رعنائی سے جب کبھی معانقہ ہوتا ہے تو تُو ہی میرا عنقا ہوتا ہے۔ ابے سن تو، ایک فرید فرید العصر تھا اور ایک تو میرا عنقا ہے۔ کہتے ہیں عنقا ایک ایسا پرندہ ہے جو انپے کامل وصف اور نادر حسن کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ حسن اتفاق ہے کہ چند عرصہ پہلے دور کے کچھ جنگلوں میں ایک ایسے ہی پرندے کی دریافت ہوئی ہے جو اب بھی مسحورکن حسن اور گوناگوں خصائص جسمیں انسانوں یا جذباتوں کا قتل بھی شامل ہے کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔راشد تمہیں خدا معاف کرے لیکن تم میرے زمانے سےیوں نا پید ہوئے ہو جیسے اواخر عمر میں سید سلیمان ہندی تزہد اور یونانی تصوف کی وادیوں میں جار کر کمیاب ہوئے۔

خیر سے حالیہ دنوں میں معاملہ کچھ یوں ہو رہا ہے کہ پڑی پہ پھنس جاتی ہے۔ خوش بختی کی راگنی الگنی میں لٹک جاتی ہے۔ تم نے مار کو آہن سے دوستی کرتا ہوا نہ سنا ہو گا اور نہ دیکھا ہو گا، تم آج کل کے سعد سے ملو، دیکھو گے اس کی آستین میں مار و آہن کی خوب چَھن رہی ہے۔ میرا سایہ مری ہی گھات میں بارہا چکمہ کھاتا ہے اور میری افتاد پر شعلہ جوالہ گراتا ہے۔ ضبط اورتحمل نے میرے شعور کی ریخیں نکال دیں ہیں ، اور اُس گورکھ ذات کے حکم کا انتظار یوں ہے کہ جیسے کسی دہلیز پہ فانوس تنہا جلتے جلتے بجھنا چاہتا ہے، مگر سودائی طبع پر نہ جانے کون سیماب پارے نثر کر دیتا ہے،نتیجتا، فانوس یک دم سے بھڑک اٹھتا ہے ۔ دریافتوں کا کیا کہوں خون اجالنے اور خاک نکھارنے کا ہنر یقینا کسی کو بھی عہد یخ کا مانُس بنا دے گا۔ چائے میں زہر ڈال کر پینا اپنوں کی خوش کلامی اور ہمدردی سے زیادہ آسان ہے۔ راشد جب پہلے پہل مجھ پہ قسمت کی بھٹیارن مہربان ہوئی تھی تو میں گلنار و چنار بنا ناز سے دلکی چال چلا کرتا تھا، زمرد و مرجان کی مانند خوب دمکتا تھا مگر برا ہودباغ مزاجوں کا اور زیات صفت واقعات کا کہ لڑکے کی جان لے لی۔ ابے سچ میں،ولید مر گیا، حنیفہ عدم میں گم ہوئی۔ قسمت نے نئی زیست پہ دستخط کی ہی تھی کہ مکائد میں گرفتار حالات جھٹ کیاریوں کو پامال کرگئے۔ راشد جب پہلے پہل مجھ پر صاعقہ جاں سوز گری تھی طفل بے پرواہ کی ایک ہی خواہش تھی؛ اس قدر زور سے چیخوں کہ افلاک و بلدان کی حسیات شل ہو جائیں۔ مگر خواہشِ طفل اور حسن کے بخار کی پرواہ کسے ہوتی ہے۔ گیا سال طفل بے پرواہ کے لئے بڑا طویل تھا۔یار، تیرا یار بوڑھا ہو گیا۔

یار راشد، ایک مسئلہ در پیش ہے، زمان کو مکان کیوں نہ سمجھا جائے ، یعنی ماضی کو آپ کے پائیں باغ کا ایک دریچہ کیوں نہ گمان کیا جائے۔مستقبل کو آپ کا گلیارہ اور حاضر نامی سراب کو چشم صنم سے دیکھا ہوا محض ایک خواب ۔ زمانہ تو بس ہماری چیز ہے یعنی ہماری انسانی حرکات و سکنات کا انتاج۔ لہذا، زمانہ ایک طور کا صندوق ہے جو یادوں کے خزانے میں کسی نہ کسی طاقچہ کا حصہ بنا کرتا ہے۔ بہت سے طاقچے الگ الگ انسان، تہذیب، اور معاشرے کی یادوں کے مکان میں اپنی اپنی یاداداشتون کو سنبھال رکھتے ہیں۔ امے اچھا، اس مسئلہ کو بعد کے لئے چھوڑو۔
راشد، میرا ایک دوست ہے جسے میں برہمن سلفی کہا کرتا ہوں۔ ہاں وہ دائرہ اسلام میں داخل تو نہیں مگر اشیاء کو سمجھنے کا اس کا انداز ازمنہ وسطی کے سلفی علماء کی طرح سا ہے۔ اب یہ نہ کہہ دینا سلفیت تو نئے زمانے کی پود ہے، اس مسئلہ میں میرے نناوے تحفظات ہیں، جن میں سے اکثر سے تم باخبر بھی ہو۔ میرا برہمن سلفي دوست اسلام کو اپنے زاویئے سے پڑھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اسلامی تہذیب و ثقافت نے علی العموم معاشرے کو دو اہم عناصر سے روشناس کرایا ہے ، اول تو صبر ہے اور دوئم ادب۔ اب یہ نہ بولنا عربی ادب یا اردو ادب، شاعر ی یا تواريخ، نثر یا نظم۔ صبر تو دراصل یہ اسلامی ثقافت اور معاشرت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ صبر یہ تو قطعا نہیں ہے کہ آپ کو عصمت بی بی نے پانی نہ دیا تو آپ اپنا سا منھ لٹکا لیں اور صبر کے گھونٹ پی لیں بلکہ صبر عین صبر کوئی اور چیز ہے۔ وہ کہا کرتا ہے کہ صبر اور ادب کو اولا تو تہذیب اور ثقافت کی بحث میں لاو، پھر یہ دیکھو طوسی، ٓاریہ بھٹ اور گلیلیو تینوں ایک نتیجے پر پہونچنے کے لئے کس قدر پابندی سے ایک مقررہ وقت میں سیاروں کی تحریک کو سپرد قرطاس کیا کرتے ہیں۔ چلو اسے کچھ اس طرح سے سمجھو، موذن ،اذان، نماز اور مقرر ہ وقت یہ سارے عناصر مل کر ارکان یا ریچوئیل تیار کیا کرتے ہیں ، پریکٹس، عمل، پروفیشن، ووکیشن، کمٹمنٹ کا ایک پئے در پئے سلسلہ ہوتا ہے پھر جا کر ایک ہالہ تیار ہوتا ہے اور اس کے بعد اس ہالہ کے اندر سے جذباتی کاروائیوں کو ضبط کرنے کے نظام کو صبر سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ مؤذن، اذان، نماز اور مقرر وقت ان عناصر میں سے کسی نے بھی اپنی جگہ چھوڑی ایک نظام کے بننے میں رخنہ پیدا ہو گیا۔ صابر، صبر ، فرداور وقت میں سے کسی نے بھی اگر صبر سے خود کو منسوب کیا اور اس کے معنی سے اعراض،تو وہ گویا نظام صبر میں داخل ہوا ہی نہیں۔

وہ کہتا ہے کہ ادب صرف الفاظ اور معانی کے لبادوں کو اوڑھنا اور اتارنا قطعی نہیں۔ ادب لسانیات کا جامہ پہننا بھی نہیں، ادب احترام اور عزت بھی نہیں بلکہ ادب ایک پورے ثقافتی سلوک کا نام ہوا کرتا ہے۔ ادب آپ کے لطیفوں سے لیکر بذلہ سنجی اور صنائع و بدائع ہوا کرتے ہیں۔ اس کی تعمیر میں مرد و زن دونوں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔ صراحی کی تخلیق اگر ایک جانب ادب ہے تو بطخ کا اپنے بچوں کو سیر پر لے جانا بھی ادب ہے۔ رنگوں کو پہچاننا ادب ہے تو کھانے کا انتظام اور اہتمام بھی ادب ہے۔لذتوں کو برتنا ادب ہے تو لذتوں سے اعراض بھی ادب ہے۔ ادب آپ کا جانوروں اور پرندوں سے معاملت کا نام ہوا کرتا ہے۔ ادب آپ کے کسانوں، جوانوں، بچوں، بوڑھوں، لڑکے لڑکیوں کو ایک خاص اندازمیں ملنا جلنا سکھاتا ہے۔ ادب سچ اور جھوٹ،غلط اور صحيح، اچھا اور برا کے درمیان فرق کرنا سکھتا ہے۔ اور ان سارے عمل کے دوران جابر و ظالم سے سابقہ پڑنے پر سینہ سپر ہو جانا بھی ادب ہے۔ ادب ایک سویلائزیشنل عمل ہے۔ اور جس ادب کی بنیاد صبر پر رکھی جائے اس کے تو بھئی کیا کہنے۔

راشد، بڑی عجب بات ہے کہ ضحاکوں کے اس دورمیں ایک افیمچی، یا مذہبی افیمچی خود کو سرمد و پروانے سے برتر نہ صرف گمان کرتا ہے بلکہ حیران کن رعونت کے ساتھ ران پہ تال ٹھوک کے ضحاکوں کے نعلین کے مقدس ہونے کی دہائی بھی دیتا ہے۔ معاملہ اب صرف اصحاب خر عیسی کی طمطراقیوں تک محدود نہیں رہ گیا۔ معاملہ یقین و ایمان کی سخت جانی پر سوال اٹھا رہا ہے۔ کفران و كتمان اپنے اوج پر ہے ۔ سرخ و سیاہ کے مالکوں نے نو زائیدوں تک کے ذہن پر وہ شب خون مارا ہے کہ اللہ کی پناہ! کوئی سن کے نہیں لیتا۔ وہ تہذیب جس کا اتحاد صبر اور ادب کے ہونے سے مستحکم ہوا تھا اب وہ شائد صبر اور ادب کے نہ ہونے سے متنشر ہو جائے۔ ۔۔۔یا ہو گئی ہو۔ شائد تم بھی مارے جاچکے ہو اور قوی احتمال یہ بھی ہے کہ میں بھی دفن کر دیا گیا ہوں۔

راشد، اپنے ابو العتاھیہ کی نصیحت سن لے؛ بلاشبہ بہترین زندگی وہی ہے جس میں تو محو ہے، ہاں، اس دلربا کو کھڑکیوں سے جھانک کر دیکھنا چھوڑ دے جسے شہرت کہتے ہیں کیا پتہ اس کا دل تجھ پر پہلے ہی آچکا ہو۔ اب جو تیرے پاس آنا ہی چاہتی ہے اس پر خود سے دل پھینکر باولا نہ بن۔ کبھی یوں بھی کیا کر، سوکھی روٹی کا ٹکڑا لے، اسے ٹھنڈے پانی سے گھونٹ جا، ایک حقیر سی کوٹھری جو کہ ایسی جگہ ہوجہاں کو ئی متروکہ مسجد بھی ہو، وہیں خود کو محسور کر لے ، جہاں تو اس کے ستون سے لگر مطالعہ کیا کر پچھلوں سے عبرت لے، بے شک محلوں کی لذتیں روح میں جاگزیں نہیں ہوتیں۔