ہوم << راموز- پروفیسر فضل

راموز- پروفیسر فضل

اشاعت سے قبل اس رزمیہ نظم کا نام "نئی آگ کا عہد نامہ" تھا۔ یہ نظم اٹھارہ الواح (ابواب، فصل یا حصوں) پر مشتمل ہے۔ راموز میں الواح کو ترتیب خالد احمد انصاری نے دی ہے اور مصوری دانش رضا نے کی ہے۔ اس نظم کی کئی الواح کے گم ہونے کے متعلف بھی افواہیں زیر گردش ہیں، مگر اس کی توثیق اب تک نہیں ہوئی ہے۔

تاہم، یہ متفقہ امر ہے کہ راموز ایک نامکمل نظم ہے۔ جون ایلیا کی خواہش تھی کہ کم سے کم یہ نظم پچاس ہزار سطروں پر مشتمل ہو، مگر وہ اس مشن میں ناکام رہے۔ میرے لیے یہ نظم خودی اور خودشناسی کی معراج کا درجہ رکھتی ہے، اگرچہ جون نے اس کی تکمیل میں مجرمانہ غفلت برتی ہے۔ اس نظم میں خدا کے ہونے یا نہ ہونے سے قاری کو جون سے اختلاف کا حق حاصل ہے، مگر یہ امر طے ہے کہ کم سے کم انسان تو وجود رکھتا ہے۔ یہ نظم پہلے مرحلے میں اندھا دھند مذہبی تقلید کے عروج کے بعد سائنس و منطق کے زوال اور دوسرے مرحلے میں سائنسی ترقی کے بعد فکری زوال کا نوحہ ہے۔ یہاں میں نے مرحلہ وار ہر لوح کو آسان اردو میں لکھنے کی کوشش کی ہے۔

لوحِ کتاب: جون کو علم ہے کہ سماج میں عفونت اتنی سرایت کرگئی ہے کہ اب اشرافیہ کے بجائے اجلاف بھی قلم، کتاب اور معتدل آوازوں کے مخالف بن گئے ہیں۔ ان معاصر متضاد راسخ فکری و اعتقادی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جون نے قلم اٹھا کے ایک ایسی کتاب لکھنے کا عزم کیا ہے، جس میں اس گھٹن اور عفونت سے پیدا شدہ تمام درپیش مسائل کا حل موجود ہو۔

لوحِ رجز: یہ دنیا ایک سیل گاہِ قوت ہے، جو علم و دانش اور محنت و مشقت کے بل بوتے چل رہی ہے۔ جو لوگ ان صفات سے عاری ہوں، وہ جلد فنا ہوجاتے ہیں۔ جون فکر مند ہے کہ مشرق کے لوگ لایعنی اور لاحاصل پوجا میں مصروف ہیں، جن میں آگے بڑھنے کا احساس ختم اور جینے کی خواہش مر چکی ہے۔ یہ قبیلہ جن رہنماؤں کے رحم و کرم پر ہے، وہ خود پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مشرق کی تپش سے ایک دنیا حدت حاصل کرتی رہی۔ اس کی سرفراز اور ذوالجلال آگ کی برکت سے کائنات کی شان و شوکت ہوا کرتی تھی۔ آج زمانہ بدل گیا ہے اور مشرق جگ ہنسائی کا سب بن گیا ہے۔ اس کی عظیم تاریخ کے الاؤ پر زندگی رقص کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے مشرق اس تبدیلی پر برہم ہونے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتا۔

لوح آمد: اس تعطل کو حرف آخر رکھنے کے لیے جون کا دعویٰ ہے کہ میں تمھاری بستی میں خدا کا بھیدی بن کر آیا ہوں۔ انھوں نے ایک پیغام لایا ہے کہ خدا نے کہا ہے کہ زمین والے آسمان کے آسرے پہ نہ بیٹھیں۔ یعنی نہ ہونے والے (خدا) کو ہونے والوں (اپنا/زندہ انسانوں) کا دکھ نہ سونپو۔ خدا اگر ہے بھی تو کسی کا نہیں ہے۔ اس لوح میں جون نے وجودیت کی زبان میں انسانوں کو سمجھایا ہے کہ وجود ایک ہے جو تمھارے اندر ہے۔ اس لیے اپنے حرکات، سکنات اور اعمال کا خود ذمہ دار بن زندگی گزارنا سیکھ لیں۔

لوح خطاب: اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے دعوے کرنے والوں کو سماج کی جانب سے جحود (مجذوب، ملنگ، پاگل) سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ بستی میں ایک ملامت گر، زندیق اور ملحد آیا ہے۔ لہذا اپنے گھروں کے دروازے اور کانوں کے پردے بند رکھیں۔ وہ بستی کو عتاب خداوندی اور عذاب الٰہی میں مبتلا کرنے جا رہا ہے۔ سو، بستی کے دروازے اور کانوں کے پردے بند ہوگئے، مگر سماج میں ابھی چند سمجھنے والے (مرداس اور الیاس) موجود تھے۔ انھوں نے جحود کو خوش آمدید کہا۔ جحود نے اونچے چبوترے پر چڑھ کر خطاب کیا: ہے کوئی خدا میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، نیچے؟

نہیں! تمام امثال، اضداد، ارواح اور اشباح بے ثبوت اور بے حوالہ ہیں۔ کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں، بہتر ہے ہار مان لو۔ میں جہل اعلیٰ کا مدعی ہوں۔ تم تو سمجھ دار ہو، مگر یہ بتاؤ کہ کیا یہی وہ آدم ہے جس نے وجود باری کے سامنے پیش ہونا ہے؟ اے آدم! تو آب گندہ ہے، جس کو مجہول شہوتوں نے جھٹک دیا ہے۔ اے آدم! تیرے وجود کی قبا یک سر غلط سلی ہوئی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تیرے تمام ٹانکے اُدھیڑ کر از سرنو ترتیب دے دوں۔ میں اپنے سب کچھ کا ذمہ دار اور سزاوار ہوں۔ میں روح اعلیٰ کا نوحہ خواں ہوں۔ روح اعلیٰ، حجاب اقصیٰ اور تیرا سہارا کہیں وجود نہیں رکھتا۔

لوح مکاشفہ: ہر قسم کے سہارا سے بے سہارا ہوکر جون اور سفید روحوں (مرحومین/مابعدالطبیعاتی ارواح) نے زمین پر رہنے والے زندہ انسانوں کی تاریخ پڑھی، ان کے فیصلوں پر نظر دوڑائی اور حتمی فیصلہ کیا کہ ان کی آبادیوں اور محلات کو تباہ کردیں گے۔ کیوں کہ زمین پر انسانوں کے روپ میں بلاؤں کا بسیرا ہے اور وہ جلد اپنی انتہا کو پہنچیں گے۔ اے انسانو! پناہ مانگو، میں آرہا ہوں اور میرے پیچھے دریدہ ملبوس سفید ارواح کا ایک بہت بڑا سیلاب بھی آرہا ہے۔ پناہ مانگو!

لوح دائرہ: جون نے اپنے ہونے کا الزام اپنے سر لے کر زندگی بیتی۔ اب حالت نزع پر لب کشاں ہے کہ میں پھر نہیں آؤں گا اور نہ پھر میری آواز آئے گی۔ میری آواز اور میرے الفاظ میرے لیے مصیبت ٹھہرے۔ میں ایک سنگین مجسمہ ہوں۔ جب زمین اپنی گردشوں کا حساب پورا کرے گی، یعنی جب قیامت برپا ہوگی تو میں شکایت کروں گا کہ خدا کے لوگوں نے میرے لوگوں کا خون پی کر نجات حاصل کرلی ہے۔ لیکن میں لوگوں کا خون پینے کے بجائے ایک دوشیزہ کے گرم جوان رانوں، نرم و نازک گول پستانوں اور شگافِ آتشیں کا خون پی کر نجات حاصل کرنے کی تلاش میں ہوں۔ مجھے خون پینے دو! مجھے محبت کا خون پینے دو!

لوح ضرب:جون عمر بھر چھے طرفی کائنات کا مشاہدہ کرتے کرتے تھک گیا ہے۔ ان کو ہر سمت کامل، دوسری سمت سے مختلف بل کہ مخالف نظر آئی۔ بدقسمتی سے ان کو مثل حرف کائنات کی صرف ایک سمت پر نوشتہ کیا گیا۔ اس حرف کو جب اپنی حیثیت (میں) کا علم ہوا تو حرف الفاظ میں اور الفاظ اوراق میں تبدیل ہوگئے۔ جب اوراق کا سامنا اندھیاؤ سے ہوا تو میں چھے سمتوں میں پھیل گیا۔ اب میں دو ذاتوں 'میں' اور 'تو' میں منقسم ہوگیا۔ میں دھول اور تو دھند ہے۔ اب جون اپنے 'میں' کے ساتھ ساتھ اپنے باقی پانچ 'تو' کا بھی خواب بنا ہوا ہے۔ وہ خواب جو تھک گیا ہے، مگر ہارا نہیں۔

الا یللّی: جہاں جو بھی قتل ہورہا ہے وہ جون ہے۔ جون کی لاشیں اور جنازے جون ہی کے کندھوں پر لیے جاتے ہیں۔ ہر جگہ جون مدفون ہے۔ جب سب مرجائیں گے اور دفن ہوں گے تب اصل جون بھی اپنی قبر خود کھودے گا اور اپنی تکفین و تدفین کا بندوبست بھی خود کرے گا، لیکن اس بندوبست کے لیے ان کو خود ہی اٹھنا ہوگا۔ جی ہاں، جون اٹھ گیا ہے!

لوح مسافت: جون کائنات کے ہرذرے کا مشاہدہ کرنے آیا ہے۔ ہر طرف خلا ہی خلا اور روشنی ہی روشنی ہے۔ انھوں نے بے انت مسافتوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ تم بھی جاکر سیکھ لو۔ کیوں کہ وجود کی رسائی لامحدود کہکشانوں تک ہے۔ لوگ یوں ہی جون کو جاہل مطلق سمجھتے ہیں۔

لوح وجود: تم تو ہوشیار ہو۔ جون کی آنکھ لگی نہ تھی کہ تم نے ان کے سینے پر شہر در شہر تعمیر کردیے۔ گلیوں اور کوچوں میں ہر طرف بلند و بالا عمارات، محلات اور مشینیں نظر آتی ہیں۔ شہروں کی تعمیر کے بعد افکار و اذہان کی تعمیر کیسے کروگے؟ کوئی ہے جو جون ایلیا کو دریافت کریں اور اپنی فکری تہذیب کی احیا کریں؟

لوح عوام: اے نام نہاد مذہبی اور سیاسی رہنماؤ! سماج میں تعفن، جرائم اور مسائل کا ذمہ دار تم ہو۔ اٹھو اے قوم! ان تمام غداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لاؤ اور ان سے پائی پائی کا حساب لو۔

لوح شر بے سر چشمہ تر: اس دنیا کی چلتی پھرتی مخلوق کے سوا کچرے دانوں میں ایک اور مخلوق بھی آباد ہے، جو اسقاط حمل کی پیداوار ہے۔ جن کو دنیا میں رہنے کا قابل نہیں سمجھا گیا ہے۔ جون اسی سقیط دنیا سے محبت کرتا ہے اور یہ دنیا ان کے لیے رنگ، آہنگ اور موسیقی کا درجہ رکھتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک دوشیزے کے رانوں کے بیچ کے رنگ نے دنیا بھر کے انسانوں کو دھوکے میں رکھا ہے۔ دھوکا اور جھوٹ انسان اور خدا دونوں کے استاد ہیں۔ خدا خموش ہے اور موجود رہنے کا دعوے دار ہے۔ اگر خدا ہے تو تعفن، جرائم اور مسائل کیوں ہیں؟ اے خدا! اپنے نہ ہونے کا اعلان کرو کیوں کہ انسانوں نے تیرے نام پر ملاوٹ، جراٸم اور مذہبی کاروبار شروع کیا ہے۔ اے روشنی! اعلان کرو کہ تیرے بعد اندھیرا ہی اندھیرا ہے، اور تم بھی انسانوں کی محتاج ہو۔

لوح آواز: سناٹا (انسان) پہلا تھا یا اندھیرا (خدا)؟ شاید، سناٹا۔ جب سناٹا اور اندھیرا ایک ہوئے تو روشنی (عقل/علم) پھیلی۔ سناٹے کو سناٹے کے خوف سے پوشاک کی ضرورت پڑ گئی اور سناٹا مسلسل اندھیروں میں گم رہا۔ روشنی تیرا کیا فائدہ؟ تو جائے بھاڑ میں۔

لوح تابوت: مگر فکر نہ کرنا۔ مجھے گستاخ کہنے والو! میرا تابوت (کلام) اب گھر گھر میں موجود ہے۔ میرا فن اب عام ہوگیا ہے۔ تمام رکاوٹوں اور مصیبتوں کے باوجود ظالموں اور جابروں کے خلاف میرا مشن جاری و ساری رہے گا۔

لوح ملامت:تم جس دنیا پر نازاں ہو اور اس میں بخوشی رہتے ہو، اس کی مٹی، ہوا اور پانی سڑاند ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ تم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہو جہاں کا ذریعہ معاش شرمندگی، جھجھک اور جھکاوٹ ہے۔ زرا اپنی جیبوں میں جھانک لو۔ جس کمائی سے تم شرماتے ہو، اسی پر یہ دنیا قائم ہے۔

لوح برج: اے کہن سالہ کاہنو! میں نے بابل، کلدانیہ، خوزادی اور شاہ بانو دیکھا ہے۔ اب تیرے ہیکل کے برج کے سامنے کھڑا تم سے آج جون پوچھنا چاہتا ہے کہ اس ہیکل کے سب سے اوپر برج سے بھی اوپر کیا ہے؟ تمھیں خاموش پاکر میں بتاتا ہوں۔ وہاں اوپر ایک چھپرکھٹ ہے جس پر خدایانِ خدا آرام کر رہا ہے اور نیچے میں آرام دہ ہوں۔ کیا تمھیں کبھی خدا ملا ہے؟ شاید جگہ گھیرنے کی ہوس کے سوا کچھ نہیں۔

لوح طمع: اس دنیا میں جون کے جیسے دانا لوگوں کا بڑا سرمایہ نفرتیں کمانا ہے۔ سو، میں یہ تبرک قبول کرلیتا ہوں۔ نسل آدم کی بڑی سزا بولنا اور سننا ہے۔ بولنے والا کرتبی اور سننے والا مطلبی ہے۔

لوح جہت: جون کی بصارتوں کے احاطے میں یہ چھے جہتی کائنات ان کی ذمہ داری ہے، جب کہ باقی لایعنی و لاجہتی کائنات انھوں نے خدا کو ہبہ کردیا ہے۔ یہاں اب تک اس کائنات میں آدم اور خدا کی تاریخ کا ما حصل صرف یہ رہا ہے کہ تم بھی کہو اور جون بھی کہے:
لا الٰہ الا اللہ، لا الٰہ الا اللہ۔

Comments

Click here to post a comment