ٹرمپ فارمولے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا انٹر نیشنل لا اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے علاقے غزہ سے جبری بے دخل کر کے اردن، مصر یا کسی افریقی ملک بھیج دیا جائے؟ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 میں اس بارے میں چند اصول طے کر دیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق:
1. کسی مقبوضہ علاقے سے آبادی کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔
2. قابض قوت کو یہ حق بھی نہیں کہ کسی کو جبری طور پر کسی دوسرے علاقے یا کسی دوسرے ملک میں دھکیل دے۔
3. آبادی کے جبری انخلا اور اسے کہیں اورمنتقل کرنے پر پابندی ہو گی چاہے اس کا مقصد کچھ بھی کیوں نہ ہو۔
4. اگر ایسے لوگ اپنے علاقوں سے کسی ناگزیر وجہ سے نکال دیے جائیں تو ان کی جلد از جلد واپسی کو یقینی بنایا جائے گا. لوگوں کو ان کے اہل خانہ سے جدا نہیں کیا جائے گا۔
اسرائیل نے جہاں جہاں سے مسلمانوں کو نکالا،ان کی زمینوں پر قبضے کیے اوروہاں اپنے یہودی شہریوں کو لا بسایا۔ جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 میں اس کی بھی ممانعت کی گئی ہے، وہاں لکھا ہے: The Occupying Power shall not deport or transfer parts of its own civilian population into the territory it occupies '' قابض قوت اپنی شہری آبادی کو اپنے زیر قبضہ علاقے میں منتقل نہیں کرے گی۔ '' جو کام اسرائیل کر رہا ہے، یہ تو ہٹلر نے بھی نہیں کیا تھا۔ جہاں سے فرانسیسی کسانوں کو نکالا گیا وہاں ہٹلر نے جرمن شہریوں کی ناجائز کالونیاں آباد نہیں کیں۔ اسرائیل مگر یہ کام کر رہا ہے اور تسلسل سے کر رہا ہے۔
انٹرنیشنل لا کا سب سے اہم حصہ کسٹمری انٹر نیشنل لا ہے۔ دیگر معاہدوں کے برعکس، یہ ضابطے،کسی ملک کی توثیق کے محتاج نہیں۔ ہر ایک پر لازم ہے کہ ان کی پابندی کرے۔ اس کے کچھ Rules باقاعدہ وضع کر دیے گئے جن میں سے Rule 51 کے مطابق قابض قوت کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ کسی کی پرائیویٹ پراپرٹی پر قبضہ کر لے۔ Rule 51 میں لکھا ہے: Private property must be respected and may not be confiscated جنگوں کے دوران مقبوضہ علاقوں میں لوگوں کی نجی پراپرٹی کا تحفظ انٹر نیشنل لا کا ایک مسلمہ اصول ہے۔ یہی اصول آکسفرڈ مینوئل کے آرٹیکل 50 میں بھی موجود ہے۔ ہیگ ریگولیشنز کے آرٹیکل 46 کے مطابق بھی نجی جائیداد ضبط نہیں کی جا سکتی۔ لکھا ہے: Private property cannot be confiscated لیکن جب معاملہ فلسطین کا ہو تو انٹر نیشنل لا کے یہ سارے ضابطے بے رحمی سے پامال کر دیے جاتے ہیں۔
انٹر نیشنل لا کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کوئی ملک کسی مقبوضہ علاقے پر حق ملکیت کا دعوی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین کو اقوام متحدہ نے آج تک اسرائیل کا علاقہ تصور نہیں کیا۔ انہیں مقبوضہ فلسطین ہی لکھا جاتا ہے۔ قانون کے مطابق کسی علاقے میں کسی ریاست کا قبضہ ہو بھی جائے تو وہ عارضی قبضہ تصور ہو گا۔ اس قبضے سے وہ ریاست اس علاقے کی مالک نہیں بن جائے گی۔
یہ اصول 1928 کے معاہدہ پیرس میں طے ہوا، اسی کا اعادہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 2 کی ذیلی دفعہ 4 میں کیا گیا۔ انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے اپنے 4 اگست 2004 کے اعلامیے میں بھی اسی اصول کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ قبضہ کر لینے سے کوئی ملک اس مقبوضہ علاقے کا مالک نہیں بن جاتا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی وضع کردہ حدود سے باہر اسرائیل کے جتنے قبضے ہیں، اقوام متحدہ نے انہیں ناجائز قرار دے رکھا ہے۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 194 میں بھی اسی اصول کا اعادہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کا کمیشن UNCCP بھی 1949میں سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی کانفرنس میں یہی اصول طے کر چکا ہے۔ اسی اصول کے تعین اور اطلاق کے بارے میں سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی کئی اور قراردادیں بھی موجود ہیں جن میں سلامتی کونسل کی قرارداد 476 اور 478 بھی شامل ہیں۔ سلامتی کونسل کی قرارداد 242 میں بھی Emphasizing the inadmissibility of the acquisition of territory by war کی بات کی گی ہے اور اسرائیل سے تمام مقبوضہ جات خالی کرنے کا کہا گیا ہے۔
ہیگ کنونشن کے آرٹیکل 45 میں اسی اصول کی بنیاد پر یہ کہا گیا کہ مقبوضہ علاقہ جات کے عوام سے قابض قوت کے ساتھ وفاداری کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی مقبوضہ فلسطین کو اسرائیل نہیں کہا جا سکتا، یہ آج بھی فلسطین ہے اور فلسطین کے شہریوں سے اسرائیل کی اطاعت اور وفاداری کا مطالبہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ریاست مقبوضہ بھی ہو جائے تب بھی وہ اپنی حیثیت تبدیل نہیں کرتی۔ اصول یہ ہے کہ: State remains the same international person یعنی جیسے وہ قبضے سے پہلے تھی، اب بھی اس کی حیثیت وہی ہو گی۔ سلطنت عثمانیہ کے قرض کے حوالے سے جو آربٹریشن رپورٹ تیار کی گئی تھی اس میں بھی یہ اصول لکھ دیا گیا تھا کہ قابض قوت کی حیثیت قابض کی ہوگی مالک کی نہیں۔ چنانچہ سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 674 میں، عراق کا کویت پر قبضہ اسی اصول کی بنیاد پر ناجائز قرار دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 62/243 میں اسی بنیاد پر اقوام عالم سے کہا تھا کہ آذر بائیجان کے علاقے پر قبضے کو تسلیم نہ کیا جائے۔ جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد 3061 میں گینی بساؤ پر پرتگال کے قبضے کو اسی بنیاد پر ناجائز قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔ اسی قانون کے تحت جنرل اسمبلی نے فلسطینی مقبوضہ جات پر قرارداد نمبر 3414 منظور کی تھی۔ اب اگر کوئی کہے کہ قانون کی بات نہ کی جائے، یہ تو فضول کام ہے، اور چونکہ طاقت کا توازن درست نہیں ہے، اس لیے خاموشی سے ٹرمپ فارمولے کے سامنے سر جھکا دیا جائے تو درویشوں کے اس تصرف کو قبول کرنا اہل غزہ پر لازم نہیں ہے۔بات قانون ہی کی، کی جائے گی۔
تبصرہ لکھیے