ہوم << فیس بک پر انویسٹمنٹ مانگنے والے99 فیصد فراڈ ہیں - توصیف ملک

فیس بک پر انویسٹمنٹ مانگنے والے99 فیصد فراڈ ہیں - توصیف ملک

فیس بک پر انویسٹمنٹ مانگنے والے نناوے فیصد فراڈ ہیں. صرف فیس بک پر ہی نہیں بلکہ کسی بہت قریبی جاننے والے کے پاس بھی خاموش سرمایہ کاری کا نتیجہ عمومی طور پر بہت خراب ہوتا ہے .

پہلے ہم بات کرتے ہیں سرمایہ کاری کی ، پوری دنیا میں کارپوریٹ سیکٹر بہت اہمیت کا حامل ہے ، جتنی بھی بڑی بڑی کمپنیز کو دیکھیں گے تو اس کی بنیاد کارپوریشن ہی ہے ، انویسٹرز ایسی کمپنیز کو ڈھونڈتے ہیں جو ترقی کر رہی ہو ں اور وہ اس میں شامل ہو کر منافع کمائیں. لیکن پاکستان کے حالات یکسر مختلف ہیں. سب سے پہلا مسئلہ آمدنی یعنی نفع کا ہے. امریکہ یا یورپ وغیرہ میں نفع ڈالرز ، پاؤنڈز میں آتا ہے ، وہ ایسی مارکیٹس ہیں جہاں پیسے کا فلو بہت زیادہ ہے ، لوگ آسائشات پر بہت پیسہ لگاتے ہیں ، ایک عام مزدور کے گھر میں بھی تقریباً وہ تمام سہولیات ہوتی ہیں جس کے لیے ایک لوئر مڈل کلاس ترس رہا ہوتا ہے ، لوئر مڈل کلاس کے لیے فاسٹ فوڈ کھانا ، برانڈڈ برگر ، پیزہ کھانا پارٹی کے برابر ہوتا ہے ، ایسی چیزیں اس کے لیے لگژری شمار ہوتی ہیں اسی لیے وہ ہفتے یا مہینے بعد ایسی پارٹیز کرتا ہے اور پھر فخریہ اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر بھی لگاتا ہے . جبکہ ایک عام امریکی جتنا ایک گھنٹے میں کماتا ہے اس سے کسی برانڈ کا پیزہ یا برگر آسانی سے لے سکتا ہے ، ایک عام امریکی پرانی کار آسانی سے افورڈ کر سکتا ہے.

اب اس حساب سے دیکھ لیں کہ ادھر کا مڈل کلاس کس قسم کی آسائشات استعمال کرتا ہو گا ، اور جتنی آسائشات زیادہ ہوں گی اتنا زیادہ پیسے کا فلو ہو گا اور جتنا فلو ہو گا اتنی کمائی بڑھتی جائے گی. آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ پاکستان میں تین سے پانچ ہزار میں بکنے والی جینز امریکہ میں بیس سے تیس ہزار کی بکتی ہے یعنی ان کے لیے وہ سو ڈالر کے قریب رقم بنتی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ پاکستان سے وہ جینز ہی بیس ہزار کی جاتی ہے ، پاکستانی ایکسپورٹر زیادہ سے زیادہ دس ہزار کی بیچتا ہو گا ، اس کے بعد پانچ ہزار اس کے اوپر اگر خرچہ وغیرہ ڈال دیا جائے تو بھی اس کا نفع پانچ سے دس ہزار روپے تک وہاں کا بزنس مین لیتا ہے اور یہ عام نفع ہے ، اسی طرح دوسری اشیاء کا موازنہ بھی کیا جا سکتا ہے.

پاکستان میں اگر کوئی کاروبار میں انویسٹ کرواتا ہے تو منافع میں کمی کی وجہ سے اسے منافع دینے کی ہمت ہی نہیں پڑتی ، پہلے پہل تو جانفشانی سے نفع دے گا لیکن کچھ عرصے بعد دو صورتیں ہوں گی یا تو کاروبار چل نکلے گا تو ایسی صورت میں کاروباری شخص کے پاس بھی رقم آتی جائے گی اور اس کو یہ نفع دکھ دینے لگے گا ، اب چونکہ کاروبار چل نکلا ہے تو وہ کسی نہ کسی بہانے سے انویسٹر کو فارغ کر دے گا کہ اس کی ضرورت پوری ہو چکی ہوتی ہے .

دوسری صورت یہ ہو گی کہ کاروبار واقعی نقصان میں جا رہا ہو گا یا کم از کم صرف اتنا نفع ہو رہا ہو گا کہ کاروبار کرنے والے کا خرچہ چل سکے ، ایسی صورت میں جب انویسٹر پیسے مانگے گا ( جیسے کہ اسے شروع شروع میں ملے تھے ) اور نفع نہ ملنے پر وہ رقم واپس مانگے گا تو جو کاروبار پہلے ہی نقصان میں تھا تو اب انوسیٹرز کو رقم واپس کرنا بھی مشکل ہو جائے گی. لڑائیاں ہوں گی ، کورٹ کچہری تھانے کے چکر لگیں گے ، علاقے کے بدمعاشوں کو انوالو کیا جائے گا اور پھر دونوں طرف زور وشور سے دھمکیاں شروع ہو جائیں گی. کیا آپ کو علم ہے کہ امریکہ ، یورپ میں جو کاروبار کے لیے اشتراک ہوتا ہے اس کے لیے کیسی کیسی انویسٹی گیشن ہوتی ہے ، کیسے کیسے سوالات کیے جاتے ہیں ، کمپنی کی مارکیٹ ویلیو ، بزنس کا فلو ، بزنس ڈائریکٹرز کا تجربہ اور نہ جانے کیا کچھ دیکھا جاتا ہے ، بڑی بڑی فرمز کے زریعے انویسٹیگیشن کروائی جاتی ہے تاکہ کمپنی کا مستقبل دیکھا جا سکے . جبکہ ہمارے ہاں پیسے پکڑانے کا کوئی معیار نہیں ہے ، کسی مولوی صاحب کو کاروبار کرتا دیکھ لیا ، ان کی شاہانہ زندگی جس میں آئی فون اور اچھی کار بھی شامل ہوتی ہے کو دیکھ کر فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ اسے پیسہ پکڑا دینا چاہیے ، یہ داڑھی پگڑی والا بندہ ہے ، بہت اچھی اچھی پوسٹس کرتا ہے لہذا اس کے ساتھ خاموش پارٹنر بن جانا چاہیے . نہ پیسے دینے والے کو کاروبار کی کچھ سمجھ ہوتی ہے اور نہ ہی لینے والے کو ( اکثریت) ، اس نے بھی نئے کاروبار کے لیے تجربہ ہی کرنا ہوتا ہے اور زیادہ تر وہ بھی کسی نہ کسی سے متاثر ہوا ہوتا ہے ، اسے بھی زیادہ پیسے کمانے کا لالچ ہوتا ہے ورنہ گزارا تو چھوٹے موٹے کام سے بھی ہو ہی جاتا ہے .

دوسری بڑی وجہ ہمارے ہاں قانون کا نظام بہت کمزور ہے ( آج کل تو ویسے بھی قانون کی حیثیت ۔۔۔۔۔۔۔جیسی بنا دی گئی ہے) میرے بھائی کے ایک دوسرے دکاندار کے پاس بارہ لاکھ روپے پھنسے ہوئے تھے جس میں سے آدھے بہت مشکل سے ایک سال میں نکلوائے جبکہ چھے لاکھ کا چیک موجود ہے لیکن وہ بندہ چیک سے بھی نہیں ڈرتا ، کہتا ہے جو کرنا ہے کرلو. اگر آپ نے اپنی جمع پونجی انویسٹ کر بھی دی اور بڑے بڑے اشٹام پیپر بھی لکھوا لیے لیکن پھر بھی آپکی رقم کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ، جتنا آپ زور لگا سکیں گے اتنا ہی مال واپس ملے گا . میں ایک کاروباری بندہ ہوں اور آج تک ایک روپیہ حرام کا نہیں کمایا ( الحمدللہ ) میں نے بھی جب نیا نیا کاروبار شروع کیا تو بڑے بڑے خواب تھے ، ان خوابوں کے لیے عملی کام برائے نام تھا ، میرے راتوں رات کروڑ پتی بننے میں رکاوٹ صرف سرمایہ تھا ، میں نے ایک بہت قریبی سے انویسٹمنٹ لے لی اور صرف پہلے چھے مہینے نفع دیتا رہا ، اس کے بعد نہ نفع دے سکا اور نہ ہی رقم واپس نکال سکا . چونکہ تجربہ نہیں تھا تو جو چیز نظر آتی اس میں رقم لگا دیتا اور پھر آخر میں رقم مال کی صورت میں پھنس گئی ، مال بیچوں تو بہت گھاٹا پڑ رہا تھا جبکہ انویسٹر کے گھر کا نظام انہی پیسوں کی بچت سے چل رہا تھا .

سچ تو یہ ہے کہ مجھے وہ پہلی نفع والی رقم دیتے ہوئے بھی دل نہیں کرتا تھا پتا نہیں کس دل سے پیسے دیتا تھا ، حالانکہ میرا کوئی حرام کھانے یا فراڈ کرنے کا بالکل ارادہ نہیں تھا نہ ہی ایسا کوئی ارادہ تھا کہ رقم کھا جاؤں گا لیکن یہ انسانی فطرت ہے کہ اپنی کمائی میں سے کسی دوسرے کو حصہ دیتے ہوئے جان جاتی ہے . بہت مشکل سے انویسٹر کو وہ رقم پوری کرکے دی ، بہن بھائی ، دوست کام آئے اور الحمدللہ کچھ عرصے میں تمام کا قرض اتار دیا ، اس کے بعد پکی نیت کر لی کہ آئندہ کے بعد کسی کی رقم سے کاروبار نہیں کرنا اور شاید یہی اچھی نیت تھی کہ خدا نے بہت برکت عطا فرمائی . اگر کبھی کاروبار میں رقم کی ضرورت پڑی بھی تو بہت سادہ طریقہ رکھا کہ فلاں مال اٹھانا ہے ، وہ مال جتنے کا بنے گا وہ آپ کی ملکیت ہو گا اور آپ سے کچھ عرصے بعد یا دو تین اقساط میں وہ مال میں خرید لوں گا ، اس خریداری میں انویسٹر کو نفع بھی مل جاتا تھا اور میں ایسا مال خرید لیتا تھا جو سستا مل رہا ہوتا تھا . خود پر ایک وقت میں چاہے دس ہزار روپے بھی خرچ کر لیں اس کا دکھ نہیں ہوتا لیکن اگر جیب سے سو روپے بھی گم ہو جائیں تو اس کا دکھ بہت زیادہ ہوتا ہے ، اپنی کمائی کو ایسے ہی کسی کے ہاتھ نہ پکڑا دیں .

میں آپ کو اس بارے مشورہ نہیں دے سکتا کہ فلاں طریقے سے انویسٹ کریں یا فلاں طریقہ کار اختیار کریں، صرف اتنا کہوں گا کہ پاکستان میں ایسی انویسٹمنٹ سازگار نہیں ہے. یہ انویسٹمنٹ لینے والے فراڈ نہیں ہوتے لیکن پاکستان میں یہ خوامخواہ فراڈ ہو جاتا ہے ، جس کی آپ نے رقم لی ہے اور اسے نفع نہ ملے یا رقم واپس نہ ملے تو اس کے لیے آپ فراڈ ہی ہیں ، چاہے آپ کی نیت بہت اچھی ہو ، آپ پکے نمازی ہوں ، جس نے اپنی جمع پونجی، گھر کا زیور ، پیٹ کاٹ کاٹ کر آپ کو رقم دی ہے اس نے بہت سہانے سپنے سجا لیے ہوتے ہیں جن کے ٹوٹنے پر ایسا دکھ ہوتا ہے جیسے اس کی جان نکال لی گئی ہو . پاکستان میں سٹارٹ اپس کی جگہ بہت کم ہے ( فی الحال) ، اگر آپ کے پاس کوئی مضبوط آئیڈیا ہے تو لوگوں سے رقم مانگنے کے بجائے پاکستان شارک ٹینک میں جائیں ، وہ پورے قانونی طریقے سے آپ کو ڈیل کریں گے ، وہ اپنی رقم کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں اور وہ پانچ منٹ میں ہی آپ کے کاروباری آئیڈیا کی جنم کنڈلی اور مستقبل کھنگال لیں گے