اس عارضی زندگی میں جن بزرگانِ دین نے اپنی بزرگیت و تصرفات و کرامت سے ہدایت کےچراغ کو پوری دنیا میں روشن کیا، ان میں سے کچھ ایسی انمول ہستیاں بھی موجود ہیں جنہیں دنیا کبھی ان کی علمی کارھائے نمایاں سے یاد کرتی ہے تو کبھی اسلام کی ترویج و اشاعت کےلئے تبلیغی خدمات کی حیثیت سے ۔ان بزرگان دین کو ان کے اخلاق و کردار اور روحانی مقام و مرتبے کے لحاظ سے بھی یا دکیا جاتا ہے۔ان بزرگوں نے اپنے علم اور تقوی و پرہیزگاری سے اسلام کی تعلیمات کو عام کیا اسلام کی ترویج و اشاعت کی اور کفر و شرک اور بدعت و خرافات کا قلع قمع کیا۔اس حیثیت سےامام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان ایک ممتاز شناخت کے حامل ہیں اور یہی وجہ ہے کہ علماء کرام نے ان کو مجدد دین و ملت کے نام سے مانا ہے۔زیر نظر قسط وارمضمون میں ان کی حیات و خدمات کے چند اہم گوشوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا حافظ شاہ محمد احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بن مولانا نقی علی خاں بن مولانا رضا علی خاں بن حافظ کاظم علی خاں بن شاہ محمد اعظم خاں بن شاہ محمد سعادت یار خاں بن شاہ محمد سعید اﷲ خاں علیہم الرحمۃ آپ کے جد اعلیٰ حضرت شاہ محمد سعید اﷲ خاں علیہ الرحمہ قندھار افغانستان کے قبیلہ بڑھیچ کے پٹھان تھے مغلیہ دور حکومت میں لاہور تشریف لائے اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے، لاہور کا شیش محل ان کی جاگیر تھا، لاہور سے آپ دہلی تشریف لائے آپ کی شجاعت وبہادری پر آپ کو شجاعت جنگ کا خطاب بھی ملا،ان کے صاحبزادہ حضرت شاہ محمد سعید یار خاں علیہ الرحمہ کو مغلیہ سلطنت نے ایک جنگی مہم سر کرنے روہیل کھنڈ بھیجا جس میں آپ نے فتح پائی اور پھر یہیں آپ کا وصال ہوا ان کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد اعظم خان علیہ الرحمۃ پہلے تو حکومتی عہدہ پر فائز رہے لیکن پھر امور سلطنت سے سبکدوشی ہوکرعبادت و ریاضت میں مصروف رہنے لگے اور آپ نے شہر بریلی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔ اس شہرِ بریلی میں مولانا شاہ محمد نقی علی خاں علیہ الرحمہ کے یہاں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی.
ولادت با سعادت: اعلٰی حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، ولی نِعمت ، عظیمُ البَرَکت، عَظِیمُ المَرْتَبت، پروانہِ شمعِ رِسالت ، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت، حامیِ سُنّت، ماحِی بِدعت، عَالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْروبَرَکت، حضرتِ علامہ مولٰانا الحاج الحافظ القاری شاہ امام احمد رَضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی ولادت باسعادت بریلی شریف کے مَحَلّہ جَسولی میں ۱۰ شَوَّالُ الْمُکَرَّم ۱۲۷۲ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق ۱۴ جون ۱۸۵۶ کو ہوئی۔ سِنِ پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا تاریخی نام اَلْمُختار (۱۲۷۲ھ) ہے (حیاتِ اعلٰی حضرت ، ج۱، ص۵۸، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی) آپ کا نامِ مبارَک محمد ہے، اور آپ کے دادا نے احمد رضا کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔
نام و نسب:آپ کا تاریخی نام ’’المختار‘‘ (۱۲۷۲ء) ہے اورآپ کا اسم گرامی ’’محمد‘‘ ہے۔ اور آپ کے جدا مجد آپ کو احمد رضا کہہ کر پکارا کرتے اور آپ اسی نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب افغانستان کے مشہور و معروف قبیلہ بڑہیچ سے ہے جو افغان کے جدامجد قیس عبدالرشید کے پوتے ’’شرجنون‘‘ الملقب بہ شرف الدین کے پانچ بیٹوں میں سے چوتھے بیٹے بڑہیچ سے جا ملتا ہے۔ (شاہ احمد رضا خان بڑہیچ افغانی از قلم محمد اکبر اعوان مطبوعہ کراچی ، ص۳۵)
تکمیل تعلیم و فتوٰی نویسی : ان کی پیشانی سے نورِ سعادت کی کرنیں ایام طفولیت ہی سے چمک رہی تھیں دیکھنے والوں نے دیکھاکہ وہ ایامِ طفولیت سے ہی حق پسندی و حق شناسی کا مجسمہ تھے۔ ایک مرتبہ اپنے استادِ گرامی کے پاس جلوہ افروز تھے کہ اسی اثنا میں ایک بچے نے استاذِ محترم کو سلام کیا تو جواباً استاذ نے کہا: جیتے رہو ۔ فوراً انہوں نے لقمہ دیا کہ استاذِ محترم! یہ تو جواب نہ ہوا۔ جواب تو وعلیکم السلام ہے۔ اس طرح کا اعتراض اور جواب سن کر استاذِ گرامی ششدررہ گئے اور اس حق گوئی پر بے حد خوش ہوئے۔آپ کی خدادادذہانت حاصل تھی اسی وجہ سے چھ سال کے عمر میں ہی آپ نے بریلی شریف میں منعقدہ پروگرام موسوم بہ ’’محفلِ میلاد النبی ﷺ‘‘ میں میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر ایک عظیم الشان خطاب فرمایا۔ پھر آپ نے اردو، فارسی اورعربی کی ابتدائی کتابیں مرزا غلام قادری بیگ سے حاصل کیں اور اکیس علوم کی تعلیم آپ نے اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان سے حاصل کی ۔ ان میں سے کچھ رقم قلم ہیں۔ علم تفسیر، علم حدیث، علم العقائد و الکلام، علم فلسفہ، کتب فقیہ حنفی و شافعی مالکی و حنبلی، اصولِ فقیہ ، اصولِ حدیث، علم تکسیر، علم نجوم وغیرہ ۔اور آٹھ سال کی عمر میں ہی آپ نے فن نحو کی مشہور و معروف کتاب ’’ہدایہ النحو‘‘ کی عربی شرح لکھی۔ تیرہ برس دس مہینے پانچ دن کے عمر میں یعنی ۱۴؍ شعبان المعظم ۱۲۸۶ھ بمطابق ۱۹؍ نومبر ۱۸۶۹ء کو جملہ مروجہ علوم و فنون سے فارغ التحصیل ہوئے اور ’’العلماء ورثتہ الانبیاء‘‘ کا تاج آپ کے سر پر رکھا گیا۔ اسی دن آپ نے رضاعت کے متعلق پہلا فتوی لکھا، جواب بالکل درست تھا، والد ماجد علامہ نقی علی بریلوی (م۱۲۹۷ھ) نے خوش ہوکر فتوی نویسی کی اجازت دے دی اور مسند افتا پر بٹھا یا۔ پروفیسر محمود احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: ’’مولانا احمد رضا خاں رحمتہ اﷲ علیہ نے تیرہ سال دس مہینے اور چار دن کی عمر میں ۱۴ شعبان ۱۲۸۶ھ کو اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان کی نگرانی میں فتوی نویسی کا آغاز کیا۔سات برس بعد تقریباً ۱۲۹۳ھ میں فتوی نویسی کی مستقل اجازت ملی ۔ پھر جب ۱۲۹۷ھ میں مولانا نقی علی خان کا انتقال ہوا تو کلی طور پر مولاناامام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ فتوی نویسی کے فرائض انجام دینے لگے۔ آپ کے فتوی کا انداز آپ کے کتب فتوی سے کیا جاسکتا ہے ۔ (حیات مولانا احمد رضا خان بریلوی، از پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد، مطبوعہ کراچی ص۵۶)
امام احمد رضا خان بریلوی کوپچاس سے زیادہ علوم و فنون پر کامل دسترس حاصل تھی، وہ خود اپنے رسالہ ”الافادة الرضویہ“ میں 54علوم و فنون کا ذکر فرماتے ہیں اور بعض محققین نے ان کا شمار ستر تک بتایا ہے۔ اعلیٰ حضرت کے علوم کی فہرست سماعت کرنے سے قبل سامعین کے علم میں یہ بات ضرور ہونی چاہئے کہ محدث بریلوی علیہ الرحمۃ نے حافظ کتب الحرم شیخ اسماعیل خلیل مکی کو جو عربی میں سند اجازت دی ہے اس میں خوداپنے قلم سے اُن 55 علوم و فنون کا ذکر فرمایا ہے جن میں آپ کو مکمل عبور حاصل تھا۔ محدث بریلوی کے اپنے قلم سے رقم کردہ مندرجہ 55 علوم و فنون کی فہرست نہایت جامع ہے جس میں بعض علوم فی زمانہ متعدد شاخوں و شعبوں میں تقسیم ہوگئے ہیں اور ان کی شناخت کیلئے علیحدہ عنوانات ماہرینِ تعلیم مختص کر چکے ہیں۔ معیشت اور اس کے ضمنی علوم تجارت، بینکاری، اقتصادیات اور مالیات کا اعلیٰ حضرت نے شمار نہیں کیا لیکن اسلامیان ہند کی فلاح کیلئے تدابیر بیان کرتے ہوئے مجدد اعظم کی ذات میں ماہر بنکار، وزیر خزانہ و مالیات اور معلم اقتصادیات بلکہ ہر فن مولا کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ امام احمد رضا علیہ الرحمۃ الرضوان کے بیان کردہ علوم کی ترتیب یوں ہے۔(١) علم القران (٢) حدیث (٣) اصول حدیث (٤) فقہ حنفی (٥) کتب فقہ جملہ مذاہب (٦) اصولِ فقہ (٧) جدل مہذب (٨) علم تفسیر (٩) عقائد و کلام (١٠) نحو (١١) صرف (١٢)معانی (١٣) بیان (١٤) بدیع (١٥) منطق (١٦) مناظرہ (١٧) فلسفہ (١٨) تکسیر (١٩) ھئیات (٢٠) حساب (٢١) ہندسہ (٢٢) قرأت (٢٣) تجوید (٢٤) تصوف (٢٥) سلوک (٢٦) اخلاق (٢٧) اسماء الرجال (٢٨) سیر (٢٩) تاریخ (٣٠) لغت (٣١) ادب معہ جملہ فنون (٣٢) ارثما طیقی (٣٣) جبر و مقابلہ (٣٤) حساب سینی (٣٥) لوگارثمات (٣٦) توقیت (٣٧) مناظرہ مرایا (٣٨) علم الاکر (٣٩) زیجات (٤٠) مثلث کروی (٤١) مثلث سطح (٤٢) ہیاۃ جدیدہ (٤٣) مربعات (٤٤) جفر (٤٥) زائرچہ (٤٦) نظم عربی (٤٧) نظم فارسی (٤٨) نظم ہندی (٤٩) نثر عربی (٥٠) نثر فارسی (٥١) نثر ہندی (٥٢) خط نسخ (٥٣) نستعلیق (٥٤) تلاوت مع تجوید (٥٥) علم الفرائض [الاجازۃ الرضویہ]"
آپ 1296ھ مطابق 1878ءکو والد بزرگوار کے ہمراہ زیارت حرمین شریفین اور حج بیت اﷲ شریف گئے۔ جہاں جلیل القدر علمائے کرام مفتی حنفیہ حضرت علامہ عبدالرحمن سراج اور مفتی شافعیہ حضرت سید احمد دھلان وغیرہ سے فقہ و تفسیر اور اصولِ فقہ پر اسناد حاصل کیں۔ سلسلہ ارادت و طریقت : ۱۲۹۴ھ/ ۱۸۷۷ء کو بغرض بیعت اپنے والد محترم کے ہمراہ کا شانہ مرشد حضرت آلِ رسول مارہروی (علیہ رحمتہ و الرضوان، م ۱۸۷۸ء) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلسلہ قادریہ میں بیعت سے مشرف ہوکر اجازت و خلافت سے بھی نوازا گیا۔ اعلیحضرت نے اپنے دیوان میں مرشد کے شان میں ایک منقبت بھی لکھی جس کا مطلع یہ ہے:
خو شاد لے کہ دہند ولائے آلِ رسول
خوشامردے کہ کنندس فدائے آلِ رسول
آپ کو مندرجہ ذیل سلاسل میں اجازت تھی۔ سلسلہ قادریہ برکاتیہ جدیدہ ، سلسلہ قادریہ آبابیہ قدیمہ، سلسلہ قادریہ الھدیہ، سلسلہ قادریہ رزاقیہ، سلسلہ قادریہ منوریہ، سلسلہ چشتیہ محبوبیہ و احدیہ، سلسلہ چشتیہ نظامیہ قدیمہ، سلسلہ سہروردیہ واحدیہ ، سلسلہ سہروردیہ فضلیہ، سلسلہ علویہ منائبہ، سلسلہ بدیعیہ مداریہ، سلسلہ نقشبندیہ علائیہ صدیقیہ، سلسلہ نقشبندیہ علائیہ علویہ۔ ان سلاسل میں اجازت کے علاوہ اربعہ مصافحات کی بھی سند ملی۔
دوسری بار آپ نے ربیع الاوّل ۱۳۲۴ھ بمطابق اپریل ۱۹۰۶ء کو بارگاہِ رسالت میں حاضری دی۔ ایک ماہ تک مدینہ طیبہ میں قیام رہا۔ اسی دوران بڑے بڑے علماء آپ کی علمی کمالات اور دینی خدمات کو دیکھ کر آپ کی نورانی ہاتھوں پر مرید ہوئے اور آپ کو استاد وپیشوا مان لیا۔ اس سفر مبارک میں جو تین اہم کارنامے منظر عام پر آئے وہ یہ ہیں ۔ (۱) آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت ہوئی۔ (۲) ۲۵؍ ذی الحجہ کو آپ رحمتہ اﷲ نے علماء نجد کی طرف سے آقا ﷺ کے علم غیب کے متعلق پانچ سوالات کے جواب میں شدت بخار کے باوجود بغیر کسی کتب کو دیکھے صرف آٹھ گھنٹوں میں عربی زبان کے اندر ایک کتاب موسوم بہ الدولہ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ لکھی، جس پر علماے عرب نے نہ صرف داد سے نوازابلکہ شریف مکہ نے وہ کتاب سطر بہ سطر لفظ بہ لفظ سماعت کی۔ (۳) اور آپ کو علماء عرب نے ’’مجدّد ماء ۃ حاضرۃ‘‘ کے لقب سے نوازا ۔
علوم و فنون میں مہارت :ایک سو پانچ علوم پر آپ کو مہارت تھی۔ سید ریاست علی قادری صاحب نے اپنے مقالہ ’’امام احمد رضا کی جدید علوم و فنون پر دسترس‘‘ میں جدید تحقیق و مطالعہ ثابت کیا ہے کہ اعلیٰ حضرت کو ۱۰۵ علوم و فنون پر دسترس و مہارت تامہ و کامل حاصل تھی۔
علمی آثار :حضرت امام احمد رضا خان رحمتہ اﷲ علیہ ایک کثیر التصانیف بزرگ تھے ۔ آپ کی ایک ہزار سے بھی زائد تصانیف ہیں۔ عربی، فارسی، اردو، ہندی زبان میں مختلف فنون پر آپ کی ۵۵۰ سے زائد کتب کے نام منظر پر آچکی ہیں۔ ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں: العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ : یوں تو آپ نے ۱۲۸۶ھ سے ۱۳۴۰ھ تک ہزاروں فتاوی جات لکھے۔ لیکن سب کو نقل نہ کیا جاسکا۔ جو نقل کرلئے گئے تھے ان کا نام العطا یا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ رکھا گیا۔ فتاوٰی رضویہ جدید کی ۳۳ جلدیں ہیں جن کے کل صفحات ۲۲۰۰۰ سے زیادہ، کل سوالات مع جوابات ۶۸۴۷ اور کل رسائل ۲۰۶ہیں۔ ہر فتوے میں دلائل کا سمندر موجذن ہے۔ قرآن و حدیث، فقہ، منطق اور علم کلام سے مزین ہے۔
امام احمد رضا کا سینہ علوم و معارف کا خزینہ اور دماغ فکر و شعور کا گنجینہ تھا، اپنے بیگانے سب ہی معترف ہیں کہ شخصی جامعیت، اعلیٰ اخلاق و کردار، قدیم و جدید وعلوم و فنون میں مہارت ، تصانیف کی کثرت ، فقہی بصیرت ، احیاے سنت کی تڑپ، قوانین شریعت کی محافظت، زہد و عبادت اور روحانیت کے علاوہ سب سے بڑھ کر قیمتی متاع و سرمایہ عشق ختمی مرتبت (علیہ الصلوٰۃ والتسلیم) میں ان کے معاصرین میں ان کا کوئی ہم پلہ نہ تھا اور غالباً نہیں، بلکہ یقیناً۔اور بعد میں آج تک سطور بالا صفات میں عالم اسلام میں امام احمد رضا کا ہمسر کوئی پیدا نہیں ہوا۔ آپ کی اسی انفرادیت کے بارے میں سید ریاست علی قادری علیہ الرحمۃ کہتے ہیں : امام احمد رضا کی شخصیت میں بیک وقت کئی سائنس داں گم تھے ، ایک طرف ان میں ابن الہیثم جیسی فکری بصارت اور علمی روشنی تھی تو دوسری طرف جابر بن حیان جیسی صلاحیت، الخوارزمی اور یعقوب الکندی جیسی کہنہ مشقی تھی، تو دوسری طرف الطبری ، رازی اور بو علی سینا جیسی دانشمندی، فارابی ، البیرونی ، عمر بن خیام، امام غزالی اور ابن رُشد جیسی خداداد ذہانت تھی۔ دوسری طرف امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے فیض سے فقیہانہ وسیع النظری اور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ سے روحانی وابستگی اور لگاؤ کے تحت عالی ظرف امام احمد رضا کا ہر رخ ایک مستقل علم و فن کا منبع تھا ان کی ذہانت میں کتنے ہی علم و عالم گُم تھے ۔ (معارف رضا جلد ششم صفحہ نمبر 124)
زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ امام احمد رضا رحمہ اللہ کو جیومیٹری کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے دیکھ کر والد گرامی حضرت مولانا نقی علی خان رحمہ اللہ نے فرمایا، "بیٹا !یہ تمام علوم تو ذیلی و ضمنی ہیں تم علوم دینیہ کی طرف متوجہ رہو، بارگاہِ رسالت سے یہ علوم تمہیں خود عطا کر دیے جائیں گے۔" پھر واقعی دنیا نے دیکھا کہ کسی کالج و یونیورسٹی اور کسی سائنسی علوم میں ماہر کی شاگردی کے بغیر تمام سائنسی علوم عقلیہ و نقلیہ حاصل ہوئے اور ایسے مشاق ہوگئے کہ تحقیق و ریسرچ کے مطابق صرف سائنسی علوم میں آپ کی کتابوں کی تعداد 150 کے قریب پہنچتی ہے ۔ (امام احمدرضا اور سائنس ، از: پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری ،کراچی یونیورسٹی)
کمال حافظہ:۔
جنابِ سیِّد ایّوب علی صاحِب رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ کا بیان ہے کہ ایک روز اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا کہ بعض ناواقِف حَضرات میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کر تے ہیں ، حالانکہ میں اِس لقب کا اَہل نہیں ہوں۔ سیِّد ایّوب علی صاحبِ رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ نےاِسی روز سے دَور شُروع کر دیا جس کا وَقت غالِباً عشا کا وُضو فرمانے کے بعد سے جماعت قائم ہونے تک مخصوص تھا۔ روزانہ ایک پارہ یاد فرمالیا کرتے تھے، یہاں تک کہ تیسویں روز تیسواں پارہ یاد فرمالیا۔ ایک موقع پر فرمایا کہ میں نے کلامِ پاک بِالتَّرتیب بکوشِش یاد کرلیا اور یہ اس لیے کہ ان بندگانِ خُدا کا ( جو میرے نام کے آگے حافِظ لکھ دیا کرتے ہیں ) کہنا غَلَط ثَابِت نہ ہو۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ج ۱ ص۲۰۸ )
حضرتِ ابو حامِد سیّد محمد محدِّث کچھوچھوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ فرماتے ہیں کہ جب دارُالْاِفتا میں کام کرنے کے سلسلے میں میرا بریلی شریف میں قیام تھا تو رات دن ایسے واقعات سامنے آتے تھے کہ اعلیٰ حضرت کی حاضر جوابی سے لوگ حیران ہو جاتے۔ ان حاضر جوابیوں میں حیرت میں ڈال دینے والے واقِعات وہ علمی حاضِر جوابی تھی جس کی مثال سُنی بھی نہیں گئی۔ مَثَلاًاِستِفتا (سُوال) آیا، دارُالْاِفتا میں کام کرنے والوں نے پڑھااور ایسا معلوم ہوا کہ نئی قسم کا حادِثہ دریافت کیا گیا (یعنی نئے قسم کا مُعامَلہ پیش آیا ہے) اور جواب جُزئِیَّہ (جُز۔ئی۔یَہ) کی شکل میں نہ مل سکے گا فُقَہا ئے کرام کے اُصولِ عامَّہ سے اِستِنباط کرنا پڑے گا۔ (یعنی فُقَہا ئے کرام رَحمَہُمُ اللہُ السَّلام کے بتائے ہوئے اُصولوں سے مسئلہ نکالنا پڑے گا) اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، عَرض کیا: عجب نئے نئے قسم کے سُوالات آرہے ہیں ! اب ہم لوگ کیا طریقہ اختِیار کریں ؟ فرمایا: یہ تو بڑاپُراناسُوال ہے۔ ابنِ ہُمام نے’’فَتْحُ القدیر‘‘ کے فُلاں صَفحے میں ، ابنِ عابِدین نے ’’رَدُّ الْمُحتار‘‘کی فُلاں جلد اورفُلاں صَفْحَہ پر (لکھا ہے) ، ’’فتاوٰی ہندیہ‘‘ میں ، ’’خَیریہ‘‘ میں یہ یہ عبارت صاف صاف موجود ہے اب جوکتابوں کو کھولاتو صَفْحَہ ، سَطر اور بتائی گئی عبارت میں ایک نُقطے کا فَرق نہیں۔ اس خداداد فضل وکمال نے عُلَماکو ہمیشہ حیرت میں رکھا ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ج ۱ ص ۲۱۰)
امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ بحثییت مترجم قرآن پاک:۔
امام احمد رضا خاں بریلوی رحمہ اللہ کے ترجمہ قرآن (1330ھ) سے قبل کئی تراجم عوام میں متعارف ہو چکے تھے جن کی تعداد 25،30 سے کم نہ تھی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اہلِ سنت و جماعت کے قدیمی عقائد اور نظریات رکھنے والا کوئی اہل اور مستند عالم قرآن کے ترجمہ کی خدمت سرانجام دے تاکہ دنیا کےتمام مسلمانوں کے عقائد کو محفوظ اور مضبوط کیا جا سکے۔
(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے