فروری 2024ءکے الیکشن کے بعد معرض وجود میں آنے والی حکومت کو ہمیشہ کی طرح پہلا چیلنج آئی ایم ایف سے ڈیل اور قسط کے اجرا کا تھا جو کہ حسب معمول کافی مشکل اور نا کوں چنے چبوا کر آئی ایم ایف نے ریلیز کیا۔ پاکستان کی بحیثیت مجموعی ساکھ پوری دنیا میں بری طرح متاثر ہوچکی ہے۔ پاکستان کے سیاسی حالات اور آئے دن بدلتی ہوئی حکومتوں ، غیر یقینی کے منڈلاتے ہوئے بادل ، دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی ہونااور دیگر علاقائی اور مقامی مسائل نے پورے سماج کی نفسیات کو بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ اس پر مستزاد حکومتوں کا عدم تسلسل ، سیاستدانوں کے غیر جمہوری روےے اور مزاج ، سیاسی پارٹیوں میں حد سے زیادہ اقربا پروری، موروثیت اور پاکستان آرمی کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی مداخلت نے ان حالات کو مزید مضحکہ خیز بنادیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کے انتہائی قریبی اور دوست سمجھے جانے والے ممالک نے بھی کسی خاص گرمجوشی کا مظاہرہ نہ کیا۔ پاکستان آرمی ، سیاسی قیادت نے مل جل کر اس مسئلے کا حل نکالا اور بہت ہی مشکل اور کڑی شرائط کے ساتھ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا جس پر حکومت پاکستان نے سکھ کا سانس لیا لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ آکسیجن پر کب تک اس حکومت کی معیشت کو چلایا جاتا رہے گا۔ ہر طرح کے انسانی اورمادی وسائل سے مالامال اس سرزمین کو سیاسی اشرافیہ نے ایک چرا گا ہ بنا کر رکھ دیا ہے۔
ن لیگ کی حکومت نے پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے تحت تیرھویں پانچ سالہ منصوبے کے تحت ایک طویل المعیاد منصوبے کی بنیاد رکھی ،جس کو اگست2024ءمیں لانچ ہونا تھالیکن ہوم ورک نہ ہونے کی وجہ سے یہ تاخیر کا شکار ہوتا رہا اور بالآخر 31دسمبر 2024ءکو بھرم رکھنے کے لیے اسے لانچ کردیا گیا۔ جس کی بنیاد”پانچ ای “ پر رکھی گئی ہے جس میں پہلے نمبر پر برآمدات ، دوسرے پر ای پاکستان یعنی ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹلائزیشن ، تیسرے نمبر پر ماحولیاتی تبدیلیاں، چوتھے نمبر پر انرجی سیکٹر جبکہ آخری نمبر پر Equity, Ethic and Empowermnet کو رکھا گیا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق2029ءتک برآمدات کو 60 ارب ڈالر سالانہ پر لے جایا جائے گا جبکہ 2035ءتک ون ٹریلین ڈالر کی معیشت اور پھر 2047ءتک تھری ٹریلین ڈالر کی معیشت بنایا جائے گا۔ پاکستان کی جی ڈی پی کو 6%سالانہ تک لے جایا جائے گا۔ اسی طرح E۔ پاکستان کے تحت ون ملین روزگار کے مواقع جبکہ دس ملین اضافی ملازمتیں پیدا کی جائیں گی جن میں ای کامرس، آن لائن بزنس ، سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ ا ور دیگر آئی ٹی سے متعلقہ شعبے شامل ہیں۔ تیسری اہم چیز موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے اثرات سے بچاﺅ کی تدابیر ہیں جن کی وجہ سے فوڈ سیکورٹی، سیلاب کی تباہ کاریاں، گلیشرز کا پگھلنا اور بارشوں کے غیر متوقع Spellکی وجہ سے گلوبل وارمنگ میں مسلسل اضافہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا ادراک اور منصوبہ شامل ہے۔ چوتھا اہم ستون توانائی کا شعبہ اوراس شعبے کا انفراسٹرکچر شامل ہے۔ جبکہ سب سے آخر میں ہیومن ڈیویلپمنٹ کا اہم حصہ شامل ہے۔ یہ وہ منصوبہ عمل ہے جس سے موجودہ حکومت ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا چاہتی ہے۔
جبکہ اس وقت سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2024ءتک پاکستان کا مجموعی قرضہ 70ہزار 3سو چھیاسٹھ ارب روپے سے زائد ہے اور اس کے مطابق ہر پاکستانی 3لاکھ 2ہزار روپے کا مقروض ہے۔ اور فی کس آمدنی اس وقت 1680ڈالر جبکہ 2029ءتک 2405ڈالر تک لے جانے کا ہدف شامل ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح پچھلے دس سالوں میں 7فیصد سے زائد بڑھی ہے۔ جبکہ 2024ءمیں ایک کروڑ 30لاکھ پاکستانی غربت کا شکار ہوئے ہیں۔ صرف توانائی سیکٹر کا گردشی کا قرضہ 55۔ ارب روپے ہے اورآئی پی پیز وزیر اعظم کے بقول 10گنا سے زائد منافع کماچکے ہیں۔ پاکستان کے سالانہ محاصل ایک اندازے کے مطابق 10ہزار ارب سے زائد ہیں۔ جبکہ کم و بیش اتنا ہی قرض ہے جو مختلف مالیاتی اداروں کو واپس کرنا ہوتا ہے۔ البتہ 29ملین ڈالر کی مختلف ممالک سے سرمایہ کاری متوقع ہے۔ جن میں قطر، عرب امارات اور سعودی عرب نمایاں ہیں۔ پاکستان میں اشرافیہ سالانہ 5سو ارب سے زائد کی مراعات لیتی ہے جبکہ اسی سرزمین سے سالانہ لاکھوں نوجوان سہانے مستقبل کے لیے یورپ اور دیگر ممالک کا رخ کرتے ہیں جس سے زر مبادلہ (Remittance)تو ملتا ہے لیکن Brain drainageبھی اس کے ساتھ ساتھ ہورہا ہے جو کہ ملکوں کے لیے سرمائے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پچھلے دنوں ہمارے ملک کے وزیر اعظم کا یہ بیان شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا کہ بجلی سستی کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے۔ یعنی ایک طرف منصوبہ عمل دیکھیں، خواب دیکھیں جبکہ حقیقت سے کوسوں دور یہ خواب کیسے تعبیر میں ڈھلے گا۔ ہم نے پورا ڈاکومنٹ جو کہ منصوبہ بندی اور ترقیاتی وزارت کی سائٹ پر موجود ہے کو کھنگال مارا لیکن اس کا جواب نہیں ملا کہ یہ کیسے ہوگا؟
پاکستان کا اصل مسئلہ یا مسئلہ نمبر ون سیاسی عدم استحکام اور فوج کی بے جا مداخلت ہے ۔پور اڈاکومنٹ اس پر سوالیہ نشان ہے کہ یہ کیسے ہوگاَ ؟ کیونکہ اس پورے ڈاکومنٹ کو نہ تو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور نہ ہی سینٹ اور دیگر سطحوں پر اس کو بحث و تمحیص کا موضوع بنایا گیا کہ یہ پوری قوم کا متفقہ ایجنڈا ، 25کروڑ عوام کا منصوبہ برائے 2050بن سکے۔
برآمدات کو بڑھانے اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے جو انفراسٹرکچر درکار ہے اور جو اصلاحات چاہییں، پورا ڈاکومنٹ سوالیہ نشان ہے کہ وہ کیسے ہوگا؟کون کرے گا؟ پاکستان میں پچھلے عرصے میں انٹرنیٹ کی سست روی نے آن لائن کاروبار کو بری طرح متاثرکیا۔ VPN سے لے کر دیگر معاملات بھی سوالیہ نشان ہیں کہ یہ انڈسٹری کیسے آگے بڑھے گی اور پیداواری صلاحیتوں کو بین الاقوامی معیار اور قیمتوں کے مطابق کیسے آگے چلایا جائے گا، ڈاکو منٹ بے چارہ ایک دفعہ پھر سوالیہ نشان بنا ہوا ہے کہ یہ کیسے ہوگا؟ اور پھر اس کے نتیجے میں برآمدات کا ہدف کیسے حاصل کیا جائے گا؟ دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں نے دنیا بھر کو اور بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک کو بری طرح متاثر کیا ہے جن میں پاکستان سر فہرست ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ کورونا کے دوران ہونے والی اموات ایک طرف جبکہ موسمیاتی تبدیلیوںسے ہونے والی اموات ان سے کہیں زیادہ ہیں۔ گرین انرجی سے لے کر بڑے پیمانے پر مصنوعی جنگلات کیسے لگائے جائیں اور چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا کر بارشوں سے حاصل ہونے والے پانی کو کیسے ذخیرہ کیا جائے گا تاکہ زراعت اور دیگر شعبوں کی آبی ضروریات کو پورا کیا جاسکے ، ڈاکومنٹ اس پر بھی خاموش ہے۔
اسی طرح ایک طرف تعلیمی پیش قدمی کے دعوے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف پنجاب کے 14ہزار سے زائد سکولز کی پرائیویٹائزیشن سوالیہ نشان ہے۔ 2کروڑ 80لاکھ بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔ یہ کیسے معاشرے کے لیے مفید اور کار آمد شہری بن سکتے ہیں۔ اس پر بھی کوئی ہوم ورک نہیں ہے۔ نوجوان جو پاکستان کی آبادی کا 60فیصد سے زائد ہیں کے بارے میں بھی کوئی ٹھوس، جامع اور واضح منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ بیرون ملک skilled worker کو بھیجنے کے بارے میں بھی کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں دیا گیا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کام ادھورا اور نامکمل ہے۔ اس کے نتائج بھی پھر ویسے ہی نکلیں گے۔ جبکہ انڈیا، بنگلہ دیش اور ویتنام میں یہ سارے کام انتہائی برق رفتاری سے جاری ہیں اور ان ممالک کے اعداد و شمار یہ بتارہے ہیں کہ قوموں کو کیسے اپنے پاﺅں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ بنگلہ دیش میں غربت کی شرح 1990میں 56فیصد تھی جو کہ 2024میں 5فیصد رہ گئی ہے۔ عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے ماحولیاتی منصوبوں نے ملک کو 3بلین ڈالر سے زیادہ کا منافع دیا ہے۔ اسی طرح بھارت میں لڑکیوں کی پرائمری سکول میں داخلے کی شرح 2010میں 88فیصد تھی جو 2020میں بڑھ کر 95فیصد تک ہوگئی ہے۔ SSA، سروا، شکتا ، ابھیان ،آﺅٹ ریچ پروگرام ، رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ 2008، بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ پروگرام اور مڈ ڈے میل اسکیم نے انڈیا میں تعلیم کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ان تمام حالات کے پیش نظر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قوم اور ملک کا وقت ضائع کرنے کے بجائے ”ایک نیشنل ایجنڈا “ ترتیب دیا جائے ۔ اس پر قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے باقاعدہ اجلاس کیے جائیں۔ جامعات ، تھنک ٹینکس اور این جی اوز سمیت دیگر تمام سٹیک ہولڈرز کو اس میں شامل کیا جائے ۔ طلبہ، صحافی ، وکلاء،اوورسیز پاکستانیوں کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے اور پھر پوری قوم کا متفقہ نیشنل ایجنڈا بنا کر پوری قوم کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس کے بعد جو بھی حکومت بنے وہ اس نیشنل ایجنڈے پر کام کرنے کی پابند ہو، نہ کہ حکومتیں بدلنے سے ایجنڈے بھی بدلتے رہیں۔ یہ متلون مزاجی اب ختم ہونی چاہیے تاکہ 2047ءمیں جب ہم سوسالہ جشن آزادی کی تقریبات منائیں تو ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے، وگرنہ یہ سوسال کا سفر بہت سارے سوالیہ نشان چھوڑ جائے گا۔؟
تبصرہ لکھیے