رات کا گہرا اندھیرا کمرے کی چپ میں گم ہو چکا تھا۔ کمرے کے ہر کونے میں سناٹا تھا، جس کو صرف گھڑی کی ٹک ٹک اور میری بےچین سانسوں کی آواز توڑ رہی تھی۔ جیسے کوئی طاقت میرے جسم کو تیز بخار میں جکڑے ہوئے تھی، اور میری حالت ایسی تھی جیسے دہکتے ہوئے انگاروں پر لیٹا ہوں۔ ہر سانس گرم اور بھاری تھی، اور بےچینی دل و دماغ میں بڑھتی جا رہی تھی۔ کروٹیں بدلتے بدلتے بدن تھک چکا تھا، مگر نیند جیسے ایک پرانا خواب بن چکی تھی، جو آنکھوں سے دور چلا گیا تھا۔
میں بستر پر لیٹا ہوا چھت کو گھور رہا تھا۔ ذہن میں ایک طوفان برپا تھا۔ وہی چہرہ، وہی یادیں، جو کبھی میرے دل کی سکون کی وجہ بنتی تھیں، اب میرے وجود کو اندر سے کھوکھلا کر رہی تھیں۔ دل میں شکوے، شکایتیں، اور دکھ کا ایک انبار تھا۔ وہ جو کبھی میری زندگی کا سکون تھی، اب میری سب سے بڑی اذیت بن چکی تھی۔
رات دھیرے دھیرے گزر رہی تھی، مگر میرے لیے ہر لمحہ قیامت کا تھا۔ میری آنکھیں بند ہوئیں تو ذہن میں وہی عکس آ گیا۔ اس کا مسکراتا ہوا چہرہ، اس کی باتیں، اس کی ہنسی—سب کچھ جیسے ایک فلم کی طرح میرے دماغ میں چلنے لگا۔ ہر یاد میرے دل کی دھڑکن کو مزید بےچین کر رہی تھی۔
میرے جسم کی حالت بگڑ رہی تھی، مگر میں بےحس سا لیٹا رہا۔ نہ کسی سے بات کرنے کی طاقت تھی، نہ اپنے جذبات کو سنبھالنے کی۔ میں نے خود سے کہا:
"یہ سب خواب ہیں، خیالات ہیں۔ یہ سب ماضی ہے۔ مگر کیوں یہ ماضی آج بھی میرے دل پر چھریاں چلا رہا ہے؟ کیوں میں اس کے بغیر خود کو مکمل محسوس نہیں کرتا؟"
دل میں ہزار سوال تھے، مگر کوئی جواب نہیں۔ زندگی جیسے کسی بنجر میدان کی طرح لگنے لگی تھی۔ میں نے کروٹ لی اور آنکھیں بند کر کے نیند کی کوشش کی، مگر یادیں جیسے موت کی طرف دھکیل رہی تھیں۔
اچانک میرے دل نے سرگوشی کی:
"اٹھ! اسے گلے لگا، اس کا ماتھا چوم، اسے بتا کہ تجھے کیا اذیت ہے!"
لیکن دوسرے ہی لمحے ایک سرد آہ نکلی:
"یہی تو اذیت ہے کہ وہ اب پاس ہو کر دور ہے، بہت دور۔"
رات کا سکوت مزید گہرا ہو چکا تھا۔ میں نے بستر سے اٹھنے کی ہمت کی اور باہر کی طرف دیکھا۔ آسمان پر تارے ٹمٹما رہے تھے، مگر ان کی روشنی بھی میرے دل کے اندھیرے کو کم نہیں کر سکتی تھی۔ میرے قدم وضو خانے کی طرف بڑھ گئے۔
وضو کرنے کے دوران، پانی کے ٹھنڈے چھینٹے میرے چہرے کو چھو کر ایک لمحے کے لیے میرے جذبات کو پرسکون کر گئے۔ میں نے خود سے کہا:
"اللہ کے حضور جا۔ وہی تیرا سہارا ہے، وہی تیرا سکون دے سکتا ہے۔"
میں چپکے سے جائے نماز پر بیٹھ گیا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، اور میں بچوں کی طرح رونے لگا۔
"یا اللہ! میری اذیت کو کم کر دے۔ میرے دل کے بوجھ کو ہلکا کر دے۔ میں تجھ سے محبت کی بھیک مانگنے نہیں آیا، بس دل کے اس اندھیرے کو ختم کر دے۔"
ابھی میں اللہ کے حضور سجدے میں تھا کہ اچانک دروازے سے ایک ہلکی سی آہٹ آئی۔ میری دعا رک گئی۔ میں نے سر اٹھایا اور پلٹ کر دیکھا۔ دروازے کے پیچھے وہ کھڑی تھی، وہی جس کا چہرہ میری یادوں کا محور تھا۔
میرے دل کی دھڑکن رک سی گئی۔ کیا یہ خواب تھا؟ یا حقیقت؟
وہ آہستہ آہستہ میری طرف بڑھی۔ اس کی آنکھوں میں وہی اپنائیت تھی، وہی سکون جسے میں برسوں سے ترس رہا تھا۔
وہ میرے قریب آئی، اور اپنے نرم ہاتھ میرے ماتھے پر رکھ دیے۔ اس کے لمس میں ایک عجیب سا سکون تھا، جیسے ساری دنیا کا درد میرے وجود سے نکل کر غائب ہو گیا ہو۔
"تم ٹھیک ہو؟" اس کی آواز میری سماعتوں میں رس گھول گئی۔
میں نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے، مگر آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں نے سر جھکا کر دعا کی:
"یا اللہ! تیرا شکر ہے۔ تُو نے میری دعائیں قبول کیں۔ تُو نے میری اذیت کو سکون میں بدل دیا۔"
اس رات کا اندھیرا ختم ہو چکا تھا۔ سورج نکل چکا تھا، مگر میرے دل میں جو روشنی آئی تھی، وہ سورج کی روشنی سے کہیں زیادہ تھی۔ میں نے جان لیا کہ اللہ کے حضور کی گئی دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
میرے لیے وہ رات ایک سبق تھی۔ اذیت، تنہائی، اور بےچینی کے باوجود، سکون ہمیشہ اللہ کے قریب جانے میں ہے۔ اور کبھی کبھی، زندگی ہمیں ایسے لمحے دیتی ہے جو خواب اور حقیقت کے سنگم پر ہوتے ہیں، مگر وہ لمحے ہمیں مکمل کر دیتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے