پچھلے ہفتے بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں ایک ٹریننگ کورس میں گفتگو کےلیے گیا، تو معلوم ہوا کہ وہاں ملازمین کو اس ماہ بھی بس "چوتھائی تنخواہ" ہی دی گئی ہے۔ یہ بحران کسی ایک یونیورسٹی کو ہی درپیش نہیں ہے بلکہ تقریباً تمام یونیورسٹیاں اس کا سامنا کررہی ہیں۔ ہمارے محترم دوست ڈاکٹر عزیز الرحمان صاحب نے صوبائی حکومتوں کی جانب سے یونیورسٹیوں کو اپنی تحویل میں لینے کے متعلق ایک فکر انگیز تحریر لکھی ہے۔ اس تحریر نے یاد دلایا کہ پاکستان میں اعلی تعلیم کے گرتے ہوئے معیار اور وفاقی اور صوبائی سرکاری جامعات میں بد انتظامی کے متعلق سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلہ 24 اکتوبر 2024ء کو جاری کیا تھا۔ اب چونکہ اس فیصلے کو 3 مہینے ہوچکے ہیں، تو دیکھنا چاہیے کہ اس فیصلے پر کتنا عمل درآمد ہوا ہے اور عمل درآمد نہ کرنے کےلیے کون ذمہ دار ہیں؟
سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم نکات
اس فیصلے سے قبل عدالت نے تعلیم کی وفاقی اور صوبائی وزارتوں اور ایچ ای سی کے علاوہ سرکاری جامعات کے وائس چانسلروں کو بھی تفصیل سے سنا۔ وزارتِ تعلیم اور ایچ ای سی نے متعدد جامعات کے متعلق شکایات کا انبار لگا دیا۔ چار تفصیلی سماعتوں کے بعد عدالت کے سامنے کئی اہم مسائل آئے: اکثر جامعات مستقل وائس چانسلر کے بغیر چلائی جارہی ہیں؛ جامعات کے فیصلہ ساز اداروں (سینڈیکیٹ، بورڈ آف گورنرز وغیرہ) کے اجلاس باقاعدگی سے، اور بروقت، منعقد نہیں کیے جاتے؛ جامعات میں اہم عہدوں (جیسے رجسٹرار، ڈین، چیئرپرسن وغیرہ) پر عارضی تعیناتیاں ہوتی ہیں جبکہ قانون ان عہدوں پر مقررہ مدت کےلیے مستقل تعیناتی لازم کرتا ہے؛ جامعات مالیاتی بحران کا شکار ہیں؛ جامعات میں اساتذہ اور طلبہ کو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور انتظامیہ آمریت کا رویہ اپنائے ہوئے ہے؛ کیمپس اور ہاسٹلوں میں تشدد اور منشیات کی شکایات بھی ہیں۔ عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں بعض جامعات کے متعلق خصوصی احکامات بھی دیے اور آخر میں عمومی احکامات بھی دیے جن کا اطلاق تمام جامعات پر ہوتا ہے۔
3 جامعات اب بھی صرف کاغذ پر ہی پائے جاتے ہیں!
وفاقی وزارتِ تعلیم کے تحت 12 جامعات میں 3 کے متعلق بتایا گیا کہ وہ قانون اور قاعدے ضابطے کے مطابق چل رہی ہیں اور ایک جامعہ میں معمولی مسائل تھے۔ 3 جامعات کے متعلق بتایا گیا کہ ابھی انھوں نے کام ہی شروع نہیں کیا۔ آج بھی یہ 3 جامعات صرف کاغذات میں ہیں، لیکن ان کے کرتا دھرتا قومی خزانے سے بھاری تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں۔ باقی 5 جامعات کا حال دیکھ لیں۔
قائدِ اعظم یونیورسٹی
قائدِ اعظم یونیورسٹی میں خازن (treasurer) کا عہدہ 2017ء سے تاحال خالی ہے؛ یونیورسٹی کے ارد گرد دیوار کی تعمیر ابھی تک مکمل نہیں ہوسکی؛ اور طلبہ یونین کےلیے انتخابات ابھی تک منعقد نہیں کیے جاسکے۔ وائس چانسلر نے ان تینوں کاموں کی یقین دہانی عدالت کو کرائی تھی۔
وفاقی اردو یونیورسٹی
وفاقی اردو یونیورسٹی میں 2019ء سے کئی اہم عہدے خالی ہیں۔ عدالت نے وزارتِ تعلیم اور ایچ ای سی کی تجویز مان کر وائس چانسلر کو اختیار دیا کہ ان عہدوں کو پھر مشتہر کیا جائے لیکن جنھوں نے پہلے درخواستیں دی ہیں، انھیں بھی مقابلے میں شامل کیا جائے۔ وائس چانسلر کی یقین دہانی کے باوجود آج بھی یہ عہدے خالی ہیں۔
نیشنل سکلز یونیورسٹی
نیشنل سکلز یونیورسٹی میں رجسٹرار اور خازن نہیں تھے اور وائس چانسلر کے عہدے پر سابق وائس چانسلر کو عارضی چارج دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کی بازپرس پر رجسٹرار اور خازن کی تعیناتی کی گئی اور یقین دہانی کرائی گئی کہ چند دنوں میں وائس چانسلر کی تعیناتی ہوجائے گی مگر ایسا اب تک نہیں ہوسکا۔ یہ یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے، یہاں اساتذہ کو ہائرنگ اور میڈیکل کی سہولیات میسر نہیں مگر عارضی وائس چانسلر مسلسل سلیکشن بورڈ کرکے نئی بھرتیاں کرتے جارہے ہیں۔ مریدکے میں کیمپس دوسال پہلے کھولا گیا مگر وہاں تاحال کوئی پروگرام شروع نہیں کیا جاسکا اور وہاں کے لیے بھرتی کیےگئے اساتذہ سے اسلام آباد میں کام لیا جارہا ہے۔
این ایف سی ملتان
این ایف سی انسٹی ٹیوٹ فار انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان کے عہدے پر 2018ء سے ایک شخص ناجائز طور پر قابض تھا۔ عدالت نے اسے فوری طور پر ہٹا کر عارضی ذمہ داری کےلیے مناسب بندوبست کرنے اور قانون کے مطابق مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی کےلیے حکم دیا۔ وزارتِ تعلیم نے 12 نومبر 2024ء کو ”ایچ ای سی کی مشاورت سے“ 90 دن کےلیے اس عہدے کا ”اضافی چارج“ ایک ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل کو دیا۔ قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ انھی جرنیل صاحب کو جولائی 2024ء میں ایچ ای سی نے ”نیشنل ٹیکنالوجی کونسل“ کے چیئر پرسن کی حیثیت سے 4 سال کےلیے تعینات کیا تھا اور انھی کے پاس نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اسلام آباد کے ریکٹر کا عہدہ بھی ہے!
اسلامی یونیورسٹی
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا معاملہ تو اس سے بھی برا ہے۔ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے 9 نومبر 2024ء کو اس کے عارضی ریکٹر کا چارچ سنبھالا، لیکن ان کے نوٹی فیکیشن میں 90 دن کا ذکر نہیں ہے۔ عدالت نے سابق ریکٹر ڈاکٹر ثمینہ ملک کو معطل کرتے ہوئے ان کی برطرفی اور نئے ریکٹر کی تعیناتی کےلیے بھی حکم دیا تھا، لیکن تا حال سابق ریکٹر کی برطرفی کا نوٹی فیکیشن نہیں کیا گیا، نہ ہی نئے ریکٹر کی تعیناتی کےلیے اشتہار دیا گیا ہے۔ شنید ہے کہ ڈاکٹر مختار مستقل ریکٹر بننا چاہتے ہیں اگرچہ ان کی عمر 65 سال سے زائد ہوچکی ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ عمر کی یہ حد وائس چانسلر کےلیے ہے، نہ کہ ریکٹر کےلیے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ڈاکٹر مختار اس جامعہ میں صدرِ جامعہ کو بھی وائس چانسلر کی حیثیت نہیں دینا چاہتے۔ چنانچہ انھوں نے صدرِ جامعہ کےلیے جو ”معیارات“ منظور کروانے کی کوشش کی ہے، ان میں یہ شرط ہی نہیں ہے کہ وہ فل پروفیسر ہو۔ یاد ہوگا کہ جامعہ کے پچھلے صدر بھی اسسٹنٹ پروفیسر تھے اور اس وجہ سے کسی شعبے کے چیئرمین یا کسی فیکلٹی کے ڈین بھی نہیں بن سکتے تھے۔ ڈاکٹر مختار صدرِ جامعہ کی تعیناتی کےلیے اشتہار دینے سے بھی گریز کررہے ہیں جبکہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ ان عہدوں کو باقاعدہ مشتہر کرکے شفاف طریقے سے میرٹ پر تعیناتی کی جائے۔ اس کے بجاے ڈاکٹر مختار نے 18 جنوری کی شام کو گنتی کے چند وائس چانسلروں کو ای میل کرائی اور کہا کہ وہ اپنے اپنے دائرے میں اس بات کو مشتہر کریں کہ اگر کوئی شخص اسلامی یونیورسٹی کا صدر بننا چاہتا ہے تو وہ مطلوبہ فارم پر تمام دستاویزات کے ساتھ درخواست دیں اور یہ درخواست 22 جنوری تک دینی لازم ہے، یعنی صرف 4 دن، جن میں ڈیڑھ دن چھٹی کے تھے!
ڈاکٹر مختار، سپریم کورٹ اور 18 ویں ترمیم
ڈاکٹر مختار کو جولائی 2024ء میں بطور چیئرمین ایچ ای سی مزید ایک سال کی توسیع دی گئی تھی اور اس توسیع کی قانونی حیثیت پر کئی سوالات ہیں، لیکن شاید وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، اس لیے پچھلے ہفتے وائس چانسلروں کےاجلاس میں انھوں نے وائس چانسلروں پر اپنی راے مسلط کرنے کی کوشش کی اور جب کئی وائس چانسلروں نے ان کو یاد دلایا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد ایچ ای سی صوبوں میں مداخلت نہیں کرسکتی، تو انھوں نے اس ترمیم کو تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے نظرانداز کرکے بس یہ دیکھنا چاہیے کہ ملک و قوم کے مفاد میں کیا ہے! پچھلے مہینے اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں ڈاکٹر مختار نے جامعات کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے متعلق بھی اس قسم کا رویہ اختیار کیا اور یہاں تک کہا کہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی ختم ہوگیا ہے! کیا اعلیٰ تعلیم کے نظام کے سربراہ کی حیثیت سے ایسے شخص کی موجودگی میں جس کاآئین، قانون اور عدالتی فیصلوں کے متعلق یہ رویہ ہو، توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ نظام قانون کے مطابق چلایا جاسکے گا اور اس میں بہتری لائی جاسکے گی؟
تبصرہ لکھیے