سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لِیے ہیں جو خالق ، مالک رازق ، رب ، الہٰ ہے ۔ اللہ اکیلا ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں، وہ بے نیاز ہے ۔اللہ نے تمام مخلوقات بنائی ہیں، زمین و آسمان اور اس میں جو کچھ ہے سب کچھ اللہ نے بنایا ہے ۔ اور نعت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ہے.
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی اور رسول حضرت محمد ﷺ تک ، سب نے اللہ کی طرف بلایا اور درسِ توحید دیااور شرک سے منع فرمایا ۔ درود و سلام ہو تمام انبیا ؑ و رسلؑ پر ، جنہوں نے اللہ کے احکامات لوگوں تک پہنچائے اور اپنے قول و عمل سے اُس کی شہادت بھی دی ۔ مولانا ماہرؔ القادریؒ نے بہت عمدہ اشعار کہے ہیں ملاحظہ کیجیے:
جس کا پَیغام ، پیغامِ توحید تھا ، کوئی حاجت رَوا ہے نہ مُشکل کشا
صرف تَنہا خُدا ، صِرف تنہا خدا ، ہے وُہی کارساز اور وہی غیب داں
بند ے اَور اللہ میں رکھا ہر عالم میں فرقِ مراتب
شِرک کے دُشمن ، ماحیِ بدعت صَلَّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
فرمایا: تم قبر کو میری سجدہ گہ ہر گز نہ بنانا
اللہ اللہ پاسِ شریعت صَلَّی اللہ ُ عَلَیْہِ وَسَلَّم
محسنِ انسانیت محمد رسول اللہ ( صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ) کی تعریف و توصیف منظوم صورت میں بیان کرنے کو نعت کہتے ہیں، آنحضرت محمد مصطفی احمدِ مجتبیٰ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے قول و عمل ، صورت و سیرت کوا شعار میں کہنے کو نعت؍ نعتیہ کلام کہتے ہیں۔ شاعری انسانیت کی معراج ہے تو معراجِ سخن حمد و نعت ہے۔
نعت لکھنا مشکل ترین مرحلہ ہے جسے سر کرنا ہر شاعر کی بس کی بات نہیں نیز نعت صرف فنی عمل کا نام نہیں۔ یہ تو سیّدِ انسانیّت محمد مصطفیٰ ﷺ پر ایمان لانے کے بعد ، آپﷺ سے عقیدت و محبت کرنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے لو لگانے کے بعد، اللہ تعالیٰ سے نعت لکھنے کی توفیق اور صلاحیّت مانگنے کے بعد ، جب یہ نعمت مل جائے ،تو جو نعت لکھی جائے گی وہ اپنے آپ کو منوائے گی، جو نعت کہنے والے اور سننے والے پر اپنا اثر دکھائے گی اور ان پر سکینت طاری کرے گی۔
نعتیہ اشعار نعت کی نیّت سے لکھے جاتے ہیں ۔ ذومعنی اشعار نعت کہلانے کا حق نہیں رکھتے۔ بعض لوگ اپنی فاسقانہ شاعری کے ذومعنی اشعار کو نعت کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ وہ شاعر اور اس کے چاہنے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ اشعار کس غرض کے لیے لکھے گئے ہیں ۔ اس لیے احتیاط کی جائے ۔
’’ حمد ‘‘ اللہ تعالیٰ کے لِیے اور ’’ نعت ‘‘اللہ کے محبوب رسول نبیٔ محترم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے لیے خاص ہے۔اگر غزل یا نظم میں حمد کا ایک شعر آجائے تو اسے حمد نہیںکہتے، اس طرح التزاماََ نعت کا شعر آ جائے تو پوری نظم یا غزل نعت نہیں بن جاتی ۔ اگر ہم غزل یا نظم میں مدینہ اور اس کی گلیوں یا وہ چیزیں جن کا محمدؐ رسول اللہ سے کچھ نسبت ہے اس کا ذکر تمام اشعار میں ہو اور صرف ایک شعر میں آں حضور ﷺکا ذکر ہو تو اُسے نعت سمجھنا مناسب نہیں ہے۔
حقیقت میں نعت وہ ہے جس میں آں حضرت محمد ﷺ کی صورت ، اخلاق و اعمال، تعلیمات و احکامات کا ذکرِ خیر ہو۔ ہر وہ شے جس کی سرورِ عالم ﷺ سے جس کی نسبت ہے ۔وہ قابلِ احترام ہے ۔ان کا ذکر کرنا اچھا عمل ہے لیکن ان ہی کا ذکر نعت سمجھنا غلطی ہے۔ہر شے کا اپنا مقام ہے ،اسے اس مقام پر ہی رکھنا بہتر ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ کا مقام و مرتبہ ان سب اشیا اور مخلوقات سے بلند ہے ۔
حضور ﷺ کو ان کی نسبت کی ضرورت نہں ہے اور نہ ہی ان کی نسبت سے حضورﷺ کو یاد کیا جائے ۔ جب کسی نظم کے تمام اشعار آپﷺ کے اخلاق ، اقوال اور افعال پر مشتعمل ہوں گے تب اس نظم کو نعت کہیں گے۔مولانا ماہرؔ فرماتے ہیں:
سلام اُس پر جو دُنیا کے لیے رحمت ہی رحمت ہَے
سلام اُس پر کہ جِس کی ذات فخرِ آدمیّت ہَے
محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانا ، آپ ﷺ کی اطاعت و پیروی کرنا اور آپﷺ سے محبت و عقیدت رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔اس عقیدت و محبت کے تقاضے کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر پیش کرنا نعت کہلاتا ہے ۔نعت لکھنا، نہایت نازک مسئلہ ہے ذرا سی بے احتیاطی رسولِ اکرم ﷺ کے مقام و مرتبہ کو کم کر سکتی ہے جو بے ادبی اور گستاخی کے زمرے میں آتی ہے ۔ذرا سے غفلت سے رُتبہ بلند ہو کر اللہ تعالیٰ مل سکتا ہے جو شرک کے زمرے میں آتا ہے ۔کسی شاعر نے خوب کہا ہے۔
ادب گاہ ہست زیر آسماں از عرش نازک تر
نَفَس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
ماہرؔ کہتے ہیں: مُحَمَّدِؐ عَرَبی سے ہوں لَو لگائے ہُوئے
یہ وُہ چراغ ہے جو آندھیوں میں جَلتا ہے
خُدا بچائے مُسلماں کو شِرک و بدعت سے
وُہ دین ہی نہیں جو دین میں اضافا ہے
نعت وہ انسان کہہ سکتا ہے جس کے اندر اللہ نے شعر کہنے کی صلاحیت رکھی ہے ، جس نے اپنے خالق سے موزوں طبیعت پائی ہو، وہ مسلمان ہو ، اس کا ایمان اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ پر ہو اور آپ ﷺ پر اُتاری گئی الکتاب ( قرآن ) پر ہو، سیرت سرورِ عالم ﷺ کا گہرا مطالعہ رکھتا ہو ، زبان پر مضبوط گرفت رکھتا ہو۔آپﷺ سے محبّت و عقیدت رکھتا ہو۔ آپ ﷺ کو اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھتا ہو اور ایک سچّا پیرو کار ، اطاعت شعار اُمتی ہو،ساتھ ساتھ قرآن اور اسوۂ حسنہ ﷺ کا علم رکھتا ہو۔
خالق اور مخلوق ، اللہ اور رسولﷺ ، نبی ﷺ اور اُمتی کے فرق ، مقام و مرتبہ سے واقف ہو ۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی گفتار و کردار سے اس بات کی شہادت دے کہ وہ واقعی اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے۔ ایسا انسان جب نعت لکھے گا ۔یقیناََ وہ نعت لکھنے کا حق ادا کرے گا ۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو یہ زبانی جمع خرچ ہے ، ایک کیسٹ یا کاتب کا کردار ادا کر رہا ہے ۔یہ مسلمان کا شیوہ نہیں اور نہ ہی مسلمان ہونے کا مقصد ہے ۔جس کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔ مسلمان نعت گو کے قول و عمل میں یکسانیّت لازم اور فرض ہے ۔ کسی شاعر نے بہت خوبصورت ترجمانی کی ہے :
تر جو النجاۃ ولم تسلک مسالکھا
ان السفینہ لاتجری علی الیبس
مفہوم : تم نجات کی امید لگائے بیٹھے ہو مگر تم نجات کی راہوں پر چلے نہیں ، کشتی کبھی خشکی پر نہیں چلا کرتی ۔
حضور پاک ﷺ کی نبوت و رسالت قیامت تک ہر آنے والے انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہیں اور سارے جہاں کے لیے ہے۔آپﷺ کے بغیر دین نامکمل ہے۔ ماہر القادریؒ نے خوب کہا ہے:
نبوّت کا خطاب عام ہے سارے زمانے سے
وُہ شرقی ہو کہ غربی ہو ، وُہ شہری ہو کہ صحرائی
تُجھے جِس نے نہ پایا وُہ خُدا کو پا نہیں سکتا
کہ تیری معرفت اللہ کی پہچان ہے ساقیؐ
اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو نبوت و رسالت عطا فرمائی اور اپنی آخری الکتاب بھی عطا کی ۔ قرآن مجید کی تعلیمات و تشریحات بھی وَحَی فرمائی۔ آپﷺ کی آحادیث مبارک قرآن کی تشریح ہے ۔ آپ ﷺ کی آحادیث کو چھوڑ کر انسان قرآن کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔ جو انسان یہ کہتا ہے کہ مَیں آحادیثِ نبویﷺ کے بغیر قرآن سمجھ سکتا ہوں وہ جھوٹا ہے ۔ماہرؔ کہتے ہیں:
ہر عُقدۂ دُشوار کس انداز سے کھولا
قُربان تِرے جنبشِ مِژگانِ محمدؐ
حکمت تِری کنیز ، تفکّر تِرا غلام
سمجھے ہیں کِس نے معنیٔ قرآں تِرے بغیر
تُجھ سے نہ ہو جو ربط وُہ فِکر و نظر ہی کیا
عِلم و خبر میں جہل نمایاں تِرے بغیر
پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں:
’’ایک اچھے نعت گو کے لیے حمد اور نعت کے درمیان حدِّ فاصل قائم رکھنا ضروری ہے ۔ یہ ایک نازک مقام ہے اور اس کے لیے مہارتِ فن کی ضرورت ہے ۔ پھر غلو سے اجتناب ضروری ہے ۔ آں حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی سے کوئی ایسی صفت وابستہ نہ کی جائے جو صفتِ باری تعالیٰ ہو۔ مُبادا شاعر کا دامن شرک سے آلودہ ہو ۔ نعت گوئی کے ضمن میں ضروری ہے کہ نعت رسماََ نہ کہی گئی ہو بلکہ آپﷺ سے والہانہ عقیدت اور شیفتگی اس کی بنیاد ہو ۔ جہاں تک زبان و بیان کا تعلق ہے نعت گو کی زبان پاکیزہ اور الفاظ و تراکیب آپ ﷺ کے مرتبے و حثییت کے مطابق ہونے چاہئیں اور اس کا لہجہ نرم ، دھیمہ اور پُر سوز پُر تاثیر ہونا ضروری ہَے۔ ‘‘
قرآن اور آحادیث نبوی ﷺ کے احکامات ابدی ہیں۔جو شخص مسلمان ہونے کا اعلان کرے ، کہ مَیں اللہ کو اپنا خالق ، مالک ، رازق ، رب اور الہٰ مانتا ہوں اور آں حضور ﷺ کو اللہ کا سچا رسول اور نبی مانتا ہوں ، نبیٔ رحمت ﷺ ہمارے رہبر اور رہنما ہیں ۔ اگر وہ سچا ایمان لانے والا ہے تو اس کا رویہ و طرزِ عمل رہبرِ انسانیت حضرت محمد ﷺ کے اسوہ حسنہ کا مخالف نہیں ہو گا ۔
آپ ﷺ کی تعظیم و تکریم اسی طرح کرے گا جس طرح دورِ اؤل کے مسلمانوں کی ہے ۔وہ اپنے معاملات میں اس شریعت کا پابند رہے گا جو قرآن اور آحادیث نبوی ﷺ کی صورت میں حضرت محمد ﷺ نے دی ہے ۔دین اسلام صرف انفرادی مذہب نہیں ہے بلکہ یہ اجتماعی دین ہے ۔شریعتِ محمدی مسلمان کو صرف انفرادی پابندی کاحکم نہیں دیتی بلکہ اجتماعی فیصلوں پر پابند رہنے کا حکم دیتی ہے۔ قرآن و آحادیث نبوی ﷺ کا احکامات و تعلیمات صرف اُس دَور کے لیے نہیں تھے بلکہ یہ تو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے ہدایت و رہنمائی کا دستور ہے ۔ ان قوانین پر عمل کر کے ہی انسان فلاح پا سکتا ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’ َاَے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اللہ اور اُس کے رسول ( ﷺ ) کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو ، اللہ سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اپنی آواز نبی ( ﷺ ) کی آواز سے بلند نہ کرو ، اور نہ نبی ( ﷺ ) کے ساتھ اونچی آواز سے بات کیا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دُوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو ۔‘‘ سُوْرۃ الْحُجُرات آیت ۱، ۲
یہ وہ ادب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی مجلس میں بیٹھنے والوں اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے والوں کو سکھایا گیا تھا ۔ اس کا منشا یہ تھا کہ حضور ﷺ کے ساتھ ملاقات اور بات چیت میں اہلِ ایمان آپ ﷺ کا انتہائی احترام ملحوظ رکھیں ۔ کسی شخص کی آواز آپ ﷺ کی آواز سے بلند تر نہ ہو ۔ آپ ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے لوگ یہ بھول نہ جائیں کہ وہ کسی عام آدمی یا اپنے برابر والے سے نہیں بلکہ اللہ کے رسول ﷺ سے مخاطب ہیں اس لیے عام آدمیوں کے ساتھ گفتگو اور آپﷺ کے ساتھ گفتگو میں نمایاں فرق ہونا چاہیے اور کسی کو آپﷺ سے اونچی آواز میں کلام نہ کرنا چاہیے ۔
یہ ادب اگرچہ نبی ﷺ کی مجلس کے لیے سکھایا گیا تھا اور اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو حضور ﷺ کے زمانے میں موجود تھے ، مگر بعد کے لوگوں کو بھی ایسے تمام مواقع پر یہی ادب ملحوظ رکھنا چاہیے جب آپ ﷺ کا ذکر ہو رہا ہو ، یا آپ ﷺ کا کوئی حکم سنایا جائے ، یا آپ ﷺ کی آحادیث بیان کی جائیں ، اس کے علاوہ اس آیت سے یہ ایماء بھی نکلتا ہے کہ لوگوں کو اپنے سے بزرگ تر اشخاص کے ساتھ گفتگو میں کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے ۔ کسی شخص کا اپنے بزرگوں کے سامنے اُس طرح بولنا ، جس طرح وہ اپنے دوستوں یا عام آدمیوں کے سامنے بولتا ہے ، دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دِل میں ان کے لیے کوئی احترام موجود نہیں ہے ، اور وہ ان میں اور عام آدمیوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا ۔
ادب و احترام اور حبِ رسول اللہ کا یہ بھی تقاضاہے کہ آپ ﷺ پر کسی بھی قسم کا حرف نہ آنے دیں اور حرمتِ رسولﷺ کی خاطر، گستاخ اور بے ادب کو کو باز رکھنے کے لیے اپنی جان تک قربان کر دے۔ عاشقِ رسولﷺ کا یہی طرزِ عمل ہونا چاہیے ۔ ماہرؔ القادری کہتے ہیں:
اِس نام کی عظمت پہ مَیں سو جان سے قُربان
وہ نام کہ جو شاملِ تکبیر و اذاں ہے
ماہرؔ محبّتِ رسولﷺ کا صلّہ ملنے کے حوالے سے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
بادشاہوں کو مِلی شاہی ، مجھے عشقِ نبیؐ
اپنا اپنا ظرف جِس کو جو میسّر آ گیا
حمد و نعت کہتے ہوئے ذومعنی الفاظ نہیں کہنا چاہیے ۔شاعر جو لفظ استعمال میں لائے ، اسے ان کے معنی معلوم ہونے چاہیے ۔ ان تمام الفاظ سے پرہیز کرنا چاہیے جن کے معنی مثبت اور منفی ہوں ، جن میں گستاخی اور توہین کا پہلو موجود ہو۔جس میں شرک اور بے ادبی کاپہلو ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے اہلِ ایمان کو حکم دیا ہے ۔ کہ ذومعنی الفاظ سے پرہیز کرو۔ ورنہ ایمان ضائع ہو جائے گا ۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَ ایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (۱۰۴) مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَلاَ الْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْْکُمْ مِّنْ خَیْْرٍ مِّن رَّبِّکُمْ وَاللّہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآء ُ وَاللّہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (۱۰۵ ) سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ
ترجمہ :’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، رَاعِنَا نہ کہا کرو ، بلکہ اُنْظُرْنَا کہو اور توجّہ سے بات کو سُنو ،یہ کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں ۔ یہ لوگ جنھوں نے دعوتِ حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے ، خواہ اہلِ کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں ، ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو ، مگر اللہ جس کو چاہتا ہے ، اپنی رحمت کے لیے چُن لیتا ہے اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے ۔‘‘ سورۃ البقرۃآیت نمبر ۱۰۴، ۱۰۵
یہودی جب آں حضرت ﷺ کی مجلس میں آتے ، تو اپنے اور کلام میں ہر ممکن طریقے سے اپنے دِل کا بخار نکالنے کی کوشش کرتے تھے ۔ جب آں حضرت ﷺ کی گفتگو کے دوران میں یہودیوں کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ ٹھیریے ذرا ہمیں یہ بات سمجھ لینے دیجیے ۔ تو وہ رَاعِنَا کہتے تھے ۔ اس لفظ کا ظاہری مفہوم تو یہ تھا کہ ذرا ہماری رعایت کیجیے یا ہماری بات سُن لیجیے ۔ مگر اس میں کئی پہلوؤں سے بُرے معنی بھی نکلتے تھے ۔ اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تم اس لفظ کے استعمال سے پرہیز کرو اور اس کے بجائے اُنْظُرْنَا کہا کرو ۔ یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیے یا ذرا ہمیں سمجھ لینے دیجیے ۔
حضور پاک ﷺ کی تعظیم و تکریم کا خاص خیال رکھنا لازمی ہے۔ آپ ﷺ سے ملاقات کرنا ہو یا بات کرنی ہو ، ادب و احترام کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کرنا ضروری ہے۔ اس آیت میں مخاطب تو وہ لوگ ہیں جو اس زمانے موجود تھے۔لیکن یہ ہمارے لیے اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے حکم ہے ۔محسنِ انسانیّت حضرت محمد ﷺ کی دی ہوئی شریعت روزِ محشر تک کے لیے ہے آپ ﷺ اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں ۔ علامہ اقبالؒ نے کتنی خوبصورت ترجمانی کی ہے :
اے کہ بعد از تو نبوت شد بہر مفہوم شرک
بزم را روشن زِ نورِ شمعِ ایماں کردہ ای
اے ( نبیٔ مکرم ﷺ ) آپ ﷺ کی ذات وہ ذات ہے جس کے آنے کے بعد نبوت کا دروازہ اس طور بند ہوا کہ اب ہر مفہوم میں نبوت شرک ٹھہری ۔ آپ ﷺ نے محفلِ کائنات کو شمعِ ایمان کے نور سے روشن فرما دیا ‘‘
ماہرؔ القادریؒ نے بہت عمدہ اشعار کہے ہیں ملاحظہ کیجیے :
دین کامل ہے زمانے کی ضرورت کے لِی خاتم الانبیاء ، رحمتِ دوجہاں ، حامیٔ بیکساں ، شافعِ عاصیاں
اب کوئی اور نہ آئے گا ہدایت کے لِی
نُورِ کون و مکاں ، نازِ رُوحانیاں ، غیرتِ قُدسیاں ، فخرِ پَیغمبراں
ماہرؔ القادریؒ کا مختصر تعارف ملاحظہ کیجیے:
’’ماہرؔ القادری ؒ کا اصل نام منظور حسین ، ماہر تخلص تھا ۔سلسلہ قادریہ میں بیعت ہونے کی وجہ سے القادری تخلص کا جزو بن گیا ، یوں قلمی نام ماہر القادری بن گیا ۔ والد کا نام محمد معشوق علی ظریفؔ تھا جو زراعت پیشہ تھے مگر علمی و ادبی ذوق رکھتے تھے عربی ، فارسی اور انگریزی سے آگاہ تھے اور شعر بھی کہتے تھے ۔ ماہرؔ مرحوم اپنی حمدیہ و نعتیہ شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
’’ نعتِ رسُول ﷺ میری گُھٹّی میں پڑی تھی ، ہوش سنبھالا تو شعر گوئی کے لَیے طبیعت کو موزوں بلکہ آمادہ پایا ۔ مَیں یہ کہتے ہوئے فخر محسُوس کر رہا ہوں کہ میری شاعری کی ابتدا حمد و نعت سے ہوئی اور ان شا اللہ خاتمہ بھی اسی پر ہو گا ‘‘ ذِکرِ جمیل صفحہ ۲۶ . ماہرؔ کی تاریخ پیدائش ۳۰؍ جولائی ۱۹۰۶ء ہے۔ پیدائش کا مقام قصبہ کسیر کلاں ضلع بلند شہر یو پی تھا ۔ماہر القادری نے قرآن اور اُردُو کی ابتدائی تعلیم مکتب سے اور فارسی کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ۔ نو سال کی عمر میں ، یعنی ۱۹۱۵ء میں کبیر مڈل سکول ڈبائی میں داخلہ لیا ، اس وقت تک کتاب ’’ گلستان ‘‘ پڑھ چکے تھے ۔
ایک طالب علم کی حثییت سے ماہر کو تاریخ ، اُردو اور فارسی میں تو امتیازی حثییت حاصل رہی مگر ریاضی میں کمزور تھے۔اس لئے ۱۹۲۴ء میں جب انہوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان دیا تو فیل ہو گئے ، زراعت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ چاہتے تھے سرکاری ملازمت مل جائے لیکن سرکاری ملازمت کے لئے میٹرک پاس ہونا ضروری تھا ۔ انہوں نے میٹرک پاس کرنے کے لئے ازسرِ نو تیاری شروع کی ، خوب محنت کی اور۱۹۲۶ء میں میٹرک کا امتحان مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے پاس کر لیا ۔
ماہرؔ صاحب حیدر آباد دکن میں پندرہ برس تک مقیم رہے ۔ وہاں کی علمی ادبی فضا سے انہوں نے گہرا اثر قبول کیا ۔ ۱۹۴۶ء میں آپ دہلی چلے گئے وہاں رہائش اور دفتر کے لیے مکان خریدہ اور ایک رسالے کا اجازت نامہ حاصل کیا لیکن ملک میں ہنگامی حالات ہو گئے ۔ تقسیمِ ہند سند کا مرحلہ ہوا ۔ہجرتیں ہوئیں اور کافروں نے مسلمانوں کا قتلِ عام کرنا شروع کر دیا ۔ (جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔) آپ بھی ہجرت کر کے پاکستان آ گئے ، چند ماہ ملتان میں رہے ،پھر کراچی آگئے جہاں سے آپ نے اپریل ۱۹۴۹ء سے ماہنامہ فاران کراچی جاری کیا ۔
جس میں تقریباََ نصف تحریریں آپ کی ہوتی۔ وفات تک اس کے مدیر رہے ۔ماہنامہ فاران کراچی تقریباََ انتیس سال آپ کی ادارت میں، مسلسل شائع ہوتا رہا ، اس میں کبھی ناغہ نہیں آیا ۔۱۹۵۴ء میں ماہرؔ القادریؒ نے حج کی سعادت حاصل کی ، مدینہ منورہ میں حاضری دی ۔اپنے مشاہدات و تاثرات قلم بند کیے۔ اس سفر کی روداد کو ’’ کاروانِ حجاز ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیا :
کس بیم و رجا کے عالم میں طیبہ کی زیارت ہوتی ہے
اِک سمت شریعت ہوتی ہے ، اِک سمت محبّت ہوتی ہے
مارچ ۱۹۶۹ء میں ڈربن کے مسلمانوں کی دعوت پر جنوبی افریقہ کے دورے پر گئے ،نیز آپ نے اس سفر میں مشرقی افریقہ ، یورپ ، ترکی ، بیروت کی سیاحت کے علاوہ مکہ اور مدینہ کے سفر کی بھی سعادت حاصل کی ، اگست ۱۹۷۶ء میں انہیں تیسری بار عمرہ کا اعزاز نصیب ہوا ، اس سفر میں انہوں نے انگلستان کی سیاحت بھی کی۔آخری بار مئی ۱۹۷۸ء میں حجاز تشریف لے گئے ، ۱۲ مئی کو انہوںنے کعبۃ اللہ میں حاضری دی اور عمرہ ادا کیا ، اسی رات کو جدّہ شہر میں ایک مشاعرہ تھا اس میں شرکت کی اور وہیں حرکتِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے ، نماز جنازہ حرمِ کعبہ میں ادا کی گئی اور جنتِ معلیٰ میں دفن کیے گئے۔
آپ کی نثر و نظم کی متعدد کتابیں شائع ہوئی ہیں ، ہزاروں صفحات نثر کے ابھی باقی ہیں جنہیں کتابی صورت میں شائع کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو اُردُو زبان و ادب کے لیے قیمتی اثاثہ ہے۔ آپ کی چند کتابوں کے نام درج کیے جاتے ہیں ۔ حمد و نعت : ظہورِ قدسی ، ذکرِ جمیل۔ ناول: دُرِّ یتیم ﷺ ۔ سفرنامہ : کاروانِ حجاز ( سفر نامہ حج ) ۔ سیرت: آخری رسول ﷺ ۔ مذہبی کتب :خدا اور کائنات ۔ نقشِ توحید ۔ ابھی بہت سے تحریریں سیرت سرورِ عالمﷺ ،دینِ اسلام کی ترجمانی اور دفاع ،حمدیہ و نعتیہ ،قومی و ملی کلام رسائل و اخبارات کی فائلوں میں دفن ہے کاش کوئی اس دفینہ کو نکال کر منظرِ عام پر لے آئے ۔
یہ لوازمہ قومی زبان اُردُو اور دینِ اسلام کی تفہیم و تشریع کے حوالے سے انتہائی قیمتی سرمایہ ہے ۔ نوٹ: یہ معلومات ہفت روزہ ایشیاء لاہور ، سیارہ لاہور ، ماہنامہ فاران کراچی ماہر القادری نمبر اور کُلیاتِ ماہر مرتب ڈکٹر عبدالغنی فاروق سے لی گئی ہیں۔ ماہرؔ مرحوم نے اپنے حمدیہ و نعتیہ مجموعے کا نام ذِکرِ جمیل رکھا ، اس عنوان سے دو نعتیں لکھی ہیں ۔ایک سات (۷ )اشعار اور دوسری تیرا (۱۳)ا اشعار پر مشتعمل ہے ۔ان میں سے ایک شعر ملاحظہ فرمائیے:
کیف و سَر مستی کا اِک پَیغامِ رنگیں تیرا نام
اِنبساطِ رُوح کی دعوت تِرا ذِکرِ جمیل
ماہر القادریؒ کے مجموعۂ حمد و نعت ’’ ذکرِ جمیل ‘‘ کا مختصر تعارف درج کیا جاتا ہے:
کتاب کا نام: ذکرِ جمیل ۔ شاعر : ماہر القادری ۔ مرتبہ: طالب ہاشمی ۔طبع جدید اشاعت اؤل: جنوری ۱۹۸۹ء ناشر : طالب ہاشمی سیکرٹری بزمِ فاران ، ۱۱۸ ڈی ، اعوان ٹاؤن ملتان روڈ لاہور ۔ ضخامت: ۱۹۲ صفحات ۔ تَقدیم از پروفیسر حفیظ الرحمن احسنؔ ۔ سخن ہائے گفتنی از طالب ہاشمی ۔ انتساب از ماہرالقادری ۔ مقدمہ از ماہرالقادری ۔ کتاب کے آخر میں ایک تحریر’’ غریبوں کا والی غلاموں کے مَولا‘‘ ہے۔
سینتِیس۳۷ صفحات پر مشتعمل، یہ چھ نثری تحریریں شاملِ کتاب ہیں ۔اس کتاب میں حمدیں سولہ۱۶ ، جن میں سے ایک مثنوی اور پندرہ ( ۱۵ )غزل کی ہیٔت میں لکھی گئی ہیں ۔ منظومات ( نعتیہ ) بیالیس ۴۲ ، جن میں ایک مسدس ، سات (۷) مثنویاں اور باقی غزل کی ہیٔت میں کہی گئی ہیں اور نعتیں چوبیس ۲۴ شامل ہیں، جو غزل کی ہیٔت میں کہی گئی ہیں۔
آں حضور محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے لے کر قیامت تک ہدایت و رہنمائی کا واحد مآخذ اور منبہ ، آپﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات ہیں ۔آپﷺ کی بات حرفِ آخر ہے ۔ جس پر چل کر انسان کامیاب و کامران ہو سکتا ہے ، باقی سب طریقے باطل اور ابلیس کے طریقے ہیں جن میں ِذلّت و پستی ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لَقَدْ کَاَنَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْراً (۲۱) سُوْرَۃُ الْاَحْزَابِ
ترجمہ : ’’بیشک تمہاری رہنمائی کے لئے اللہ کے رسولؐ ( کی زندگی ) میں بہترین نمونہ ہے ۔ یہ نمونہ اس کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملنے اور قیامت کے آنے کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے ۔‘‘ سُورہ اَحزَاب آیت نمبر ۲۱ ۔
نبیٔ رحمت ﷺ کے ذریعے انسان نے اللہ کو جانا اور مانا ، توحید کا علمبردار ہوا۔ آپ کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا ؎
دشوار ہی نہیں یہ اَمرِ محال ہے نبی ؐ کا قول ہی ایمان کی بِنا ٹھرا
اللہ کے وجُود کا عرفان ترے بغیر
خدائے قادر و بَرترکو کِس نے دیکھا ہے
قرآن مجید اور آحادیث نبویﷺ میں آپﷺ کے اخلاق کی بلندی کا اعلان کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (۴)سورۃ القلم
ترجمہ: ’’ اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو ۔ ‘‘ سُورہ قَلَم آیت۴، ۷؎
’’ یعنی قرآن کے علاوہ آپﷺ کے بلند اخلاق بھی اِس بات کا صریح ثبوت ہیں کہ کفار آپﷺ پر دیوانگی کی جو تُہمت رکھ رہے ہیں وہ سراسر جُھوٹی ہے ، کیونکہ اخلاق کی بلندی اور دیوانگی ، دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں ۔ ‘‘
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
’’ اللہ کے نبی ﷺ کا اخلاق قرآن تھا ۔‘‘ مسلم
( یعنی قرآن مجید میں جن اعلیٰ اخلاقیات کی تعلیم دی گئی ہے وہ سب آپ ﷺ کے اندر پائے جاتے تھے ، آپ ﷺ ان کا بہترین نمونہ تھے ۔)
مولانا ماہرؔ نے بہت خوبصورت ترجمانی کی ہے اشعار ملاحظہ کیجیے: اِنسان کو شائستہ و خُود دار بنایا سادگی و خُلق میں جو آپ تھا اپنی نظیر نام قرآن میں جِس کے ہیں رؤف اور رحیم جِس کے اخلاق کی ہر طرف ہے مہک ، جِس کے جَلووں کی اَرض و سما میں چمک
تہذیب و تمدن تِرے شرمندۂ احساں
جِس کو فرشِ خاک پر سوتے ہوئے دیکھا گیا
جِس کی سِیرت کو ملا معجزۂ خُلقِ عظیم
جِس کا انصاف محکم ہے اور بے لچک ، جِس کی تعلیم انسانیّت کی زباں
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا مقام و مرتبہ تمام مخلوقات سے بلند و اعلیٰ رکھا ہے ۔ انسانوں میں سے آپﷺ ہی و ہ برگزیدہ ہستی ہیں جنہیں خالق کائنات نے معراج سے نوازا، جس کے ذریعے انسان کو عظمت ملی۔ ۔ماہرؔ القادری نے معراج کا ذکر اپنے اشعار میں کیا ہے:
معراج کی شب ایسے انوار نظر آئے تھا مسجدِ اقصیٰ میں جُھرمٹ جو رسولوںؑ کا بندہ ہے وُہ بندہ کہ ہے اللہ کا محبُوب
اے پردہ خُدائی کے اسرار نظر آئے
اُن سب سے حسیں میرے سرکارؐ نظر آئے
اِنسان وُہ اِنسان کہ مقصُودِ جہاں ہے
دَورِ حاضر میں ایک فکر اور نظریہ عام ہوتا جا رہا ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر ایمان لانے کا مقصد یہ ہے کہ زبانی اقرار ہی کافی ہے، آپﷺ کو نبی اور رسول مان لینا ہی سے شفاعتِ رسُول کے حق دار بن جائیں گے،یہی ہماری نجات کے لیے کافی ہے۔ جب کہ یہ نظریہ! قرآن اور محمد رسول اللہ کے فرمان کے سراسر خلاف ہے، اگر یہ نظریہ درست ہوتا تو دنیا کے تمام کافر زبانی اقرار کر لیتے۔ ایمان تو یہ ہے کہ زبان سے اقرار کرنا ، دل سے تصدیق کرنا اور اعضائے جسم سے عمل کر کے دکھانا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے :
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰاکَ عَلَیْْہِمْ حَفِیْظاً (۸۰)سُوْرَۃُ النِّسَآئِ
ترجمہ: جس نے اطاعت کی رسول کی تو یقیناََ اس نے اطاعت کی اللہ کی اور جس نے منہ پھیرا ، تو نہیں بھیجا ہم نے آپ کو ان کا پاسبان بنا کر۔‘‘ سورہ النسآء آیت نمبر ۸۰ ،
سیّدِ انسانیت حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ۔ جس کو مفہوم یہ ہے:
’’ بہترین کلام اللہ کی کتاب ( قرآن ) اور بہترین سیرت (آں حضرت) محمد ﷺ کی سیرت ہے۔ ( جس کی پیروی کی جانی چاہیے ) مسلم ، جابر ۔ ۱۱؎
حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں :
’’ ایمان کا مزہ چکھا اس شخص نے جو اللہ کو رب ماننے اور اسلام کو اپنا دین ماننے اور محمد ﷺ کو اپنا رسول تسلیم کرنے پر راضی ہو گیا ۔ ‘‘ بخاری و مسلم ۔،عباس۔ ۱۲؎
ماہرؔ القادریؒ نے اپنے کلام میںبیان کیا ہے:
اللہ کااِرشاد ، مُحمّدؐ کی زباں ہے تِری ذات سے محبّت ، تِرے حُکْم کی اطاعت کلامِ حق کی ہے تفسیر ماہرؔ وہ آئے جن کے ہر نقشِ قدم کو رہنما کہیے اُن کی محفل تجلّی کی روشن سَحَر وُہ آئے اور آئے بھی قرآن لِیے ہُوئے
یہ ایسی حقیقت ہے جو دُنیا پہ عیاں ہے
یہی زندگی کا مقصد ، یہی اصلِ دین و ایماں
حدیثِ مصطفیٰ کیا دِل نشیں ہَے
وہ آئے جن کے فرمانے کو فرمانِ خُدا کہی
اُن کی محفل سے باہر دُھواں ہی دُھواں
تنظیم ِکائنات کا ساماں لِیے ہوئے
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنِِ (۱۶۴) سُوْرَۃُ اٰلِ عِمْرٰنَ
ترجمہ:’’ بڑا احسان فرمایا اللہ تعالیٰ نے مومنوں پرجب اس نے بھیجا ان میں ایک رسول انہی میں سے پڑھتا ہے ان پر اللہ کی آیتیں اور پاک کرتا ہے انہیں اور سکھاتا ہے انہیں قرآن اور سنت اگرچہ وہ اس سے پہلے یقیناََ کھلی گمراہی میں تھے ۔ ‘‘ سُورہ اٰل عمران آیت نمبر ۱۶۴۔
ایک دوسری آیت میں اللہ کا ارشاد ہے:
ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّنَ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْ عَلَیْْہِمْ ٰایٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (۲) سُوْرَۃُ الْجُمُعَۃُٗ
ترجمہ: ’’ وہی (اللہ ) جس نے مبعوث فرمایا اُمیّوں میںایک رسول انہی میں سے جو پڑھ کر سُناتا ہے انہیں اس کی آیتیں اور پاک کرتا ہے ان ( کے دلوں ) کو اور سکھاتا انہیں کتاب اور حکمت ، اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔‘‘ سُورہ جُمعَہ آیت نمبر۲ ۔ ۱۴؎
درج بالا آیات میں وَالحِکْمَۃ مراد حکمت و دانائی کی باتیںہیں۔ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر جب وَحَی نازل ہوتی تو آپﷺ اسے گھر والوں اور صحابہ کرام ؓ کو سناتے، اس کی تشریح بیان کرتے ، اس کی وضاحت سمجھاتے اور اپنے عمل سے نمونہ پیش فرماتے ۔جو اَب کتبِ آحادیث اور سیرت کی کتابوں موجود اور محفوظ ہے۔مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ؒ درج بالا آیت کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں :
’’اب چوتھی مرتبہ انہیں اِس سورہ میں دُہرایا گیا ہے جس سے مقصود یہودیوں کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلّم تمہاری آنکھوں کے سامنے جو کام کر رہے ہیں وہ صریحاََ ایک رسول کا کام ہے ۔ وہ اللہ کی آیات سنا رہے ہیں جن کی زبان ، مضامین ، اندازِ بیان ، ہر چیز اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ فی الواقع وہ اللہ ہی کی آیات ہیں ۔وہ لوگوں کی زندگیاں سنوار رہے ہیں ، اُن کے اخلاق اور عادات اور معاملات کو ہر طرح کی گندگیوں سے پاک کر رہے ہیں ، اور ان کو اعلیٰ درجے کے اخلاقی فضائل سے آراستہ کر رہے ہیں ۔
یہ وہی کام ہے جو اس سے پہلے تمام انبیاء کرتے رہے ہیں ۔ پھر وہ صرف آیات ہی سنانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ ہر وقت اپنے قول اور عمل سے اور اپنی زندگی کے نمونے سے لوگوں کو کتابِ الٰہی کا منشا سمجھا رہے ہیں اور اُن کو اُس حکمت و دانائی کی تعلیم دے رہے ہیں جو انبیاء کے سوا آج تک کسی نہیں دی ہے ۔ یہی سیرت اور کردار اور کام ہی تو انبیائؑ کا وہ نمایاں وصف ہے جس سے وہ پہچانے جاتے ہیں ۔ پھر کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ جس کا رسولِ برحق ہونا اُس کے کارناموں سے عَلانیہ ثابت ہو رہا ہے اس کو ماننے سے تم نے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ اللہ نے اسے تمہاری قوم کے بجائے اُس قوم میں سے اٹھایا جسے تم اُمّی کہتے ہو۔‘‘
ماہرؔ القادریؒ فرماتے ہیں:
مُحمّد مُصطفیٰ کے مکتبِ عرفان سے ملتی ہے جہل کی ظلمتیں سب گریزاں ہوئیں ، علم و حکمت کی شمعیں فروزاں ہوئیں قدم قدم پہ ہدایت ، رَوِش رَوِش پہ نجات کُفر کی ظلمت کو فانُوسِ تجلّا کر دیا
خردمندی ، فراست ، حکمت و تدبیر و دانائی
آدمیّت کی قدریں نمایاں ہوئیں ، جاہلوں کو کیا رشکِ اشراقیاں
نفس نفس کرمِ بے شمار کیا کہنا
آدمیّت کا جہاں میں بول بالا کر دیا
رہبرِ انسانیت محمد رسول اللہ ( ﷺ ) نے فرمایا ، جس کا مفہوم ہے :
’’ حضرت عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہٗ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے ارادے اور خواہشات اس شریعت کے تابع نہ ہو جائیں جو مَیں ( محمد ﷺ ) لے کر آیا ہوں ‘‘ مشکوٰۃ ۱۶؎
ماہرؔ القادریؒ کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری ایک سچے مسلمان اور عاشق رسول کی شاعری ہے ۔آپ کی شاعری کیفیات ، احساسات اور جذبات کی شاعری ہے ، جو سیرتِ سرورِ عالم ﷺ سے رہنمائی لیتی ہوئی وجود میں آئی ہے۔تاثر و کیفیات کی مدھم اور دھیمی لہریں بین السطور سفر کرتی ہیں یوں شاعر کے ساتھ قاری بھی ہم سفر ہو جاتا ہے ۔شاعر اپنے تجربے میں قاری کو بھی شامل کر لیتا ہے ۔
حمدیہ و نعتیہ شاعری ، عام شاعری سے مختلف ہے کیونکہ یہ مقدس شاعری ہے جو شاعری کی معراج ہے ۔ یہ رتبہ اور مقام مقدر والوں کو ملتا ہے یا پھر انہیں ودیعت کیا جاتا ہے ، جو عجز و اخلاص سے اپنے رب سے مانگتے ہیں ۔ اللہ کی عطا سے اُن کی آرزو و خواہش پوری ہوتی ہے۔ پھر وہ اس سے وہ کام لیتے ہیں جس کی تاکید اللہ کے رسول ﷺ نے دی ہے یعنی دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت اور اس کا دفاع کرنا ۔
مولانا سیدّ ابو الاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں :
چوتھی صفت ان مستثنٰی قسم کے شاعروں کی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ شخصی اغراض کے لیے تو کسی کی ہجو نہ کریں ، نہ ذاتی یا نسلی و قومی عصبیتوں کی خاطر انتقام کی آگ بھڑکائیں ، مگر جب ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے ضرورت پیش آئے تو زبان سے وہی کام لیں جو ایک مجاہد تیر و شمشیر سے لیتا ہے ۔ ہر وقت گھِگھیاتے ہی رہنا اور ظلم کے مقابلے میں نیازمندانہ معروضات ہی پیش کرتے رہنا مومنوں کا شیوہ نہیں ہے ۔ اسی متعلق روایات میں آتا ہے کہ کفّار و مشرکین کے شاعر: اسلام اور نبی ﷺ کے خلاف الزامات کا جو طوفان اُٹھاتے اور نفرت و عداوت کا جو زہر پھیلاتے تھے اس کا جواب دینے کے لیے حضور ﷺ خود شعرائے اسلام کی ہمت افزائی فرمایا کرتے تھے ۔
چنانچہ کعب بن مالک ؓ سے آپﷺ فرمایا : اھجھم فوالذی نفسی بیدہ لھواشد علیھم من النبل ’’ ان کی ہجو کہو ، کیونکہ اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، تمہارا شعر ان کے حق میں تیر سے زیادہ تیز ہے ۔‘‘ حضرت حسان بن ثابتؓ سے فرمایا : اھجھم وجبیل معک ، اور قل وروح القدس معک ، ’’ ان کی خبر لو اور جبریل تمہارے ساتھ ہے ۔‘‘ ’’ کہو روح القدس تمہارے ساتھ ہے ۔‘‘ آپ کا ارشاد تھا کہ ان المؤمن یجاھد بسیفہٖ ولسانہٖ ۔’’ مومن تلوار سے بھی لڑتا ہے اور زبان سے بھی ۔ ‘‘ ۱۷؎
فَخرِ کَونَین رحمتِ عالَم سَرورِ کائنات محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْْئِِ عَلِیْمََا (۴۰)سُوْرَۃُ الْاَحْزَابِ
ترجمہ:’’ لوگو! محمد ﷺ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، مگر وہ اللہ کے رسُول اور خاتم النبییّن ہیں ، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔‘‘ سُورہ اَحزاب آیت نمبر ۴۰ ۔ ۱۸؎
عقیدۂ ختمِ نبوت و رسالت کا یہ تقاضا اور مطالبہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ کے ہر قول و فعل ، آپﷺ کے کردار و گفتار کو ہدایت و رہنمائی کے لیے کافی سمجھے، آپﷺ کی بات کو پہلی اور آخری بات جانے اور مانے۔ختم نبوت کے حوالے سے ماہرؔ القادری کے اشعار ملاحظہ کیجیے :
1. ذاتِ نبیؐ پہ ختم ہے کون و مکاں کا ہر شَرَف اُن کا گر اقرار نہ ہو گا، تکمیلِ توحید نہ ہو گی امن ناممکن مُحَمّدؐ کی غلامی کے بغیر مبارک ہو نبیؐ آخری تشریف لے آئے مبارک رہبروں کے پیشوا تشریف لے آئے مبارک خاتم پَیغمراں تشریف لے آئے وُہ آئے جن کے آنے کو گلستاں کی سَحَر کہیے اللہ کی ہیں آخری حجّت مِرے حضورؐ یہ بھی ماہرؔ انہی کا ہے لطف و کرم نبوت کا خطابِ عام ہے سارے زمانے سے ذات پر جس کی اتمامِ نعمت ہوا،ساتھ ہی ختم دورِ نبّوت ہوا آپ ؐ کا قول و عمل تفسیر ہے قرآن کی
آپ رسُولِ جز وو کل، آپ امامِ اِنس و جاں
عینِ ایماں اُن کی اُلفت صلّی اللہ علیہ وسلم
جن کی رحمت،جن کی شفقت اس جہاں میں عام ہے
مبارک ہو جہاں کی روشنی تشریف لے آئے
مُبارک صدرِ بزمِ انبیاؑ تشریف لے آئے
مبارک ہو امیرِ کارواں تشریف لے آئے
وُہ آئئے جن کو ختم الانبیاءؐ خَیرالبشر کہیے
سارا جہاں مجاز،حقیقت مِرے حضورؐ
وصفِ ختم الرُّسُل اور میری زباں
وہ شرقی ہو کہ غربی ہو ، شہری ہو کہ صحرائی
ہر شرف آپؐ ہی کو ودیعت ہوا،قاسمِ کوثر و سلسبیل و جَناں
اتباع ِمصطفی مِعراج ہے اِنسان کی
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمُٗ (۳۱)سورۃ آل عمران
ترجمہ: ’’ اے نبی ؐ ، لوگوں سے کہ دو کہ ’’ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری ( محمدؐ ) پیروی اختیار کرو ، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے در گزر فرمائے گا ۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے ‘‘ سُورۂ اٰلِ عِمْرٰن آیت نمبر ۳۱ ، ۱۹؎
حضر ت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلّی اللہ علیہ وسلّم کے پاس آیا اور اس نے حضور ﷺ سے کہا
’’ میں آپﷺ سے بہت محبت کرتا ہوں ‘‘۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ جو تم کہتے ہو اس پر غور کر لو ۔‘‘ اُس نے تین بار کہا کہ ’’ بخدا مَیں آپﷺ سے محبت کرتا ہوں ‘‘ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو فقر و فاقہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار فراہم کر لو ، جو لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں ان کی طرف فقر و فاقہ سیلاب سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتا ہے۔‘‘ ترمذی، ۲۰؎
ایک سچا مسلمان جب ابلیسی ماحول میں ہو ،تو شیطان کے چیلے اُسے ہر طرف سے تنگ کریں گے ، اُس کی راہ میں روڑے اٹکائیں گے۔ حلال ذرائع مفقود ہو جائیں گے ایسے ماحول میں عاشقِ رسولﷺ کو ثابت قدمی اور استقامت سے اپنا سفر جاری رکھنا ہو گا تب فلاح ملے گی۔ محبت و عقیدت اور خوشی کے ساتھ حضرت محمد ﷺ کی پیروی و اطاعت کرتا رہے۔ مولانا ماہرؔ فرماتے ہیں :
ایمان کی ہے جان مُحبّت رسولؐ کی
ے فرضِ عین سب پہ اطاعت رسولؐ کی
قرآن کی شرح آپؐ کا خُلقِ عظیم ہے
اللہ کی کتاب ہے سیرت رسولؐ کی
قَول و عَمل نبیؐ کا ہے ، معیارِ زندگی
فطرت کا آئینہ ہے شریعت رسولؐ کی
اللہ تعالیٰ نے کفار کے ارادوں کا جواب دیتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے :
یُرِیْدُونَ لِیُطْفُِٔوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ (۸) سورۃ الصف (۶۱)
ترجمہ:’’یہ لوگ اپنے مُنہ کی پھونکوں سے اللہ کے نُور کو بجھانا چاہتے ہیں ، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نُور کو پُورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو ۔‘‘ سُورۂ صَفّ آیت نمبر ۸
تشریح:’’یہ بات نگاہ میں رہے کہ یہ آیات تین ہجری میں جنگِ اُحُد کے بعد نازل ہوئی تھیں جبکہ اسلام صرف شہر مدینہ تک محدُود تھا ، مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی ، اور سارا عرب اِس دین کو مٹا دینے پر تُلا ہوا تھا ۔ اُحُد کے معرکے میں جو زک مسلمانوں کو پہنچی تھی ، اس کی وجہ سے اُن کی ہوا اکھڑ گئی تھی ، اور گرد و پیش کے قبائل اُن پر شیر ہو گئے تھے ۔ اِن حالات میں فرمایا گیا کہ اللہ کا یہ نُور کسی کے بُجھائے بُجھ نہ سکے گا بلکہ پُوری طرح روشن ہو کر اور دنیا بھر میں پھیل کر رہے گا ۔ یہ ایک صریح پیشن گوئی ہے جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی ۔ اللہ کے سوا اُس وقت اور کون یہ جان سکتا تھا کہ اسلام کا مستقبل کیا ہے ؟ انسانی نگاہیں تو اُس وقت یہ دیکھ رہی تھیں کہ یہ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ہے جسے بُجھا دینے کے لیے بڑے زور کی آندھیاں چل رہی ہیں۔ ‘‘ ۲۱؎
مولانا ظفر علی خان اس آیت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
نبیٔ رحمت پیغمبرِ اعظم آں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اسلام کی ترویج و اشاعت ، تحریر و تقریر کے ساتھ کی۔ ابلیس اور اس کے پیروکاروں کی سازشوں اور جارہانہ حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ آپﷺ نے کفر کو زیر کرنے اور اسے شکست سے دوچار کرنے ، اُن کی شر سے محفوظ رہنے کےلیے دس سالوں میں چھبیس (۲۶) غزوات اور ستاون (۵۷) سریہ لڑے اور کافروں کو کمزور کر کے رکھ دیا ۔ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلائی اور اسلامی نظامِ حکومت و قانون قائم کیا جس سے ہر طرف امن و امان اور سلامتی کا دَور دَورہ ہوا، انسانیت نے سُکھ ، چین کا سانس لیا ۔ علامہ ماہرؔ القادریؒ ان معرکوں کا ذکر کرتے ہوئے اشعار کہے ہیں :
1. بَدر کے میداں میں خُود آ کر وُہ
رُوحِ کائنات ہم مسلمانوں کو رازِ زندگی سمجھا گیا
2. غزوۂ بدر و خیبر کے میرِ سپاہ ! تیری ٹھوکر میں ہیں تاج و تخت و کُلاہ
تیغ کے ساتھ ہی ضربِ لا الہٰ ، فتح و نصرت نے دی بُتکدوں میں اذاں
3.
کہیں بدر و خندق میں فوجیں لڑائیں
کہیں صلح کا سلسلہ بن کے آئے
4. قبا کی مَسجد ِ اقدس ، یہ بدر ہے یہ اُحد
نبیؐ کے دَور کی ہر یادگار کیا کہنا
5. عزمِ محمدؐ کا پَر تو ہیں
فَتحِ مکّہ ، نُصرتِ خیبر
6. اِک کملی والے کے گھر سے دُنیا کو تہذیب مِلی ہے
کُفر کے چھکّے چُھوٹ گئے تھے بَدر میں جب تلوار چلی ہے
7. اُس کے جلووں کی ضرورت آج بھی دُنیا کو ہَے
جو زمانہ میں اُجالا ہر طرف پھیلا گیا
رسولِ رحمت ﷺ نے جو درسِ جہاد دیا ،وہ انسانوں کے لیے رحمت و سکون کا باعث بنا اور مسلمان دنیا پر حکومت کرنے لگے ، انسانوں سکھ کا سانس لیا اور علم و تحقیق میں ترقی کی ۔پھر مسلمان حکمرانوں نے یہ جد وجہد چھوڑ دی ، جس کی وجہ سے ملتِ اسلامیہ غلام بن گئی۔ آج مسلمان دو ارب سے زیادہ ، ستاون ممالک ، بہترین فوج ، سمندر ، تیل معدنیات اور ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود مسلمان غلام ہیں ۔آج کفار ظلم و جبر اور جارحیت کے ذریعے ہم پر غالب ہیں ، نیز ہم پر خونی جنگ مسلط کر رکھی ہے جس میں کروڑوں انسان ہلاک ہو چکے ہیں ، اور ہم مسلمان کو دفاع کا حق بھی نہیں دیتے۔آئیے ہم اس غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے حضور پاک ﷺ کی غلامی قبول کر لیں، جو رحمت ہی رحمت ہے ۔
مُحَمَّدِؐ عَرَبی رحمتِ تمام و کمال
کہ شَرق و غرب میں جاری ہے جن کا فیضِ عمیم
ماہرؔ القادریؒ نے ’’ ذِکرِ جمیل ‘‘اشاعت اؤل ۱۹۴۴ء، دیباچے میں تحریر کیا ۔
’’ آخری تمنّا ہے کہ ’’ ذِکرِ جمیل ‘‘ کا کچھ حصّہ دربارِ اقدس میں حاضر ہو کر اپنی زبان سے عرض کر دوں اَور اس کے بعد اُسی جانِ حیات کے سامنے دم نِکل جائے جِس کے قَدموں پر جان نچھاور کرنے کے لِیے دی گئی تھی ۔ ‘‘
ماہرؔ نے سچّے دِل سے اور خلوصِ نیّت سے یہ دُعا کی اور اللہ کے ہاں سندِ قبولیّت سے ہمکنار ہوئی:
مَرحبا اُلفتِ سردارِؐ دو عالم کے طفیل
آن پہنچا ہوں کہاں کشف و کرامت کے بغیر
حوالہ جات:
۱؎ پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ، اصنافِ ادب ، ضخامت ۲۰۰ صفحات ،سنِ اشاعت ۲۰۱۸ء ، سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور ، صفحہ ۲۶،۲۷ ۔
۲؎ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی مولانا،تفہیم القرآن جلد پنجم ، سروسز بُک کلب ۱۹۹۳ء،صفحہ ۷۱ ۔
۳؎ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی مولانا ، ترجمۂ قرآن مجید مع مختصر حواشی ، ادارہ ترجمان القرآن لاہور ، اشاعت مارچ ۱۹۹۸ء،صفحہ ۵۷،۵۹ ۔
۴؎ کلیاتِ باقیاتِ شعرِاقبال مرتبہ ڈاکٹر صابر کلوری ، اقبال اکیڈمی پاکستان ، طبع اؤل ۲۰۰۴ء ، صفحہ ۹۹ ۔
۵؎ نعت نعت نعت رنگ ( سلور جوبلی نمبر ) ، مرتب سیّد صبیعُ الدین رحمانی ، شمارہ نمبر ۲۵ ، اشاعت اگست ۲۰۱۵ء نعت ریسرچ سینٹر بی ۳۶۰ بلاک ۱۴ گلستانِ جوہر کراچی ،صفحہ ۱۲۸ ۔
۶؎ جمالُ القُرآن تَرجمہ پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ ، ناشر ضیاالقرآن پَبلی کیشنز داتا گنج بخش روڈ لاہور،ضخامت ۹۷۷ صفحات ،صفحہ ۶۸۵ ۔
۷؎ سیّد ابُو الا علیٰ مودودی مولانا ، قرآنِ مجید مع مختصر حواشی ؒ ، ادارہ ترجمانُ القرآن ( پرائیویٹ ) لمیٹڈ لاہور، فروری ۱۹۹۴ء،صفحہ۱۴۵۹ ، ۔
۸؎ ایضاََ صفحہ ۱۴۶۵ ۔
۹؎ زادِ رَاہ ( منتخب احادیث کا مجمُوعہ ) از مولانا جلیل احسن ندوی ، ناشر
اسلامک پبلی کیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ ۱۳۔ ای شاہ عالم مارکیٹ لاہور ، ضخامت ۳۷۴ ، اشاعت فروری ۲۰۰۰ء ، صفحہ ۲۷۰ ۔
۱۰؎ ایضاََ صفحہ ۱۶۳،۱۶۴ ۔
۱۱؎ ،راۂ عمل از مولانا جلیل احسنؒ ندویؒ ضخامت ۳۷۴ صفحات ، ناشر اسلامک پبلیکیشنز پرئیویٹ لمیٹڈ ۱۳۔ ای شاہ عالم مارکیٹ لاہور ، اشاعت تریپن فروری ۲۰۰۰ء ، صفحہ۳۳ ۔
۱۲؎ ایضاََصفحہ۳۲ ۔
۱۳؎ ، ایضاََ صفحہ ۱۲۹ ۔
۱۴؎ ایضاََ صفحہ ۸۸۹ ۔
۱۵؎ تفہیم القرآن جلد پنجم ، صفحہ ۴۸۷ ۔
۱۶؎ گلدستہ حدیث از مولانا محمد یوسف اصلاحی، ضخامت ۱۲۶ صفحات ، ناشر البدر پبلی کیشنز اُردُو بازار لاہور،صفحہ ۲۴ ۔
۱۷؎ تفہیم القرآن جلد سوم از مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی،صفحہ ۵۴۹،۵۵۰، ادارہ ترجمان القرآن لاہور۔
۱۸؎ قرآنِ مجید مع مختصر حواشی ؒ ، صفحہ ۱۰۷۱ ۔
۱۹؎ ترجمۂ قرآنِ مجید مع مختصر حواشی،صفحہ۱۵۲ ۔
۲۰؎ راہِ عمل ،صفحہ ۳۸ ۔
۲۱؎ تفہیم القرآن جلد پنجم ، صفحہ ۴۷۶ ، ۴۷۷ ، ۔
تبصرہ لکھیے