ہوم << امت مسلمہ کے مسائل اور ان کاحل - خورشید بیگم

امت مسلمہ کے مسائل اور ان کاحل - خورشید بیگم

پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلمان کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے

نیلگوں آسمان سے بھی بلند تر جس قوم کی منزل ہے وہ آج پستیوں میں کیوں گھری ہوئی ہے ؟ وہ ان گنت مسائل کا شکار کیوں ہے؟ اپنے مسائل کے حل کے لئے غیروں کی محتاج کیوں ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے خالق و مالک و رازق پر ہمارا یقین کمزور ہو گیا ہے جبکہ ہماری صفت تو یہ ہے کہ

گماں آباد ہستی میں یقین مرد مسلماں کا
بیاباں کی شب تاریک میں قندیلِ ربانی

یاد کیجئے ایک قندیل ہماری اماں حاجرہ نے بھی عرب کے لق و دق صحرا میں روشن کی تھی ۔ جب وہ ننھے معصوم بچے اسماعیل کے ہمراہ مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں تشریف فرما ہوئی تھیں ۔ کتنا کامل یقین تھا انہیں ذات باری تعالٰی کی مدد پر ؟ اور پھر اہل عالم نے دیکھا کہ اُسی مقام پر نہ صرف ایک شہر (مکہ مکرمہ) آباد ہوا، بلکہ عالم اسلام کا روحانی مرکز وجود میں آیا۔ آج امت مسلم میں نہ صرف ایمان محکم کی کمی ہے بلکہ حُب دنیا غالب آگئی ہے۔ سستی ، ، کاہلی اور عیش پرستی ان کا عام شیوہ ہے۔ دیانت دار قیادت کا فقدان ہے اور جب رہبر رہزن بن جائیں تو قافلے منزل کا پتہ نہیں پا سکتے۔ اس وقت 57 اسلامی ممالک ہیں لیکن بد قسمتی سے زیادہ تر کی باگ ڈور ایسے حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے جو عالمی طاقتوں کے آلۂ کار ہیں ۔ مصر ، تیونس، لیبیا اور یمن طویل عرصہ سے ایسے حکمرانوں کے ماتحت ہیں جو باطل قوتوں کی خوشنودی کے لئے اپنے ہی عوام کا خون بہا رہے ہیں ۔ کشمیر و فلسطین میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ برما و روہنگیا کے مسلمان مہاجرین کی صورت میں جگہ جگہ دھکے کھا رہے ہیں ۔ آج دنیا میں جس قوم کی اکثریت مغلوب و مظلوم ہے وہ مسلمان ہے۔ مجھے بتا دیجیے ایسی کوئی قوم جو مسلمانوں کی محکوم ہو ۔ اس کی وجہ ہماری باہم نا اتفاقی ہے۔ حیرت ہے کے جن کے بہت سے خدا ہیں، وہ اسلام کے خلاف متحد ہیں جبکہ خدائے واحد کے پرستار فرقوں ، گروہوں اور علاقوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ ہم اپنے وسائل اور معدنی ذخائر کی دریافت کے لئے غیروں کے دست نگر ہیں جو ہمارے سرمایے کا بیشتر حصہ اسی بہانے ہتھیا لیتے ہیں ۔ افسوس کہ ہمارے تعلیمی ادارے اب تک سائنس اورٹیکنالوجی کے تکنیکی اور تحقیقی ماہرین تیار نہیں کرسکے۔ جبکہ ربِ کریم نے قرآن مجید میں اہل ایمان کو حکم دیا ہے "اور دشمنوں کے لئے تیار رکھو جتنی طاقت تم سے ہوسکتی ہو۔" (سورہ الانفال ) بھلا یہ کون سی طاقت ہے ؟ اسلحہ کی طاقت ، ٹیکنالوجی کی طاقت ، معیشت کی اور ابلاغ عامہ کی طاقت یہ سب اس میں داخل ہیں۔

قابل غور بات ہے کہ ان سارے مسائل کا حل کیا ہے ؟ ایک بھی آسان اور قابل فہم حل ہے کہ ہم علاقائی ، گروہی اور لسانی تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہم متحد ہو جائیں ، اپنی قوتوں اور وسائل کو اکٹھا کریں ۔ وہ مسلم ممالک جو مضبوط معیشت کے مالک ہیں وہ اپنا سرمایہ لگائیں ، جن کے پاس باصلاحیت اور ذہین نوجوان ہیں وہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہنر سیکھیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں مہارت حاصل کریں ، قدرت کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھائیں۔ زیر زمیں معدنی ذخائر دریافت کریں اور انہیں مشترکہ مفاد کے لیے استعمال کریں ۔ تمام مسلم ممالک اپنے مسائل کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی طرز پر ایک تنظیم بنائیں ۔ اپنی ایک مشترکہ فوج بنائیں جو محکوم مسلم ممالک کو آزاد کروانے کی تگ و دو کرے۔ ایسی سیسہ پلائی دیوار بن جائیں کہ دشمن درمیان میں سے نہ گزر سکے ۔ قدرتی آفات اور اچانک حادثات کی صورت میں ایک دوسرے کے معاون ہوں، غیر مسلموں کے احسان مند نہ ہوں ۔ اُن کی دولت اور تہذیب و ثقافت سے مرعوب نہ ہوں ۔ اللہ تعالٰی کی صفت رزاقیت پر تہہ دل سے یقین رکھیں ۔ ہر حال میں ، بر لمحہ اُسی سے مدد مانگیں جو دے کر احسان نہیں جتلاتا ۔ ان شاءاللہ عالم کفر ہم سے خوفزدہ رہے گا۔ لیکن شرط صرف یہ ہے کہ "نہ ڈرو اور نہ غم کھاؤ، تم ہی غالب رہو گے اگر مومن ہو ۔ ( آل عمران 139)

مومن ہونے کی شرط ہم پوری کر دیں ، کفار پر غلبہ عطا کرنے کا وعدہ اللہ تعالی پورا کر دے گا۔ کیونکہ وہ کبھی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا ۔ اللہ کرے بحیثیت قوم ہمیں اس آیت کا مفہوم سمجھ میں آجائے اور ہم اس پر عمل کرنے والے بن جائیں ۔کچھ بعید نہیں کہ پھر ہم اپنی عظمت رفتہ کو پالیں۔ بقول اقبال رح :

یادِ رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے
میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے
سامنے رکھتا ہوں اُس دورِ نشاط افزا کو میں
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں