ہوم << درس گاہیں یا ہوس گاہیں؟ ذوالقرنین عباسی

درس گاہیں یا ہوس گاہیں؟ ذوالقرنین عباسی

خدا نخواستہ آپ کو کوئی بیماری لگ جائے، آپ مہنگی ترین دواؤں پر لاکھوں بھی خرچ کر ڈالیں، مگر نتیجہ یہی نکلے گا کہ آپ کی صحت بہتری کی طرف گام زن ہونے کی بجائے مزید خراب ہو گی۔ اتنا کچھ کرنے اور خرچنے کے باوجود پتا ہے ایسا کیوں ہو گا؟ کیوں کہ جب تک آپ کو لگے مرض کی درست تشخیص نہیں ہوتی، تب تک آپ کچھ بھی کر لیں، آپ کی صحت بحال نہیں ہو سکتی۔

یہی حال محکموں، اداروں اور ملکوں کا بھی ہے کہ اگر کسی وقت ان کی کارکردگی خراب ہو جائے یا نت نئے مسائل کی آماج گاہ بننے لگیں، تو بغیر تشخیص کیے طرح طرح کے علاج اپنانے سے بیماریوں میں اضافہ تو ضرور ہو گا، مگر بہتری اور اصلاح کبھی نہیں آئے گی۔ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی"

جی سی یونیورسٹی لاہور ایک نامی گرامی تعلیمی ادارہ ہے، دیگر عصری اداروں کی طرح اس میں بھی کچھ عرصہ سے آئے روز ہراسگی اور جنسی زیادتیوں جیسے مکروہ مسائل سامنے آ رہے ہیں۔ ابھی کل پرسوں بھی مبینہ طور پر اسی نوع کا ایک بھیانک واقعہ رونما ہوا، کہ جب ایک طالبہ کو چند طلبہ نے حیوانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا، یقیناً یہ ہمارے نظام تعلیم پر سیاہ دھبہ ہے۔

ایسے ہر موقع پر یونیورسٹیز انتظامیہ ایسے مسائل کی وجوہات، امراض کی تشخیص اور ایسے دل خراش واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی زور دار قدم اٹھانے کی بجائے اپنی ساری صلاحیتیں ان واقعات کو چھپانے اور شدت کم کرنے پر لگا دیتی ہیں۔ ایسے حالات میں بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں، جن کے ہوتے ہوئے کبھی بھی صحت مند نظام تعلیم پروان نہیں چڑھ سکتا۔

ہمیشہ کی طرح عصری تعلیمی اداروں کو لگے امراض کی ایک پھر تشخیص کیے دیتے ہیں۔ ثقافت و کلچر کے نام پر فحاشی، عریانی کو فروغ دیتی بے ہودہ محافل، آزادی کے نام پر مرد و زن کا بے لگام اختلاط، مخلوظ نظام تعلیم، طالبات کی یونیورسٹیز میں مردانہ سٹاف، ہاسٹلز کا ڈھیلا ڈھالا نظام، اخلاقی تربیت کا فقدان۔ لہذا اب بھی وقت ہے ایسے واقعات کی روک تھام کرنے کا، امراض تلاش کرنے کا اور سدباب کرنے کا، ورنہ یہ درس گاہیں، درس گاہیں نہ رہیں گی، ہوس گاہیں بن جائیں گی۔

Comments

Click here to post a comment