ہوم << نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر - شکیل شفائی

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر - شکیل شفائی

وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں ، وہی طه

توضیحات:
یہ شعر علامہ اقبال رحمہ اللہ کے بہترین اشعار میں ہے جو اپنے بلند پایہ مضمون ، الفاظ کے حُسنِ انتخاب ، تراکیب کی ندرت ، معنی کی گہرائی ، اسلوبِ بیان کی بے ساختگی ، اور رسول محترم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں نعتیہ خراجِ تحسین پیش کرنے میں اپنی مثال آپ ہے -

یہ نظم علامہ اقبال رح نے اس وقت کہی تھی جب وہ افغانستان میں اپنے مختصر قیام کے دوران حکیم سنائی رح کے مزار پر حاضر ہوئے تھے - یہ 1933 کی بات ہے - اس پوری نظم میں حکیم سنائی رح کے فکر و نظر کی بازگشت محسوس ہوتی ہے - نظم کا مضمون سلکِ مروارید کی صورت ابتداء ، ارتقاء اور اختتام کی منزلوں سے گزرتا ہوا کسی رواں دریا کا منظر پیش کرتا ہے -

نظم کا مضمون توحید کی بساط سے اُٹھتا ہوا نظر آتا ہے یعنی اس کائنات میں صرف ایک ذات ہے جو اپنا حقیقی وجود رکھتی ہے اور وہ اللہ تبارک وتعالی کی ذات مقدس ہے اور چونکہ " نفختُ فیه من روحی" کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کی نسبتِ تعظیمی (نہ کہ نسبتِ نفسی) اپنی طرف کی ہے لہذا اس نسبت نے انسان کو بھی عظمت عطا کی اور جن بندوں نے اس راز تک رسائی حاصل کی انہوں نے بندگی کی حقیقت کو پالیا ، وہی آزاد بندے کہلائے اور انہیں کو تائید و توفیقِ ایزدی کی خصوصی بشارت حاصل ہے لیکن مذاہب کی تنگ نظری ، غلط تشریح اور اہلِ مذاہب کی ظاہر داری نے اس حقیقت پر حجاب ڈال دیے تھے، دوسری طرف مغرب سے مادیت کی ایک لہر اٹھی.

جس نے ذوقِ حُسن و زیبائی سے انسان کو محروم کرکے اسے اپنی خواہشات کا غلام بنا دیا - بالآخر رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہوں نے انسان کو دربارہ حقیقی بندگی اور روحانیت کے اعلیٰ مدارج پر بحال کردیا اسی لیے وہ ہماری محبت کا مرکز و محور ٹھہرے - یہاں پر نظم اختتام پذیر ہوتی ہے - یہ نظم کا اجمالی تعارف تھا - جن دو شعروں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بیان کی گئی ہے ، ذیل میں ان کے بارے میں چند گزارشات پیش کی جاتی ہیں - پہلے مصرعے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین صفتیں بیان ہوئی ہیں - دانائے سبل ، ختم الرسل اور مولائے کل -

دانا کے معنی عقلمند ، دانشمند اور جاننے والے کے ہیں - سُبل سبیل کی جمع ہے جس کے معنی راستہ کے ہیں - دانائے سبل کے لفظی معنی ہیں : راستوں کا جاننے والا - یہ معنی بھی اپنے ظاہر پر صحیح ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح روایت میں وارد ہوا ہے کہ آپ کو سب سے زیادہ علم عطا کیا گیا تھا - مسند سعید بن منصور میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک اثر نقل کیا گیا ہے:

" مَن أراد علم الأولين و الآخرين فليتل القرآن "
( جو اولین اور آخرین کا علم چاہتا ہو وہ قرآن کی تلاوت کرے)

اب ظاہر ہے قرآن کے سب سے زیادہ جاننے والے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جیسا کہ آپ نے خود فرمایا: " أوتیت القرآن و مثله معه" ( ابوداؤد ، ترمذی)
(مجھے قرآن اور اسی کے مثل ایک شے ( یعنی حدیث) عطا کی گئی) -

حذیفہ بن یمان کہتے ہیں:
" قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فینا مقاماً ما ترك فيه شيئًا إلى قيام الساعة إلّا ذكره ، علمه من علمه و جهله من جهله" (بخارى و مسلم)
( ایک بار رسول ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور انہوں نے قیامت تک واقع ہونے والی کسی ایک چیز کو بھی بیان کیے بغیر نہ چھوڑا ، جس نے اسے جانا، جانا اور جو نہیں جان سکا ، نہیں جان سکا)

اور بخاری میں ہے:
" قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرنا عن بدء الخلق حتى دخل أهلُ الجنةِ الجنةَ و أهلُ النارِ النارَ"
( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور تخلیق کی شروعات سے لے کر اہل جنت کے جنت میں داخل ہونے اور اہلِ دوزخ کے دوزخ میں داخل ہونے تک کے سارے واقعات بتائے )

اور مسلم کی روایت میں ہے:
" فأخبرنا بما هو كائن إلى يوم القيامة"
( پس انہوں نے قیامت تک ہونے والے واقعات کی خبر دی)

نیز ترمذی کے یہ جملے بھی اس پر دلالت کرتے ہیں:
" فتجلّٰی لی کل شیئی و عرفت"
( پس مجھ پر ہر چیز ظاہر ہوگئی اور میں نے جان لی)

" فعلمت ما فی السماوات و الأرض"
(اور میں نے جان لیا کہ آسمانوں اور زمین میں کیا ہے)

" فعلّمنی کل شیی "
( مجھے (اللہ نے) ہر چیز کی تعلیم کی)

لہذا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ آپ اللہ تک پہنچنے والے تمام راستوں کے جاننے والے تھے - لیکن یہاں جس سیاق میں یہ ترکیب وارد ہوئی ہے اس کے پیشِ نظر اس میں معنی کی اور بھی متعدد گہری جہتیں پائی جاتی ہیں - یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد تمام قدیم ملتیں منسوخ ہوگئیں - اہلِ بیت کے گُلِ سرسبد سیدنا و مولانا زین العابدین بن حسین سلام اللہ علیہما سے منسوب نعتیہ نظم کا ایک شعر یہ بھی ہے :

قرآنه برهاننا فسخاً لأديان مضت
إذ جآءنا أحكامه كل الصحف صار العدم
( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن ہماری دلیل ہے ، یہ تمام گزشتہ ادیان کا ناسخ ہے ، جب ہمارے پاس آپ کے یا قرآن کے احکام آئے تو سابقہ تمام صحیفے معدوم ہوگئے )

یہاں فسخ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سابقہ تمام باتوں کو کلّیتاً منسوخ کردیا بلکہ قدیم شریعتوں کی بہت سی اچھی باتوں کو آپ نے قائم رکھا -
قرآن کی ایک صفت خود قرآن میں " مھیمن" وارد ہوئی ہے - (لما بين يديه من الكتاب و مهيمناً عليه - مائدة 48) لفظِ مهمين میں حفاظت ، احاطہ اور نگرانی کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے گویا قرآن تمام سابقہ کتابوں ، شریعتوں اور ملّتوں کی بنیادی اور مشترک تعلیمات کو سمیٹتا بھی ہے اور ان کی حفاظت بھی کرتا ہے - دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ تمام انبیاء کی تعلیمات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احاطہ کرتے تھے - غالباً اسی لیے آپ نے فرمایا:

" لو كان موسى حيا ما وسعه إلا اتباعي"
( اگر موسی علیہ السلام زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا) اس کی یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی تعلیمات میں تمام پیغمبروں کی تعلیمات کی روح کشید کی گئی ہے لہٰذا آپ پر ایمان تمام پیغمبروں پر ایمان لانے کو مستلزم ہے اور آپ کا انکار تمام پیغمبروں کے انکار کو لازم کرتا ہے - اسی معنی میں" دانائے سبل " جیسی معنیٰ خیز ترکیب کو سمجھیں -

اس کے بعد دوسری صفت " ختم الرسل" وارد ہوئی ہے - یہ گویا پہلی صفت کی تکمیل کررہی ہے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ، آپ ( ص) کی لائی ہوئی کتاب اور شریعت میں تمام پیغمبروں کی تعلیمات کی روح سمٹ آئی ہے تو اب قیامت تک کسی دوسرے نبی کی ضرورت باقی ہی نہیں رہی لہٰذا فرمایا: ختم الرسل - اب چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہوئے ، اور قیامت تک کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا لہذا اب قیامت تک آپ ہی کی ذاتِ اقدس ہدایت اور رہنمائی پانے ، اللہ کی رضا کو حاصل کرنے ، جنت میں داخل ہونے اور جہنم سے نجات پانے کا اکلوتا حوالہ ٹھہرتی ہے ، اسے شاعر نے " مولائے کل" سے تعبیر کیا - اس طرح قاری محسوس کرتا ہے کہ ان تینوں صفتوں میں ایک فطری ربط و تعلق (natural symmetry) قائم ہوا ہے -

" مولائے کل" پر چند سال پہلے ایک صاحبِ علم نے یہ اعتراض کیا تھا کہ یہ صفت الوہیت کے مناسبات میں سے ہے لہذا اس کا اطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جائز نہیں - اب بعض حلقوں سے پھر اس طرح کی آوازیں آرہی ہیں - لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر اس کی کچھ وضاحت پیش کی جائے -

" مَولٰی" کا لفظ ولی یلی سے مشتق ہے - اس کے معنی قریب ہونے کے ہیں - مَولٰی کے معنی رب ، مالک ، سردار ، غلام ، آقا ، آزاد کرنے والا ، جسے آزاد کیا جائے ، انعام دینے والا ، جسے انعام دیا جائے ، پڑوسی ، داماد ، حلیف ، دوست ، قریب رشتہ دار ، شریک ، تابع وغیرہ کے ہیں - چنانچہ المعجم الوسیط میں لکھا ہے:

" (المولیٰ) : الرب ، المالك ، كلّ مَن ولى أمراً أو قام به ، الولى المُحِبّ ، الصاحب ، الحليف ، النزيل ، الجار ، الشريك ، الصهر ، القريب من العصبة كالعم وابن العم و نحو ذلك ، المُنعِم ، المُنعَم عليه ، المُعتِق ، المُعتَق ، العبد ، التابع -
اتنے سارے معنی میں سے معترض نے صرف رب اور مالک کے معنی مراد لے کر " مولائے کل" کی ترکیب کو قابلِ اعتراض کہا اور اسے صفت الوہیت کے مناسبات میں سے قرار دیا -

دراصل مولیٰ کا لفظ ان عربی الفاظ میں سے ہے جو متضاد و متخالف معنی رکھتے ہیں - اب دیکھیے مَولٰی اللہ کو بھی کہا گیا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو بھی مَولٰی کہا ، سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو بھی مَولٰی کہا ، قرآن نے عام مومنین اور فرشتوں کو بھی مولی کہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلاموں کو بھی مَولٰی کہتے ہیں - دوست، عزیز ، داماد ، آقا ، سردار وغیرہ معنی کو آپ نے ابھی المعجم الوسیط کے حوالے سے ملاحظہ کیا -

اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ اس لفظ کے معنی کا تعین اس ذات کے مقام و مرتبہ کے مطابق ہوگا جس کے بارے میں اسے استعمال کیا گیا ہو - جب یہ لفظ اللہ کے لیے استعمال ہو تو اس کے وہی معنی مراد لیے جائیں گے جو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے شایانِ شان ہوں - اسی طرح جب اس کا اطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوگا تو یہ لفظ وہی معنی دے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایانِ شان ہو ، اس پر دوسرے اشخاص و افراد کو بھی قیاس کریں - الوہیت کے منافی وہ الفاظ ہوتے ہیں جن میں ایک ہی معنی ہو اور وہ اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہو یا متعدد معنی تو ہوں لیکن ان سب کا اطلاق اللہ کی ذات پر ہی کیا جاتا ہو -

اب رہا سوال " مولائے کُلّ" میں وارد لفظ کُل کا - تو سمجھنا چاہیے کہ لفظ " کل" کبھی کُلّی اور اطلاقی معنی دیتا ہے اور کبھی اکثری معنی دیتا ہے - اس کا تعین ہم قرائن سے کرتے ہیں کہ کسی سیاق میں وارد ہونے والا لفظِ کُلّ کلی اور اطلاقی معنی رکھتا ہے یا اکثری معنی رکھتا ہے - مثال کے طور پر " اللهُ خالقُ كُلّ شيء" اس جملے میں کل اپنے کلی اور اطلاقی معنی پر ہے - یعنی کائنات کی ہر ہر چیز کا خالق اللہ ہے -

لیکن " فوق کُلّ ذی علم علیم" میں لفظ کل اکثری معنی رکھتا ہے - کیونکہ اگر اس کو کلی معنی پر محمول کیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ ( نعوذ باللہ) اللہ کے اوپر بھی کوئی جاننے والا ہے کیونکہ " ذی علم" تو اللہ بھی ہے - لہٰذا جب ہم اسے اکثری معنی پر محمول کرتے ہیں تو اللہ کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں - اس طرح آیت کے معنی نکلتے ہیں کہ اللہ کو مستثنیٰ کرکے ہر ذی علم کے اوپر ایک جاننے والا ہے - اس کی درجنوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں - " مولائے کل" میں بھی کل اکثری معنی کا حامل ہے - یعنی اللہ کو مستثنیٰ کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام کائنات کے سردار ، پیشوا ، آقا ، رہنما ، محبوب وغیرہ ہیں - یہ معنی لینے میں کیا قباحت ہو سکتی ہے ؟

دوسرے مصرعے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وظیفہِ رسالت کے تحت انجام دینے والے عالمی ، تاریخی اور انقلابی کارنامے کو چند لفظوں میں سمیٹ لیا ہے - غبارِ راہ ان لاکھوں کروڑوں مظلوم انسانوں کا استعارہ ہے جنہیں تاریخ کے ہر مرحلے پر وقت کے حکمرانوں اور مذہبی پیشواؤں نے اپنا غلام بنا کے رکھا تھا - طورِ سینا اللہ کی قربت ، ولایت ، معرفت اور سماجی اور معاشرتی آزادی کا استعارہ ہے - یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم الشان کارنامہ ہے - قدیم زمانے میں کیا اس کا تصور بھی کیا جاسکتا تھا کہ ایک سیاہ فام غلام سردار ، پیشوا اور مقتدا بھی ہو سکتا ہے ؟ اور لوگ اس کی جوتیوں میں بیٹھنا اپنا اعزاز سمجھتے ہوں - یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً کرکے دکھایا - انسانیت پر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کتنا بڑا احسان ہے -

طور سینا میں تلمیح بھی واقع ہوئی ہے - یعنی کہاں فرعون کی غلامی کا طوق اور کہاں سینا پر اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہونے کا شرف - یہی اعزاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے پوری انسانیت کو حاصل ہوا - اب بتائیے اس محسن کی حیثیت لوگوں میں کیا ہونی چاہیے - یہی کہ وہ دنیا کے تمام لوگوں سے محبت میں مقدم ہو اور محبت کا اختتام بھی اسی کی ذات پر ہو - چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحبّ إليه من والده و ولده و الناس أجمعين " اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں اپنی جان سے بھی محبوب ہونے کا مضمون آیا ہے -

بخاری کی روایت میں ہے" أنا أولى بالمؤمنین من أنفسهم"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نگاہِ عشق و مستی میں اول و آخر ہونے کا تعلق لوگوں کی آپس میں ایک دوسرے سے محبت و الفت سے ہے - یہاں اللہ کی ذات مراد و مذکور نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ انسانوں یا دیگر مخلوقات کی جنس میں سے نہیں ہے - جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی تب تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کی جان ، والدین ، اولاد اور جمیع لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں تو کیا کوئی " برخود غلط اسکالر" یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ اس حدیث میں ( نعوذ باللہ من غضب اللہ) شرک فی الحب ہے کیونکہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کی بجائے اللہ کی ذات مذکور ہونی چاہیے تھی -

ظاہر ہے ایسا اعتراض کوئی کور مغز اور کوتاہ چشم ہی کر سکتا ہے - کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محبت کے مقابلے میں لوگوں کی محبت رکھ دی اور پھر فرمایا ان دو میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا انتخاب ایمان کو مکمل کرتا ہے - یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے مقابلے میں لانا بنیادی طور پر ہی غلط ہے - اسی تناظر میں " نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر" کو سمجھا جانا چاہیے -

اس مصرعے کا تعرض آیت" هو الأول و الآخر و الظاهر و الباطن" سے بھی نہیں ہے - اس آیت کی جو تفسیر علماء نے بیان کی ہے اس کا کوئی تعلق لوگوں کے ایک دوسرے سے محبت کرنے یا اس محبت کے ایک دوسرے کے مقابلے میں درجہ یا نوعیت متعین کرنے سے نہیں ہے - یہ آیت دوسری بہت سی آیتوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی ازلی اور ابدی صفات کا بیان ہے -
" هو الأول قبل كل شيء ، هو الآخر بعد كل شيء ، و الظاهر أي الغالب ، هو الباطن أي العالم بما خفى عن الناس "
" میانِ ہر دو تفاوت بسیار دارد"

آخری مصرعہ گویا اوپر مذکور تفصیلات کی دلیل پر دلالت کرتا ہے - یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حیثیت کا تعین خود قرآن نے کیا ہے - سورہ یٰسین ، سورہ فرقان اور سورہ طه پر غور کرو تو یہ اسرار تم پر منکشف ہو جائیں گے -
اب ان توضیحات کی روشنی میں ان نعتیہ اشعار کو مکرر پڑھیں تو معنی چودھویں رات کے چاند کی مانند جگمگائیں گے -
علامہ اقبال رح یقیناً معصوم نہیں تھے -

کمزور شعر انہوں نے بھی کہے ہیں ، ان کے ساتھ کئی مسائل میں اختلاف بھی کیا گیا ہے لیکن وہ کوئی ناپختہ اور کچے شاعر نہیں تھے جس کے کلام میں الفاظ کیف ما اتفق وارد ہوتے ہیں - وہ ایک عظیم مفکر ، قادر الکلام شاعر اور بڑے فلسفی تھے - صاحبِ علم تھے - نامی گرامی علماء ومشائخ نے ان کو خراج عقیدت پیش کیا ہے - پچھلے تقریباً سو برس میں ہر مکتب فکر کے بیشمار علماء ومشائخ پیدا ہوئے - ان میں سے بہت سے علامہ کے معاصر تھے -

کچھ ان کے بعد آئے . کیا وجہ ہے کہ سو سال میں کسی نے ان اشعار پر تنقید نہیں کی ، نہ انہیں شرک یا خلافِ شریعت بتایا حالانکہ وہ خود بھی شرعی عقائد کے عالم اور اہلِ زبان تھے لیکن آج کے بعض لوگوں پر یہ غلطیاں منکشف ہوئیں -