تعلیم کے فروغ میں کتاب کی اہمیت سے کوئی منکر نہیں۔ ذہن کی کشتی شعور کے ساحل پر لنگر انداز کتب بینی ہی کی بدولت ہوتی ہے۔ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی کتاب اور مطالعہ کا رجحان ہونا ناگزیر ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے اکثر دیہی سرکاری سکولز میں لائبریری کا کمرہ تو ہے لیکن کتابوں کاوجود نہیں ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں ابھی تک بنیادی ضروری سہولیات کا فقدان ہے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ یہاں بمشکل ہی پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں ذہن کے دریچے وا کر نے کا فقط ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے کتب بینی۔ جب تک طلبہ کا نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتابوں کے ساتھ تعلق قائم نہیں ہوتا، اس وقت تک معاشرے کی شعوری سطح بلند نہیں کی جا سکتی۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ہی کسی مسیحا کے منتظر ہوتے ہیں اور اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ خالقِ ارض و سما نے ہم میں سے ہر ایک کے اندر وہ صلاحیتیں رکھی ہیں کہ ہم ایک جہانِ تازہ کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ کا بھی یہی پیغام ہے ۔
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
اور جگر مراد آبادی نے کیا خوب کہا
گھٹے اگر تو بس اِک مشتِ خاک ہے انساں
بڑھے تو وسعتِ کونین میں سما نہ سکے
ادب کے فروغ میں کتاب کلچر کو پروان چڑھانا بہت ضروری ہے مگر افسوس کہ اکثر سکولز میں لائبریریز کا وجود ہی نہیں ہے حالانکہ یہ طلبہ کی ذہنی تفریح کا ایک تعمیری ذریعہ ہے۔ کتابوں کی دنیا میں انسان نہ صرف اپنی کلفتوں کو بھول جاتا ہے بلکہ اس کی سوچ میں بھی وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ زندگی کی تلخیوں میں کتاب ہی حلاوت بھرتی ہے ۔اسی سے احساس سنورتا اور فکر واضح ہوتی ہے۔ تو آئیے ! نسلِ نو کی تعمیر تب بینی کے ستونوں پر استوار کرتے ہوئے اس میں اپنے اپنے حصہ کی شمع جلائیں اور اپنے اپنے علاقے میں مخیر حضرات کے ساتھ مل کر اسکولوں میں لائبریری کے قیام کو یقینی بنائیں.
تبصرہ لکھیے