ہوم << تنقید سے باہر نکلیے۔ رقیہ اکبر چوہدری

تنقید سے باہر نکلیے۔ رقیہ اکبر چوہدری

’’اس دن میں نے زہرہ کو سیب کھلایا اور فیڈر پلائی اور پھر وہ ٹیوشن پڑھنے کے شوق میں خوشی خوشی چھوٹا سا بستہ اٹھا کر بھائی کے پیچھے نکل گئی اور پھر۔۔۔ ہماری زندگی ویران ہو گئی۔ اب ہم ایک زندہ لاش کی طرح ہیں، ایسے مردے ہیں جو کھلی اور ویران آنکھوں سے دنیا دیکھ رہے ہیں۔‘‘
شادی کے 13 سال بعد پیدا ہونے والی صرف چار سالہ معصوم فرشتے جیسی ننھی کلی زہرہ کو ایک مرد نے جنسی ہوس کا نشانہ بنایا.
غور تو کیجیے ۔۔۔ایک لمحے کو رک کر سوچیے تو سہی، "چار سالہ" بچی۔۔ صرف چار سال کی، جس کی آخری خوراک "فیڈر میں دودھ" تھا. فیڈر پیتی معصوم بچی کو ایک درندے نے نوچ ڈالا مگر ہمارے ایمان پہ آنچ ہی نہیں آئی۔ ہمارے لب نہیں ہلے، ہم یوں گزر گئے جیسے "بھلا یہ بھی کوئی ایشو ہے جس سے ایمان کو خطرہ ہو گا." یہ بھی کوئی موضوع ہے جس پہ صفحوں کے صفحے کالے کیے جائیں؟ پوسٹیں لکھی جائیں.

مجھے احباب نے کہا کہ اس پہ لکھیں. میں نہیں لکھ سکی، دل لرز گیا میرا۔ تین سال پہلے تک ایسے ہر اشو پہ آواز اٹھائی، بار بار لکھا ، اور آخری بار مجھے یاد ہے ضلع خیر پور کی تحصیل رانی پور میں جنسی ہوس کا نشانہ بنی دس سالہ فاطمہ کی موت پر میں نے لکھا تھا. "ہمارے قلم لکھتے لکھتے تھک گئے ہیں مگر ابن آدم کی ہوس ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی". اور پھر سچ مچ میرا قلم تھک گیا، میں نے ان موضوعات پہ لکھنا تقریباً ترک کر دیا۔

مجھے کچھ دوستوں نے ننھی زہراء کے لیے لکھنے کا کہا، بہت کوشش کی لیکن نہ لکھ سکی، مگر آج جب دو دنوں سے ایک فضول سی تصویر پر ہر طرف سے ہاہا کار مچی دیکھ رہی ہوں تو لوگوں کے بجائے اپنے آپ پر غصہ آ رہا ہے، اور اپنے آپ کو کٹہرے میں کھڑا کر کے سوچ رہی ہوں کہ قصور صرف ان کا تو نہیں جو اس فضول بحث میں پڑے ہیں، اصل قصور تو ہم جیسوں کا ہے جنھوں نے قابل گفتگو ،اصل موضوعات پر قلم اٹھانا چھوڑ دیا۔ جب سلگتے موضوعات پر بات کرنا ترک کر دی جاتی ہے تو قوم ایسے ہی لایعنی موضوعات میں پھنس کے رہ جاتی ہے۔ ہم میں سے کئی ایک ہیں جو اس پہ لکھنے والوں پہ انگلی اٹھا رہے ہیں لیکن کوئی نہیں جو خود کے گریبان میں جھانک کے دیکھے کہ اس کا خود کا فیلڈ آف انٹرسٹ کیا رہ گیا ہے؟

اگر آپ اور میں یہ چاہتے ہیں کہ لوگ فضول موضوعات کے پیچھے بھاگنا چھوڑیں تو سلگتے موضوعات کیا ہیں؟ ان پہ کیا لکھنا ہے؟ کیسے لکھنا ہے؟ یہ بھی آپ کو اور مجھے ہی بتانا ہو گا. ورنہ تنقید کرنا چھوڑ دیجیے. جس کو جس موضوع پر لکھ کر ویوز ،کمنٹس یا لائکس ملنے کی امید ہے یا وہ ان کا فیلڈ آف انٹرسٹ ہے تو انہیں وہ کرنے دیجیے، مگر ساتھ اپنے آپ کو دیکھیے ، اپنا محاسبہ کیجیے کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں؟ کس بات پر قوم کو ایجوکیٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اور کر بھی رہے ہیں کہ نہیں ؟

Comments

رقیہ اکبر چوہدری

رقیہ اکبر چوہدری شاعرہ، کالم نویس اور کہانی کار ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا آغاز بچوں کی کہانیوں سے کیا۔ پھول، پیغام اور بچوں کے دیگر کئی رسالوں اور اخبارات میں کہانیاں شائع ہوئیں۔ نوائے وقت، تکبیر، زندگی، ایشیا، ہم قدم اور پکار کے لیے مضامین لکھے۔"نکتہ داں کے قلم سے" کے عنوان سے کالم کئی برس تک پکار کی زینت بنا۔ معاشرتی اور سماجی مسائل بالخصوص خواتین کے حقوق ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ادبی رسائل میں شاعری اور تنقیدی مضامین تواتر سے شائع ہوتے ہیں۔ دو کتابیں زیر طبع ہیں

Click here to post a comment