ظالموں کی مذمت کرنے کے بجائے مظلوموں کو کٹہرے میں کھڑے کرنے والوں کی بھی اپنی ہی نوعیت کی ذہنی سطح ہے.
دیکھیں صاحب ! مہذب دنیااور اس کے قائم کردہ امن و انصاف، جمہوریت اور بشری حقوق کے اداروں نے جہاں دنیا میں کئی معاملات درست کیے ہیں، وہیں ارض قدس سے لیکر بوسنیا ہرزیگوینا تک مسلم خطوں سے متعلق معاملات میں بدترین تعصب و تاخیر اور کہیں قاتلوں اور کہیں حملہ آوروں کی سرپرستی کا کردار ادا کیا ہے. اس نکتے پہ گفتگو ہونی چاہیے اور بہت کھل کر ہونی چاہیے. کوئی تحریک، شخصیت یا حکومت محض اس لیے دہشت گرد نہیں کہلائی جاسکتی کہ دنیا کے چوہدری ایسا کہتے ہیں، بلکہ انصاف پسند دانشوروں کو دہشت گردی ہی نہیں، اس کی وجوہات اور عالمی اداروں کی ناکامی پہ بھی بات کرنی چاہیے . یہی اہل دانش کا منصب ہے.
رہی بات غزہ جنگ بندی کی تو یاد رہے حماس محض ایک مجموعہ ہے ، اسرائیلی طاقت، ٹیکنالوجی، وسائل، لابی اور استعمار کی سرپرستی کے سامنے اس کی کوئی حیثیت ہے نہ مدمقابل کے آگے اہمیت، مگر اس کے باوجود استقلال، جرات ، بہادری، خدا پہ یقین، جان دینے کے جذبے اور آزاد ریاست کے لیے ان کی لازوال جدوجہد ان کے عزم کا استعارہ ہے . دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی غلامی سے نجات پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملی. قربانی تو دینا پڑتی ہے چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا، خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد کچھ راجواڑے استعمار نے تخلیق کیے، کچھ ان کے کمزور ہونے کے سبب تشکیل پائے، مگر ان تمام خطوں میں آمر ، بادشاہ اور جمہوری حکمران، کم و بیش انھی کے سہولت کار اور وفادار تھے یعنی کہ ادھوری آزادی.
غزہ میں یہی کچھ ہوا ہے. فتح و شکست الگ پہلو ہے، مگر کچھ باتیں سمجھ لیں. نیتن یاہو کا مقصد قطعی جنگ بندی نہ تھا ، اس کا واضح اعلان حماس کو نیست و نابود کرنا اور اپنے مغوی بازیاب کرانا تھا، جنگ بندی کے حوالے سے نیتن یاہو نے ہر طرح کے دباؤ کو جوتے کی نوک پہ رکھا. ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطی کو جہنم بنانے کی دھمکی محض حماس کو نہیں دی تھی، اہل غزہ تو 77 برس سے جہنم ہی میں رہ رہے ہیں، ٹرمپ نے بین السطور نے نیتن یاہو کو دھمکی دی کہ میں اپنی حلف برداری سے قبل سکون کا معاملہ چاہتا ہوں. ظاہر ہے مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ٹرمپ اپنی حلف برداری ایسے ماحول میں نہیں کرسکتا، اسے بادشاہوں کے مزاج کے مطابق ماحول درکار ہے جو کہ اس نے بنادیا (پاکستان میں عمران خان اور حکومت کے مذاکرات بھی مجھے اسی طرح کے نظر نہ آنیوالے دباؤ کا نتیجہ لگتے ہیں)
اسرائیل اپنی پوری طاقت، ہیبت، ٹیکنالوجی، بمباری اور غزہ کو ملیامیٹ کر چکنے کے باوجود اپنے مغوی نہیں چھڑا سکا . یہ ایمان کے مقابل ٹیکنالوجی کو خدا سمجھنے والوں کی بھی ناکامی ہے. آج کی تاریخ میں نیتن یاہو کا غرور پاش پاش ہے ، اسے اپنے طاقتور الفاظ کو نگلنا پڑا ہے ، اس نے جنگ بندی بھی کی، حماس موجود بھی ہے اور مغوی بھی رہا نہ کراسکا. گزشتہ سوا سال سے ہزاروں اسرائیلی شہری اپنے دارلحکومت کی سڑکوں پہ ہیں، ہزاروں سال کی جدوجہد، لاکھوں قربانیوں اور سازشوں کے نتیجے میں حاصل ہونیوالی اسرائیلی ریاست محض 77 سال کے عرصے میں نہ صرف آپسی اختلاف کا شکار ہے بلکہ عدم تحفظ اس درجہ کا ہے کہ اطراف میں سہولت کار حکومتیں اور عالمی سرپرستی ہی اسے کسی حد تک محفوظ رکھ سکتی ہے، نیز دنیا بھر کے انصاف پسند غاصب ریاست کیخلاف نفرت کے جذبے کے ساتھ یوں سرگرم ہیں کہ ظالم اور مظلوم پوری دنیا کے سامنے عیاں ہیں. مظلومیت کی خود ساختہ داستانیں ہوا ہوچکیں، اربوں کی لابنگ فلمیں ، خبریں سب کچھ غزہ کی گرد میں ڈوب گیا. کچھ باقی ہے تو وہ اہل غزہ کی مظلومیت ہے اور کچھ نہیں.
ایمان، اخلاص اور استقامت کے ساتھ کھڑے رہنے میں زندگی ہے، ورنہ اسباب و مدمقابل کا موازنہ کریں تو بدر کا معرکہ بھی نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر معرکہ ہوا اور حق کو کامیابی ملی. ہماری کامیابی ناکامی سے بڑھ کر اصل معاملہ اپنے حصے کی مزاحمت اور جدوجہد ہے. ہم اسی کے مکلف ہیں. یہی ایمان ہے، یہی بہادروں کا رستہ ہے، باقی سب دھوکہ ہے، مادیت کا فریب ہے، وہن کا مرض ہے، اور اس کا علاج کسی حکیم کے پاس نہیں.
تبصرہ لکھیے