ہماری کلاس میں اکثر خواتین کو سبق یاد نہیں ہوتا تھا تو ہم اپنی ٹیچر سے کہتے تھے کہ الحمد للہ ہماری شادیوں کوکئی کئی سال گزر چکے ہیں،اس لیےہمارے دماغ کی پروگرامنگ ایسی ہو چکی ہے کہ سنو اور چپ رہو ،پھر بھول جاؤ، دیکھو اورچپ رہو پھر بھول جاؤ، اس پیٹرن پر ہم سب کی زندگی گلزار ہے،اب اسی پروگرامنگ کے تحت کلاس میں سنا اور پڑھا ہوا سبق بھی ہمیں یاد نہیں رہ پاتا تو کلاس میں ہنس مذاق کے بعد بات آئی گئی ہوجاتی لیکن کیا منتھلی ٹیسٹ یا فائنل امتحان میں ہم یہ کہہ کر کام نکال سکتے ہیں؟ نہیں! ہمارے نمبر کٹ جائیں گے، ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے،اتنا وقت لگا کربھی سرٹیفیکشن سے محروم رہ جائیں گے۔
چلیں یہ توایک کورس کی بات ہے، لیکن ایک مسلمان اپنی زندگی میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کڑے امتحان کے وقت بار بار فیل ہوتا رہے تو صرف پانچ بنیادوں یعنی کلمہ ،نماز،روزہ زکوۃ اور حج کے پورا ہونے پر اس کے جنت کے محلات کس طرح تعمیر ہو سکیں گے؟ بنیادیں تو بنا لیں لیکن در و دیوار، کھڑکی، دروازوں رنگ و روغن، سجاوٹ کے لیے نہ سامان ہے نہ سرمایہ، کیونکہ تواصوا بالحق پر وہ گونگا بہرہ اندھا بنا رہا، تواصوا بالصبر پر وہ ذہنی معذور بنا رہا ، اور گمان یا دعویٰ یہ کہ میں تو اللہ کا سپاہی ہوں، مجھے فلاں فلاں مراعات ملنی ہی چاہییں تو یہ خام خیالی ہی ہوئی نا ؟ ہماری زندگی سے نہ جانے کب یہ اہم فریضہ نکلتا چلا گیا اور ہم نااہلی کے وبال میں پڑ گئے،لیکن یاد رکھیں کہ سچی توبہ کے ذریعے ہم اب بھی اس ابتلاء سے باہر نکل سکتے ہیں، انسانی جسم میں جگراور دل اگر بگڑ جاۓ تو پورے جسم کا سسٹم بگڑ جاتا ہے لیکن انہیں سنوارنے پر محنت کریں تو یہ بہت جلد ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں ، الا یہ کہ بات ہاتھ سے نکلنے تک سستی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جاتا رہے.
پاکستانی ڈرامے ہمارے معاشرے میں دل و جگر کی ہی حیثیت اختیار کر چکے ہیں بلکہ یوں سمجھ لیں کہ ہاتھ، پاؤں ذہن زبان تک بن چکے ہیں. ویسے تو ہم بہت اصول پسند لوگ واقع ہوۓ ہیں؛بچوں کو بتاتے ہیں کہ محلے کا فلاں بچہ بگڑ گیا ہے، خبردار اب اس کی صحبت میں دکھائی نہ دینا! فلاں رشتہ دار رشوت لیتا ہے، اس کے گھر کا کھانا نہیں کھانا! فلاں نے ہماری خاندانی روایات سے بغاوت کی ہے تو اب ان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا! لیکن ڈرامہ تو دل و جگر ہے نا، اسے کیسے کاٹ کر پھینکا جا سکتا ہے ؟ یہ کتنا بھی بگڑ جائے ہماری وہ لاڈلی اولاد ہے جسے کسی قیمت پر چھوڑ بھی تو نہیں سکتے اور مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے.
جب ڈرامہ بگڑا تو نہ ہم نے اسے گھر سے نکالا نہ خود اس کا در چھوڑ کر ہٹے، پھر وہی ہوا کہ رفتہ رفتہ دھیرے دھیرے سلو پوائزنگ کی طرح شیطان ہمیشہ سے چٹکی چٹکی زہر کھلا کر بے حیائی کی طرف لاتا رہا،یہاں تک کہ معاشرہ جب چکھتے چکھتے جی بھر کے بے حیائی دیکھنے سننے کا ہ مشتاق ہو گیا ، تواس ڈش پر اب مدھم رفتار سے ہم جنس پرستی کا تڑکہ لگ رہا ہے کہ شوں شاں کی آواز سے کسی کا ضمیر ہی نہ جاگ جاۓ،یہ وہ گناہ ہے جس پر خاموش رہنے یا خاموشی سے ساتھ دینے پر نبی کی بیوی بھی پکڑ میں آگئی، اس لیے اسے ہلکا سمجھ لینا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے سے بھی بدتر ہے۔
ہم وہ لوگ ہیں جن سے قریبی رشتہ داروں کی ذرا سی حق تلفی یا نقصان یا قرضہ معاف نہیں ہوتا لیکن ڈرامہ ایسا کوئی لاڈلہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کھلے عام جوائے لینڈ جیسی فلم میں کام کرنے والے ادکار،ہدایت کار اسے ریلیز اور پروموٹ کرنے والے معاونین میں سے کسی کا بھی بائیکاٹ نہیں کیا گیا کہ عوام اپنا غصہ، اپنی طاقت، دینی حمیت دکھاتے اور ان کے اگلے پچھلے ڈراموں اور انٹرویوز تک کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے یو ٹیوب ، ریلز اور شارٹس پر انھیں کلک کر کر کے مال اور شہرت حاصل کرنے میں سپورٹ نہیں کرتے، کیونکہ ایک ایک کلک پر مال بنتا اور آپس میں بٹتا ہے- لیکن ایسا کرنے سے توموٹا بھدا نفس بھوکا مر جاتا نا! ڈرامہ ہمارے یہاں شادی موت غمی خوشی کا لازم حصہ بریانی کے جیسے ہے جہاں لوگ صدیوں کے بھوکے ہی جاتے ہیں اور کفران نعمت جیسے گناہ کے مرتکب نہیں ہو سکتے، جس طرح بریانی میں عموماً ثابت گرم مصالحہ، سبز مرچ یا پودینہ پسند نہیں کیا جاتا تو لوگ کہتے ہیں نا کہ بھئی اس کے بغیر تو بریانی بن ہی نہیں سکتی، یہ تو لازمی اجزاء ہیں، آپ کو جو چیز پسند نہیں اسےسائیڈ میں کرو، پیٹ بھرو لطف اٹھاؤ ، ہمیں بھی اٹھانے دو. ہم اسی موڈ پر سیٹ ہو گئے ہیں کہ یار ایک ہی تو تفریح ہے بھائی ڈرامے میں جو برا لگتا ہو اسے سائیڈ میں کرو ، نفس کا پیٹ بھرو ، لطف اٹھاؤ، ہمیں بھی اٹھانے دو.کسی لڑکی نے صرف آستین کےبغیر ہی کپڑے پہن لیے ہیں تو اگنور کردو نا، یہاں سے وہاں تک "مسلم " عورتوں کے پائنچے صرف گھٹنے ہی ڈھک پا رہے ہیں تو اگنور کرو،انتہائی ریویلنگ کپڑے پہنے ہوئے ہیں تو بس دو منٹ کا ہی سین ہے اگنور کرو، گھٹیا سین آگیا ہے اگنور کرو، جملے ولگرآگئے ہیں اگنور کرو۔سوال یہ ہے کہ شدید بھوک میں ملنے والی بریانی کی بڑی سی دیگ میں صرف ایک چمچ پاؤڈر حرام جانور کا ہو گا تو آپ ہاتھ روک کر کسی مفتی سے فتوی لیں گے ؟ یا دیگ الٹ دیں گے تاکہ دوسرے بھی اس سے محفوظ رہ پائیں؟جہاں سے بریانی آئی اس کا نان نفقہ حقہ پانی بند کریں گے یا اس کی طرف سے رعایات ملنے پر اس کے ایجنٹ بن جائیں گے؟
جیو کی طرح منٹ بھر کا ایک سین "بجو" میں شازیہ فاروقی نے نوٹ کیا اور مجھے بھیجا کہ اس پر ہمیں بات کرنی چاہۓ ، یقین کریں اتنا نارمل دکھایا ہے کہ چھوٹی بستیوں میں دو زنخوں کا ساتھ گھومنا عام سی بات ہے- ہر وہ گناہ جس پر سخت پکڑ ہے خواہ شادی شدہ مسلمان کا ایکسٹرا میریٹل افیئر ہو،زنا ہو ، بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کلچر ہو، نشہ ہو یا حرام کمائی سے بنے سٹیٹس ہوں، سیر سپاٹے، بزنس ہوں، بس آپ کو شوبز میں پرانا ہونا ہے اور ذرا سا مشہور تو آپ کو سو گناہ معاف ہی نہیں بلکہ "عزت و محبت " میں اضافے کا باعث ہیں. کل تک ایک ویمپ کو معاشرے کے سامنے جواب دہ ہوتے بتانا پڑتا تھا کہ فلاں لباس یا انداز سین کی ڈیمانڈ تھا لیکن جب امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مزاج ہی ختم ہو گیا تو اب پرانے اداکاروں کی بیٹیاں، بھانجیاں، نواسیاں، بھتیجیاں ریولنگ کپڑوں میں پوڈ کاسٹ فرماتی، ویلاگز بناتی انٹرویو لیتی ہیں اور"مسلم" معاشرے میں دیویوں کی طرح پوجی جاتی ہیں، ان کی عمر رسیدہ ہنس مکھ مائیں مذاق میں کہہ دیا کرتی ہیں کہ میاں کبھی مونہہ کا ذائقہ بدل لیا کرتے ہیں لیکن ثبوت ہاتھ نہیں لگنے دیتے ،کبھی "پانی شانی" پی لیتے ہیں. یہ ہے جگر چلانے والوں کے کردار ، سورائیسس کا شکار، غلاظت کا ڈھیر، بس غلاظت کو اگنور کریں تو باقی صاف ستھرا پاکیزہ ہی ہے نا ڈرامہ.
ٹھیک ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے، گناہ کرنے کے بعد توبہ کرنے والا متقی ہوسکتا ہے،انسان فرشتہ نہیں ،لیکن گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھنا یا اتنا ہلکا کر دینا کہ وہ عام سی بات ہو جائے، اس جرم میں پاک باز ڈرامہ لوورز کس حد تک شامل ہیں، یہ بہت غور طلب بات ہے. یہ جو سورۃ الکہف کی پہلی اور آخری دس آیات روز پڑھنے کی تاکید ہے اس میں اس پہلو سے تدبر کی بھی ضرورت ہے. ایک لفظ حبط اعمال کو سمجھنا کس قدر اہم ہےنا، دجل کیا ہے یہ جاننا یا د رکھنا ضروری ہے. ہم جانتے ہیں کہ دھوکہ دینے والا ہم میں سے نہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ ہم بہت سمارٹ بھی ہیں اور اس بات پر فخر بھی کرتے ہیں کہ کوئی دھوکہ دے ، یہ ہم سے برداشت نہیں ہو سکتا ، ہم دوبارہ اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتے، ہم تو دغا باز کو اس کے گھر تک پہنچا کرآتے ہیں لیکن ڈرامے کے نام پر ہم خود کو ٹرین کرتے ہیں کہ دیکھو میری جان، میرے ضمیر، میری عقل! تمھیں دھوکہ کھانا ہی ہے کیونکہ تفریح اور فنون لطیفہ سے لطف لینے ہی تم پیدا ہوئے ہو ، اس کے سوا تمھاری پیدائش کا کوئی مقصد نہیں اور پریشانیوں سے نجات کی کوئی راہ بھی تو نہیں! دشمن سے لڑنے کا کوئی ہتھیار بھی تو نہیں…تو یہ عورت جو بہت مظلوم دکھائی جا رہی ہے، گو کہ حقیقت میں یہ بہت ہی چالاک، عیار ، بدقماش سہی لیکن تم گھنٹہ بھر اس سے دھوکہ کھا لو، یہ جو بہت شریف دکھائی جا رہی ہے، یہ ایوارڈز کی تقریب میں ہی تو بس سب سے کم کپڑے پہن کر آتی ہےنا، تو تم وہ تقریب بریانی کے الم غلم کی طرح اگنور کردو۔غرض ڈرامہ وہ ہتھیار بن چکا ہے، جس کی گولی صفائی کے دوران اپنی نسل کا خاتمہ کر دے.
ہمیں پتہ چلتا ہے کہ فلاں قادیانی ہے تو ہم کہتے ہیں اس کی دکان سے سودا نہیں لینا ، لیکن ڈرامہ دیکھتے وقت ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ لکھا کس عقیدے کے مسلمان نے ہے، پروڈیوس کون کر رہا ہے، پیش کار کا مقصد یا ایجنڈا کیا ہے، اور ہم اسے اپنا امام بنا لیتے ہیں، جبکہ مسجدیں دیکھ دیکھ کر نماز پڑھتے ہیں کہ ہم فلاں امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے کیونکہ وہ تو اسلام کے دائرے سے ہی باہر ہے۔
اچھا چند کام شوبز سے وابستہ چند لوگ اچھے بھی کر لیتے ہیں جیسے کہ سادی شادی،بڑی عمر کے باوجود شادی ،سوشل ورک،تعلیمی قابلیت بڑھانا،اپنے بچوں کے بچوں کی پرورش میں مددگار ثابت ہونا،زبانی تو شاید ان کی کچھ واہ واہ ہو جاتی ہے، لیکن مجال ہے کہ عملی طور پر چند ایک سے زیادہ افراد پیروی کریں،عوام کو جانا پائیڈ پائپر کی دھن پر ہی ہے۔ ان میں چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے یو ٹیوبرز، کامیڈینز اور کانٹینٹ رائٹرز تک شامل ہیں، جو بہترین ویڈیوز کے بیچ میں ہلکی پھلکی ڈوز ہم جنس پرستی کی شامل کردیتےہیں، اس لیے ہوشیار رہیں، آواز اٹھائیں، جگائیں، ہوش دلائیں، ان خرافات پر بولیں، لکھیں، پٹیشنز سائن کریں، اپنے جگر گوشے کا علاج کروائیں. جہاں پہلے آپ لوگوں نے اپنی طاقت سے کچھ ڈرامے بند کروائے ہیں وہاں چھوٹے چھوٹے ایسے سینز کو بھی بند کروائیں تاکہ رفتہ رفتہ یہ سلو پوائزننگ ہمارے معاشرے کی رگوں میں سرایت کرنے سے رک جائے ۔
تبصرہ لکھیے